جب بیسویں صدی کی وسط میں نئی اینٹی بائیوٹکس آنا شروع ہوئیں تو ایک اہم سوال اٹھ کھڑا ہوا۔ کیسے پتا لگے کہ نئی دوا کام کرتی ہے؟ جب سٹریپٹومائیسین دریافت ہوئی تو اس نے امید جگا دی کہ تپدق اب قابلِ علاج ہو سکتی ہے۔ سٹرپٹومائیسین تپدق پیدا کرنے والے مائیسوبیکٹیریا کو لیبارٹری میں مار دیتی تھی لیکن کیا انسانوں میں بھی یہ ایسا کر سکے گی؟ یہ بہت قلیل مقدار میں دستیاب تھی۔ اس کا تجربہ کیسے کیا جائے؟
اس پر بریڈفورڈ ہِل نے ایک غیرمعمولی حل پیش کیا۔ ہِل کو احساس ہوا کہ ایسے تجربے کے لئے ڈاکٹروں پر بالکل اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ اپنے ذاتی تعصب رکھتے ہیں۔ ہر تجربے کو ایک “کنٹرول” کی ضرورت ہو گی۔ ایسے لوگ جن کا علاج نہ کیا جائے بمقابلہ ایسے جن پر یہ تجرباتی دوا استعمال ہو۔ لیکن اگر اس کو ڈاکٹروں پر چھوڑ دیا گیا تو وہ لازمی طور پر (خواہ غیرشعوری ہی ہو) خاص مریض منتخب کریں گے جن پر اس دوا کا تجربہ ہو اور یہ عام مریضوں کے نمائندہ نہیں ہوں گے۔
ہل نے جو حل تجویز کیا اس میں ایسے مریضوں کا چناوٗ رینڈم ہو۔ رینڈم طریقے سے چنے گئے مریضوں کو سٹریپٹومائسین دی جائے جبکہ باقی کو پلاسیبو۔
رینڈمائزڈ تجربہ کامیاب رہا۔ جن مریضوں کو سٹرپٹومائسین دی گئی تھی، وہ واضح طور پر دوسرے گروپ سے بہتر تھے۔ یہ تجربہ سٹریپٹومائسین کے لئے کامیاب رہا لیکن اس سے زیادہ اہم ایجاد طریقے کی تھی کیونکہ اس طریقے سے ٹھیک طرح سے دوا کی افادیت کا معلوم کیا جا سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبروڈ نے کینسر کے علاج کے لئے ایسے نئے پروٹوکول تجویز کئے۔ نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ نے ان پر عمل کیا۔ ہر ٹرائل “ہاں” یا “نہیں” کا جواب دے۔ ایک کے بعد اگلا ٹرائل کیا جائے۔ یہاں تک کہ خون کے کینسر کا علاج معروضی طریقے سے مل جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا زہر جو انسانی خلیے کو مار دے، کینسر ریسرچز کے لئے دلچسپ تھا۔ ایکٹینومائیسین ڈی ایک ایسا کیمیکل تھا۔ اس انتہائی زہریلے کیمیکل کا تجربہ 275 بچوں پر 1955 میں کیا گیا جو مختلف طرح کے کینسر میں مبتلا تھے۔ اس نے ولمز ٹیومر پر اچھا اثر دکھایا جو کہ بہت چھوٹے بچوں میں گردے میں ہونے والا کینسر تھا۔ اس کے علاج کا طریقہ سرجری سے گردہ نکالنا اور ریڈی ایشن تھراپی تھا۔ لیکن پھیل جانے والے کینسر میں یہ کام نہیں کرتا تھا۔
ایسے بچوں میں ایکسرے تھراپی اور ایکٹینومائیسین ڈی کا اکٹھا وار کارگر رہا۔ ولمز ٹیومر پہلا ٹھوس ٹیومر تھا جو کیمیوتھراپی کے نشانے پر آ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خوفناک بیماری کا شکار ننھے معصوم بچوں کے ساتھ لگے آئی وی پول سے ان کے جسم میں انڈیلے جانے والے کیمیکل کے یہ تجربات خوشگوار نہیں تھے۔ تکلیف دہ تھے۔ ایک دوا کام نہیں کرتی تھی تو اگلی دوا کا استعمال اور پھر اگلی کا۔ یہ کینسر سے کی جانے والی بھرپور جنگ تھی۔ موت عام تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اس طریقے سے دو یا تین ادویات کا اکٹھا ٹیسٹ کیا جا سکتا تھا؟ زبروڈ، فرائیرائیک اور فرے نے نوٹ کیا کہ کئی ادویات موجود تھیں اور ایسا پہلا پروٹوکول لانچ کر دیا گیا۔
تین ہسپتالوں نے اس میں شرکت کی۔ اس میں چوراسی مریض شامل تھے۔ ایک پر ادویات کی شدید ڈوز جب کہ ایک گروپ پر کم ڈوز دی جانی تھی۔
جن کو شدید ڈوز دی گئی تھیں، ان کا ریسپانس بہتر تھا اور زیادہ عرصہ رہا۔ نتیجہ صاف ظاہر تھا۔ یہ علاج تو نہیں تھا کیونکہ کینسر جلد واپس آ گیا اور شدید ڈوز والے بچے بھی ایک سال میں فوت ہو گئے۔
اگلا تجربہ 1957 میں ہوا۔ اس میں تین گروپ بنائے گئے۔ ایک کو دو ادویات، جبکہ دوسرے کو ایک ایک دوا دی گئی۔ نتیجہ سامنے آ گیا۔ دو ادویات کا نتیجہ ایک دواسے خاصا بہتر رہا۔ پینتالیس فیصد کیس ایسے تھے جس میں کینسر کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔
اگلا تجربہ 1959 میں ہوا۔ اس میں دونوں گروپس کو دو ادویات دی گئیں، یہاں تک کہ کینسر ختم نہ ہو گیا۔ اس کے بعد ایک گروپ کو کئی مہینوں تک یہ دوا ٹھیک ہو جانے کے بعد بھی دی جاتی رہی، جبکہ دوسرے کو پلاسیبو۔ ایک بار پھر نتیجہ واضح تھا۔ دیر تک دوا دئے جانے کا اثر بہتر تھا۔
چھ سال تک جاری رہنے والے تجربات میں نتائج سامنے آتے رہے۔ 1962 تک لیوکیمیا کی میڈیسن کی سمت سامنے آ چکی تھی۔ یکے بعد دیگرے چار ادویات سے علاج سب سے بہتر رہا تھا۔
کیا چاروں ادویات ایک ہی وقت میں اکٹھی دی جا سکتی تھیں؟ بچوں کو اس قدر زہریلی ادویات اکٹھے دینا؟ کیا یہ دینا درست تھا یا نہ دینا درست تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف بوسٹن میں چین سے آنے والے ڈاکٹر چیو لی اپنے تجربے میں ادویات کا استعمال بہت دیر تک کر رہے تھے۔ اس وقت تک جب تک نہ صرف کینسر ختم ہو جائے بلکہ ایک ہارمون کوریوگوناڈوٹروپن کی سطح بھی صفر پر آ جائے۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک یہ صفر پر نہیں آئے گی، کینسر واپس آ سکتا ہے۔
یہ غیرروایتی طریقہ تھا۔ کیونکہ عام طور پر علاج مریض کا کیا جاتا تھا اور اس کی علامات دیکھی جاتی تھیں۔ نہ کہ اس کے جسم کے ہارمونز کی سطح معیار ہوتی تھی۔ جبکہ ڈاکٹر لی کا حدف ایک عدد تھا۔ جب کینسر ریسرچ انسٹی چیوٹ کو ڈاکٹر لی کے تجربے کا علم ہوا تو ان کو ملازمت سے برخواست کر دیا گیا۔ ان پر “انسانوں پر تجربات” کرنے کا الزام تھا۔ (اگرچہ کہ تمام کینسر کی ادویات انسانوں پر تجربہ ہی ہوتا ہے۔ جبکہ تجربہ نہ کرنے کا مطلب ناکامی قبول کر لینا ہے)۔
لی کی کہانی میں ایک موڑ باقی تھا۔ جن مریضوں کے ہارمون کی سطح وہ صفر تک لے کر گئے تھے، ان میں مہینوں تک کینسر واپس نمودار نہیں ہوا۔ چیو لی کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے لیکن کیموتھراپی کی مدد سے ٹھوس میٹاسٹیٹک کینسر کا مکمل علاج کر دینے والے پہلے ڈاکٹر وہی تھے۔ بورڈ کو اس کا ادراک کئی برس بعد ہوا۔
(جاری ہے)
اس پر بریڈفورڈ ہِل نے ایک غیرمعمولی حل پیش کیا۔ ہِل کو احساس ہوا کہ ایسے تجربے کے لئے ڈاکٹروں پر بالکل اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ اپنے ذاتی تعصب رکھتے ہیں۔ ہر تجربے کو ایک “کنٹرول” کی ضرورت ہو گی۔ ایسے لوگ جن کا علاج نہ کیا جائے بمقابلہ ایسے جن پر یہ تجرباتی دوا استعمال ہو۔ لیکن اگر اس کو ڈاکٹروں پر چھوڑ دیا گیا تو وہ لازمی طور پر (خواہ غیرشعوری ہی ہو) خاص مریض منتخب کریں گے جن پر اس دوا کا تجربہ ہو اور یہ عام مریضوں کے نمائندہ نہیں ہوں گے۔
ہل نے جو حل تجویز کیا اس میں ایسے مریضوں کا چناوٗ رینڈم ہو۔ رینڈم طریقے سے چنے گئے مریضوں کو سٹریپٹومائسین دی جائے جبکہ باقی کو پلاسیبو۔
رینڈمائزڈ تجربہ کامیاب رہا۔ جن مریضوں کو سٹرپٹومائسین دی گئی تھی، وہ واضح طور پر دوسرے گروپ سے بہتر تھے۔ یہ تجربہ سٹریپٹومائسین کے لئے کامیاب رہا لیکن اس سے زیادہ اہم ایجاد طریقے کی تھی کیونکہ اس طریقے سے ٹھیک طرح سے دوا کی افادیت کا معلوم کیا جا سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبروڈ نے کینسر کے علاج کے لئے ایسے نئے پروٹوکول تجویز کئے۔ نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ نے ان پر عمل کیا۔ ہر ٹرائل “ہاں” یا “نہیں” کا جواب دے۔ ایک کے بعد اگلا ٹرائل کیا جائے۔ یہاں تک کہ خون کے کینسر کا علاج معروضی طریقے سے مل جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا زہر جو انسانی خلیے کو مار دے، کینسر ریسرچز کے لئے دلچسپ تھا۔ ایکٹینومائیسین ڈی ایک ایسا کیمیکل تھا۔ اس انتہائی زہریلے کیمیکل کا تجربہ 275 بچوں پر 1955 میں کیا گیا جو مختلف طرح کے کینسر میں مبتلا تھے۔ اس نے ولمز ٹیومر پر اچھا اثر دکھایا جو کہ بہت چھوٹے بچوں میں گردے میں ہونے والا کینسر تھا۔ اس کے علاج کا طریقہ سرجری سے گردہ نکالنا اور ریڈی ایشن تھراپی تھا۔ لیکن پھیل جانے والے کینسر میں یہ کام نہیں کرتا تھا۔
ایسے بچوں میں ایکسرے تھراپی اور ایکٹینومائیسین ڈی کا اکٹھا وار کارگر رہا۔ ولمز ٹیومر پہلا ٹھوس ٹیومر تھا جو کیمیوتھراپی کے نشانے پر آ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس خوفناک بیماری کا شکار ننھے معصوم بچوں کے ساتھ لگے آئی وی پول سے ان کے جسم میں انڈیلے جانے والے کیمیکل کے یہ تجربات خوشگوار نہیں تھے۔ تکلیف دہ تھے۔ ایک دوا کام نہیں کرتی تھی تو اگلی دوا کا استعمال اور پھر اگلی کا۔ یہ کینسر سے کی جانے والی بھرپور جنگ تھی۔ موت عام تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اس طریقے سے دو یا تین ادویات کا اکٹھا ٹیسٹ کیا جا سکتا تھا؟ زبروڈ، فرائیرائیک اور فرے نے نوٹ کیا کہ کئی ادویات موجود تھیں اور ایسا پہلا پروٹوکول لانچ کر دیا گیا۔
تین ہسپتالوں نے اس میں شرکت کی۔ اس میں چوراسی مریض شامل تھے۔ ایک پر ادویات کی شدید ڈوز جب کہ ایک گروپ پر کم ڈوز دی جانی تھی۔
جن کو شدید ڈوز دی گئی تھیں، ان کا ریسپانس بہتر تھا اور زیادہ عرصہ رہا۔ نتیجہ صاف ظاہر تھا۔ یہ علاج تو نہیں تھا کیونکہ کینسر جلد واپس آ گیا اور شدید ڈوز والے بچے بھی ایک سال میں فوت ہو گئے۔
اگلا تجربہ 1957 میں ہوا۔ اس میں تین گروپ بنائے گئے۔ ایک کو دو ادویات، جبکہ دوسرے کو ایک ایک دوا دی گئی۔ نتیجہ سامنے آ گیا۔ دو ادویات کا نتیجہ ایک دواسے خاصا بہتر رہا۔ پینتالیس فیصد کیس ایسے تھے جس میں کینسر کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔
اگلا تجربہ 1959 میں ہوا۔ اس میں دونوں گروپس کو دو ادویات دی گئیں، یہاں تک کہ کینسر ختم نہ ہو گیا۔ اس کے بعد ایک گروپ کو کئی مہینوں تک یہ دوا ٹھیک ہو جانے کے بعد بھی دی جاتی رہی، جبکہ دوسرے کو پلاسیبو۔ ایک بار پھر نتیجہ واضح تھا۔ دیر تک دوا دئے جانے کا اثر بہتر تھا۔
چھ سال تک جاری رہنے والے تجربات میں نتائج سامنے آتے رہے۔ 1962 تک لیوکیمیا کی میڈیسن کی سمت سامنے آ چکی تھی۔ یکے بعد دیگرے چار ادویات سے علاج سب سے بہتر رہا تھا۔
کیا چاروں ادویات ایک ہی وقت میں اکٹھی دی جا سکتی تھیں؟ بچوں کو اس قدر زہریلی ادویات اکٹھے دینا؟ کیا یہ دینا درست تھا یا نہ دینا درست تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف بوسٹن میں چین سے آنے والے ڈاکٹر چیو لی اپنے تجربے میں ادویات کا استعمال بہت دیر تک کر رہے تھے۔ اس وقت تک جب تک نہ صرف کینسر ختم ہو جائے بلکہ ایک ہارمون کوریوگوناڈوٹروپن کی سطح بھی صفر پر آ جائے۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک یہ صفر پر نہیں آئے گی، کینسر واپس آ سکتا ہے۔
یہ غیرروایتی طریقہ تھا۔ کیونکہ عام طور پر علاج مریض کا کیا جاتا تھا اور اس کی علامات دیکھی جاتی تھیں۔ نہ کہ اس کے جسم کے ہارمونز کی سطح معیار ہوتی تھی۔ جبکہ ڈاکٹر لی کا حدف ایک عدد تھا۔ جب کینسر ریسرچ انسٹی چیوٹ کو ڈاکٹر لی کے تجربے کا علم ہوا تو ان کو ملازمت سے برخواست کر دیا گیا۔ ان پر “انسانوں پر تجربات” کرنے کا الزام تھا۔ (اگرچہ کہ تمام کینسر کی ادویات انسانوں پر تجربہ ہی ہوتا ہے۔ جبکہ تجربہ نہ کرنے کا مطلب ناکامی قبول کر لینا ہے)۔
لی کی کہانی میں ایک موڑ باقی تھا۔ جن مریضوں کے ہارمون کی سطح وہ صفر تک لے کر گئے تھے، ان میں مہینوں تک کینسر واپس نمودار نہیں ہوا۔ چیو لی کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے لیکن کیموتھراپی کی مدد سے ٹھوس میٹاسٹیٹک کینسر کا مکمل علاج کر دینے والے پہلے ڈاکٹر وہی تھے۔ بورڈ کو اس کا ادراک کئی برس بعد ہوا۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں