کالج کے ایک طالب علم، مارک زکربرگ، نے 2004 میں فیس بک کے نام سے نیا سافٹ وئیر بنایا۔ ان کی اپنے دوست سے چیٹ ہوئی۔
زک: اگر ہارورڈ یونیوورسٹی میں کسی کے بھی بارے میں معلومات چاہیے ہو تو مجھ سے پوچھ لینا۔
زک: میرے پاس چار ہزار سے زیادہ لوگوں کے ای میل تصاویر اور ایڈریس ہیں۔
دوست: کیا؟؟ تم نے یہ کیسے کر لیا؟
زک: لوگوں نے یہ بس میرے حوالے کر دئے
زک: پتہ نہیں کیوں۔
زک: وہ مجھ پر “اعتبار” کرتے ہیں۔
زک: بے وقوف لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خیال میں ہمیں ایک انیس سالہ لڑکے کی اس شیخی کو اتنا سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ میری یہ رائے ہے کہ زکربرگ درست نہیں تھے۔ لوگ اپنی انفارمیشن بس ایسے ہی ان کے حوالے نہیں کر رہے تھے۔ یہ ایک سودا تھا۔ اس کے جواب میں انہیں الگورتھم تک رسائی مل رہی تھی جس سے وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ رابطہ رکھ سکتے تھے۔ ایک کمیونٹی بنا سکتے تھے۔ انٹرنیٹ کی وسیع و عریض دنیا میں اپنا نجی نیٹورک قائم کر سکتے تھے۔ مجھے باقی لوگوں کی رائے کا علم تو نہیں لیکن اس وقت میں میرے لئے یہ ایک مناسب سودا تھا۔
اب یہاں پر اس منطق کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ ہمیں ہمیشہ علم نہیں ہوتا کہ اس تجارت کے طویل مدتی اثرات کیا ہوں گے۔ یہ بالکل بھی واضح نہیں ہوتا کہ ہمارا ڈیٹا کر کیا سکتا ہے۔ اور اگر اس کو ہوشیار الگورتھم کے حوالے کیا جائے تو اس کی قدر کتنی ہو سکتی ہے۔ کیا یہ fair trade ہے؟
(جاری ہے)
Post Top Ad
Your Ad Spot
بدھ، 12 جولائی، 2023
ذہانت (7) ۔ ڈیٹا
Tags
Computer Science#
Share This
About Wahara Umbakar
Computer Science
لیبلز:
Computer Science
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں