باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 16 فروری، 2024

درختوں کی زندگی (10) ۔ بجٹ


درخت کو اپنا اندرونی توازن برقرار رکھنا ہے۔ بجٹ کے مطابق اپنی طاقت کو استعمال کرنا ہے۔ اور توانائی کے استعمال میں کفایت شعاری دکھانی ہے تاکہ اپنی ساری ضروریات کو پورا کر سکیں۔ کچھ خرچ بڑھنے میں آئے گا۔ اپنی شاخوں کو پھیلانا ہے اور اپنے تنے کا قطر بڑھانا ہے تا کہ وزن میں ہونے والے اضافے کو سہارا جا سکے۔ اور پھر کچھ توانائی کو مشکل وقت کے لئے ذخیرہ بھی کرنا ہے۔ تا کہ کسی کیڑے یا پھپھوندی کے حملے کے وقت درخت اور چھال میں دفاعی کیمیکل پیدا کئے جا سکیں۔ اور پھر نسل بڑھانے کے مشکل معاملات ہیں۔
ایسی انوع جو ہر سال نسل بڑھانے کا کام کرتی ہیں، انہیں اس کے لئے منصوبہ بندی کرنی ہے کہ توانائی کی سطح کو برقرار رکھا جا سکے۔ لیکن وہ انواع جو یہ کام تین یا پانچ سال میں ایک بار کرتی ہیں، ان کے لئے یہ منصوبہ بندی زیادہ دشوار کام ہے۔ کیونکہ نسلی بڑھانے کے لئے جو توانائی استعمال کرنی ہے، وہ باقی برسوں میں کہیں اور استعمال ہو جاتی ہے۔ انہیں بڑی مقدار میں پھل اور پھول پیدا کرنے ہیں تو باقی کاموں کی ترجیح کم ہو جاتی ہے۔
پھلوں کے لئے جگہ خالی کرنا ہوتی ہے۔ جن سالوں میں پھل آنے ہیں، ان کی جگہ چھوڑنے کے لئے پتے گرائے جانے ہیں۔ اور چونکہ سارے درخت یہ کام ایک ہی سال کرتے ہیں تو پھول آنے سے پہلے کسی نوآموز مشاہدہ کرنے والے کو جنگل بیمار نظر آئے گا جس میں درختوں کی شاخیں غیرمعمولی طور پر خالی ہوں گی۔ جنگل بیمار تو نہیں لیکن غیرمحفوظ ضرور ہے۔ درخت اپنے توانائی کے ذخائر پھولوں کی پیداوار پر صرف کرنے لگے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان میں پتوں کی کمی بھی ہے جس کی وجہ سے شوگر کی پیداوار معمول سے کم ہے۔ اور جو شوگر بنائی جا رہی ہے، اس کا ایک حصہ بیجوں میں نشاستہ اور چکنائی کی پیداوار میں لگ جائے گا۔ تو درختوں کی روزانہ کی ضروریات کیلئے کم بچتا ہے۔ اور اگر بیماری آ جائے تو اس کے لئے دفاع کے لئے تو کچھ بھی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی کیڑے اسی وقت کے منتظر ہیں۔ مثلاً، پتے کھودنے والا ویول تازہ اور بغیر دفاع والے پتوں میں لاکھوں انڈے دیتے ہیں۔ یہاں پر ان کے چھوٹے لاروا پتوں کی سطح کو کھائیں گے اور ان کے بھورے نشان رہ جائیں گے۔ بالغ بیٹل پتوں کو چبا کر ان میں سوراخ بنا دیں گے۔ کچھ سالوں میں یہ اتنا زیادہ ہو گا کہ beech کے درخت سبز سے زیادہ بھورے نظر آئیں گے۔
عام حالات میں درخت اچھا مقابلہ کرتے ہیں۔ کیمیکل پیدا کر کے کیڑوں کے لئے خوراک کو کڑوا کر دیتے ہیں۔ لیکن پھل پیدا کرنے والے موسم میں ان کے پاس یہ کرنے کی توانائی نہیں بچی۔ اور انہیں یہ حملے برداشت کرنے ہیں۔
صحتمند درخت اس وقت کو گزار لیتے ہیں۔ ان کے پاس واپس اپنی توانائی بحال کرنے کے لئے کچھ سال ہیں۔ لیکن اگر کوئی درخت پہلے سے بیمار ہے تو کیڑوں کے یہ حملے موت کی گھنٹی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر کسی درخت کو اس کا علم ہو، تب بھی یہ پھل پیدا کرنے سے باز نہیں آتا۔ اپنی اولاد اور جینیاتی وراثت کا سلسلہ جاری رکھنے کی تگ و دو جاری رہتی ہے۔ اور موت کا ڈر اس میں رخنہ انداز نہیں ہوتا۔ جنگل کا مشاہدہ کرنے والے اس موسم میں ہونے والی اموات کی بلند شرح سے واقف ہیں۔
جب موسم گرما میں گرمی زیادہ پڑے، تب بھی ہمیں ایک دلچسپ نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ پانی کی کمی کئی درختوں کو موت کے منہ تک پہنچا دیتی ہے۔ ایسے موسم کے فوراً بعد بڑی مقدار میں میوے پیدا ہوتے ہیں۔ پھلوں کی زیادتی یہ بتاتی ہے کہ پچھلے سال کیا ہوا تھا۔ یہ اپنے جین آگے منتقل کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن یہ کیڑوں کے لئے بھی خوش قسمت وقت ہے۔ اس لئے ان میں زرخیز میووں اور بیجوں کی شرح کم ہوتی ہے۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں