جنگ سے عام طور پر دو صنعتیں سب سے زیادہ ترقی کرتی ہیں۔ اسلحہ اور سگریٹ۔ دوسری جنگِ عظیم میں سگریٹ کی فروخت سب سے تیزی سے بڑھی۔ اور اس سے اگلی دہائی میں بھی بڑھنے کا سلسلہ جاری رہا۔
سگریٹ ساز اداروں نے کروڑوں اور پر دسیوں کروڑ ڈالر اشتہارات پر صرف کئے۔ اشتہارات کی اپنی صنعت میں سب سے زیادہ جدت تمباکونوشی کی حوصلہ افزائی کے حربے لے کر آئے تھے۔ آبادی کے کس حصے کو کیسے اپنے سگریٹ کی طرف اور اپنے برانڈ کی طرف مائل کرنا ہے۔ “سب زیادہ ڈاکٹر کیمل سگریٹ پیتے ہیں”۔ ایک اشتہار صارفین کو یاددہانی کروا رہا تھا۔ میڈیکل جرائد میں سگریٹ کے اشتہارات ہوتے تھے۔ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی سالانہ کانفرنس میں 1950 کی دہائی میں سگریٹ بوتھ پر مفت سگریٹ تقسیم کئے جاتے تھے۔ فلپ مورس کمپنی نے 1955 میں مارلبورو متعارف کروایا جو سب سے کامیاب رہا ہے۔ آٹھ مہینے میں اس کی فروخت ریکارڈ توڑ چکی تھی۔ اور اس کے اشتہارات کمال کے تھے۔ 1960 کی دہائی میں سگریٹوں کی سالانہ فروخت پانچ ارب ڈالر پہنچ چکی تھی۔ اوسط شہری سالانہ چار ہزار سگریٹ پی رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈول اور ہل کی سٹڈی کینسر اور تمباکو کے تعلق کو واضح کرتی تھی لیکن پبلک ہیلتھ تنظیموں کی خاص توجہ حاصل نہیں کر سکی تھی۔ لیکن تمباکو کی صنعت چوکس تھی۔ انہیں فکر تھی کہ اگر ٹار، تمباکو اور کینسر کے تعلق نے ان کے صارفین کو خوف زدہ کر دیا تو پھر انہیں مسئلہ ہو جائے گا۔ سگریٹ ساز کمپنیوں کی طرف سے “فلٹر” کا اضافہ کیا گیا اور فلٹر والے سگریٹ کو “محفوظ سگریٹ” کہہ کر مشتہر کیا گیا۔
اٹھائیس دسمبر 1953 کو نیویارک کے پلازا ہوٹل میں کئی سگریٹ ساز اداروں کے سربراہان اکٹھے ہوئے۔ انہیں خوف تھا کہ سائنسی تحقیق ان کو متاثر کرے گی۔ اس میں جوابی حملے کی حکمتِ عملی کا طے کر لیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سگریٹ ساز اداروں کی طرف سے جو بہت موثر ہتھیار چنا گیا۔ ناخوشگوار لگنے والی حقیقت کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کا استعمال عام رہا ہے۔ یہ کنفیوژن پھیلانے کا ہتھیار تھا جسے انہوں نے بہترین طریقے سے استعمال کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار سو اخبارات میں 1954 میں کئی ہفتوں تک “صاف بات” کے عنوان سے اشتہار چلتا رہا۔ چھ سو الفاظ پر مشتمل اس اشتہار میں جو بات کی گئی تھی وہ “صاف” بالکل بھی نہیں تھی۔
“چوہوں پر کئے گئے تجربات کو ایسے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سگریٹ انسانوں میں کینسر کا موجب بن سکتا ہے”۔ یہ بات بالکل غلط تھی۔ ڈول اور ہل کی اور وائنڈر اور گراہم کی سٹڈی انسانوں پر تھی۔ لیکن یہ فقرہ جان بوجھ کر چنا گیا تھا۔ آخر کس کو چوہوں کو ہونے والے کینسر کی پرواہ ہوتی۔
یہ حکمتِ عملی کا پہلا حصہ تھا۔ دوسرا وار سائنس پر کیا گیا۔
“ایسے شماریاتی نتائج جو سگریٹ نوشی اور کینسر کا تعلق دکھاتے ہیں، کئی سائنسدان اس پر سوالات اٹھا چکے ہیں”۔
آدھی بات بتا کر اور آدھی چھپا کر کیا جانے والا یہ دعویٰ نقابوں کا پیچیدہ رقص تھا۔ “سوالات اٹھانے” کا مطلب پڑھنے والے کی سمجھ پر چھوڑ دیا گیا تھا۔
اس کا آخری حصہ زبردست شاطرانہ چال تھی۔ یہ سگریٹ ساز اداروں کی طرف سے ایسے تعلقات کی تحقیق پر دی جانے والی فنڈنگ تھی۔
“ہم تمباکو اور صحت کے تعلق پر ہونے والی تحقیق کو بڑی امداد اور حمایت دیں گے۔ انفرادی طور پر سگریٹ ساز ادارے پہلے سے ہی ایسا کر رہے ہیں”۔
یہاں پر معاملے کو ایسے پیش کیا گیا تھا کہ گویا یہ تعلق ابھی طے نہیں ہوا۔ اور پر تحقیق جاری ہے۔ لوگوں کو ان کا نشہ سگریٹ کی صورت میں ملتا رہے گا اور محققین کو فنڈنگ کی صورت میں۔
تمباکو کی لابی نے تحقیقات کرنے کے لئے کمیٹی بنا دی۔ یہ محققین، سگریٹ ساز اداروں اور کنفیوز عوام کے درمیان رابطے کا کام بھی کرے گی۔ جیسا کہ سگریٹ ساز اداروں کی طرف سے بتایا جاتا رہا، اس کا سربراہ ایسے شخص کو بنایا گیا ہے جو سائنس کی گہری سمجھ رکھتے ہیں اور ان کی بہت سی سائنسی خدمات ہیں۔
یہ کلیرنس کک لٹل تھے۔ ان کو امریکن سوسائٹی فار کنٹرول آف کینسر کے صدارت سے برطرف کیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلیرنس لٹل تمباکو لابی کا بہترین انتخاب تھے۔ ماہرِ جینیات، مضبوط رائے رکھنے والے، پرجوش اور اونچی آواز والے۔ انہوں نے بار ہاربر میں جانوروں پر تجربات کی لیبارٹری بنائی تھی۔ اور جینیاتی ڈیٹرمنزم (جین سب کچھ طے کر دیتے ہیں) پر بھرپور یقین رکھتے تھے۔ وہ اس خیال کے حامی تھے کہ کینسر سمیت تمام بیماریاں وراثتی ہیں۔ اور ان کی طہارت جینیاتی طریقے سے کی جا سکتی ہے۔ بیماریوں کی روک تھام کا طریقہ آبادی کو جینیاتی طور پر مضبوط کرنے کا ہے۔ پھیپھڑوں کا کینسر جینیاتی نقص کی وجہ سے ہے۔ سگریٹ نوشی اسے عیاں کر دیتی ہے۔ سگریٹ نوشی کو اس کا سبب قرار دینا ویسا ہی ہے جیسے چھتری کو بارش کا سبب قرار دیا جائے۔ تمباکو کی لابی اور ان کے تحقیقاتی ادارے نے اس نکتہ نظر کو دل و جان سے قبول کر لیا۔
کوریلیشن ہونے کا مطلب وجہ ہونا نہیں ہے۔ لٹل کا یہ اصرار تھا۔
انہوں نے کینسر ریسرچ جرنل میں مضمون لکھا۔
“تمباکو کی صنعت پر سائنسی بددیانتی کا الزام لگانے والے خود اس جرم کے مرتکب ہیں۔ کونسا ایسا سائنسدان ہو گا جو دو واقعات ۔۔۔ کینسر اور سگریٹ نوشی ۔۔۔ کی باہم موجودگی کا مطلب یہ سمجھے گا کہ یہ اس “وجہ” سے ہے؟ یہ ایک سائنسدان کی بنیادی تربیت کا حصہ ہے ہے کہ وہ ایسی سطحی وضاحتیں نظرانداز کر دے۔ اینٹی تمباکو تحریک ایسی چیزوں کا پرچار کر کے عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش میں ہے۔ بطور سائنسدان، یہ میرا فرض بنتا ہے کہ وہ اس پراپگینڈے کا سدِ باب کریں”۔
گراہم نے اس کا سخت جواب دیا۔ “ویکسین اور چیچک سے بچاوٗ کے درمیان تعلق بھی صرف شماریاتی ہی تھا۔ سگریٹ نوشی اور پھیپھڑوں کے درمیان کینسر کا تعلق اس سے بھی زیادہ مضبوط ہے”۔
(جاري ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں