کیا تمباکو نوشی کینسر کی وجہ ہے؟ اس سوال میں بڑا مسئلہ “وجہ” کا لفظ ہے۔ سائنس کے فلسفے میں “کاز” ایک بہت پیچیدہ تصور ہے۔ جہاں تک بیماری کی وجہ کا تعلق ہے تو اس پر 1884 میں مائیکروبائیولوجسٹ رابرٹ کوک نے بیماری کی کاز کے ایجنٹ کے بارے میں تعریف بنائی تھی۔ اس کے مطابق سبب بننے والے ایجنٹ کا جانوروں پر اثر واضح ہونا چاہیے۔ مرنے والے جانوروں سے یہ ایجنٹ ملنا چاہیے اور ایک سے دوسرے میں منتقلی کا طریقہ ہونا چاہیے۔ یہ تعریف بائیولوجی میں قبول کی جاتی ہے۔
ٹرانسمشن، آئسولیشن اور ری ٹرانسمشین کے یہ تین پاسچولیٹ انفیکشن کی بیماریوں سے متعلقہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوہوں کو چین سموکر کیسے بنایا جائے؟ اس کے لئے گراہم نے “سموکنگ مشین” بنائی تھی جو ان کے ماحول کو سینکڑوں سگریٹوں کے دھویں جیسا رکھتا تھا اور ان کی جلد میں ٹار ڈالا گیا۔ گراہم اور وائنڈر نے دریافت کیا کہ اس کی وجہ سے چوہوں کی کمر پر کینسر کے ٹیومر نکل آتے ہیں۔ لیکن اس تجربے نے متشککین کو مزید سوال کھڑے کرنے کے لئے مواد دے دیا۔ “کتنے لوگ جسم پر ٹار لگاتے ہیں؟”۔ “اگر کسی کو دس ہزار مالٹے کھلائیں جائیں اور وہ فوت ہو جائے تو کیا ہم نتیجہ اخذ کر لیں گے کہ مالٹا زہریلا پھل ہے؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واضح ہو رہا تھا کہ preventive medicine کے شعبے میں کاز کی نئی سمجھ کی ضرورت تھی۔
اس کا حل ایک بار پھر بریڈفورڈ ہل نے تجویز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پھیپھڑوں کا کینسر کوک کی بنائی گئی تعریف میں فٹ نہیں آتا تو اس تعریف کے بندھن ڈھیلا کرنے کی ضرورت ہے۔
زیرِغور معاملے میں کینسر کی کاز تمباکو نوشی کے طور پر طے کرنے کے کئی فیچر ہیں۔
۱۔ یہ تعلق مضبوط ہے۔ سموکرز کی آبادی میں کینسر کا تناسب پانچ سے دس گنا زیادہ ہے۔
۲۔ یہ تعلق ہر علاقے میں ہے۔ ہر جگہ اور مختلف طرح کی آبادی میں یہ موجود ہے۔
۳۔ یہ تعلق مخصوص ہے۔ تمباکو پھیپھڑے کے کینسر کا سبب بنتا ہے اور یہی وہ جگہ ہے ۴۔ جہاں پر اس کا دھواں داخل ہوتا ہے۔
۵۔ اس کا وقت کے ساتھ تعلق ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ لمبا عرصہ سگریٹ پیتا ہے، اس کے لئے خطرہ اتنا زیادہ ہے۔
۶۔ اس کا مقدار کے ساتھ تعلق ہے۔ جتنا زیادہ سگریٹ پیا جائے، اتنا امکان بڑھتا ہے۔
۷۔ اس تعلق کی تُک بنتی ہے۔ پھونکی گئی کارسنوجن اور اس کی وجہ سے ہونے والا اثر بے تکا خیال نہیں۔
۸۔ یہ تعلق باربط ہے۔ اور اس کے تجرباتی شواہدات ہیں۔ امراض کی فیلڈ میں سٹڈی اور چوہوں کو ٹار سے رنگنے کا آپس میں تعلق اس ربط کو دکھاتا ہے۔
۹۔ اس کے اثرات متعلقہ جگہوں پر ہیں۔ نہ صرف پھیپھڑے کے کینسر میں بلکہ ہونٹ، گلے، زبان اور کھانے کی نالی کے کینسر میں اضافہ بھی موجود ہے۔
ہل نے کہا کہ یہ نو معیار ہیں جن کی بنیاد پر کازیلیٹی طے کی جا سکتی ہے۔ کسی ایک آئٹم کو لیا جائے تو یہ ثابت نہیں ہوتی لیکن ہمارے پاس الگ شواہد ایک ہی نتیجہ بتا رہے ہیں۔
یہ کاز کے لفظ کا میٹافزیکل تجزیہ نہیں بلکہ اس کی عملی وضاحت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ گرما گرم بحث چل رہی تھی۔ اس کے دوران گراہم کو فلو ہو گیا جو ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔ جنوری 1957 وہ ایک ایکسرے لے کر ایک سرجن کے پاس گئے اور پوچھا کہ “اس شخص کے بارے میں کیا امید ہے؟”۔ سرجن نے کہا، “ان کے دونوں پھیپھڑوں میں میٹاسٹیٹک کینسر کے سینکڑوں نشان ہیں۔ امید بالکل بھی نہیں”۔ گراہم نے خاموشی سے جواب دیا کہ “یہ میرا ایکسرے ہے”۔
انہوں نے اپنے دوست کو خط لکھا، “میں اس وقت بارنز ہسپتال میں مریض ہوں۔ مجھے برونکوجیک کارسنوما ہے جو رات کو کسی چور کی طرح مجھ میں گھس آیا ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ میں پانچ سال سے سگریٹ نوشی ترک کر چکا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کی نصف صدی میں یہ پیتا رہا تھا”۔
دو ہفتے بعد ان کی کیموتھراپی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن “رات کا چور” آگے بڑھ چکا تھا۔ چھبیس فروری کو وہ کوما میں چلے گئے اور ان کا اپنے بستر پر انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر 74 سال تھی۔
پھیپھڑوں کے کینسر کی سرجیکل تکینک میں انقلابی جدتیں لانے والے اور سگریٹ اور تمباکو نوشی کا تعلق آشکار کرنے میں مدد کرنے والے گراہم کی جان پھیپھڑوں کے کینسر نے لے لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گراہم نے اپنی موت سے تین سال قبل “سگریٹ نوشی اور کینسر” کے عنوان سے مضمون لکھا تھا۔ مضمون کے آخر میں گراہم نے سوال کیا تھا کہ آخر کیسے تمباکو کا پھیلاوٗ معاشرے میں الٹ کیا جا سکتا ہے۔ میڈیکل کا شعبہ یا سائنسدان یہ کام نہیں کر سکتے۔ یہ اتنے طاقتور نہیں۔ اکیڈمک محققین وہ ڈیٹا دے سکتے ہیں جو وجہ بتا سکتا ہے۔ لیکن اس کا حل سیاست کے ذریعے کیا جانا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے لگتا ہے کہ پالیسی سازوں کی ضد کی وجہ ان کا اپنا نشہ ہے جو انہیں نابینا کر دیتا ہے۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں لیکن انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ وہ سگریٹ چھوڑنے کو تیار نہیں یا ان کی یہ صلاحیت ہی ختم ہو گئی ہے۔ اور اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ریڈیو اور ٹی وی کو سگریٹ کی صنعت کی طرف سے اشتہار بازی کی اجازت دی جانی چاہیے لوگوں کی صحت کی ذمہ داری محکمہ صحت کی ہے۔ کیا وقت نہیں آ گیا کہ وہ اس بارے میں کچھ کریں؟ اور کچھ نہیں تو کم از کم وارننگ ہی دے دیں؟”۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں