باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 17 فروری، 2024

درختوں کی زندگی (19) ۔ عظیم الشان یا کمزور؟


جنگل کی سیر کے دوران کئی بار مجھے پریشان بلوط کے درخت نظر آتے ہیں۔  اگر کسی درخت کے تنے پر زمین کے قریب پتے نکلے ہیں تو یہ ان کی پریشانی کا اظہار ہے۔ ایسے پتوں نے تنے کا گھیرا کیا ہوتا ہے اور جلد مرجھا جاتے ہیں۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ درخت حالتِ اضطراب میں ہے اور اسے موت کا سامنا ہے۔ ورنہ بلوط کیلئے زمین کے قریب پتے اگانے کی کوشش کی کوئی تک نہیں۔ بلوط کو روشنی کی ضرورت ہے۔ اور انہیں بہت روشن جگہ چاہیے تا کہ فوٹو سنتھیسس کر سکیں۔ زمین کے ساتھ لگائے گئے سولر پینل اس کی مدد نہیں کرتے اور اسے جلد ختم کرنے پڑتے ہیں۔
ایک صحتمند درخت اپنی توانائی ایسے کام میں ضائع کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یہ اپنے پتے بلندی پر اگاتا ہے۔ لیکن وسطی یورپ میں بلوط کچھ مشکل میں ہیں کیونکہ یہ بیچ کے جنگلات کا علاقہ ہے۔ بیچ ایک بہت حیران کن طور پر معاشرتی درخت ہے لیکن صرف اپنوں کے لئے۔ یہ دوسری انواع، جیسا کہ بلوط، کو ہراساں کرتے ہیں۔ اس حد تک کہ انہیں کمزور کر دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سست رفتاری سے شروع ہوا تھا۔ ایک پرندے نے بیچ کے میوے کو عظیم الشان بلوط کی جڑوں کے قریب دبا دیا۔ پرندے کے پاس خوراک وافر مقدار میں تھی اور یہ یہیں پر دفن رہا۔ بہار آئی اور یہ پھوٹ پڑا۔ اگلی دہائیوں میں یہ اوپر بڑھتا رہا۔ یہ سب خاموشی سے جاری ہے۔ اس چھوٹے پودے کی ماں تو نہیں لیکن پیڑ کا سایہ ہے جس وجہ سے یہ پرسکون اور صحتمند رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ جو زمین کے اوپر ہم آہنگی کا رشہ لگ رہا ہے، یہ زمین کے نیچے بقا کی جنگ کی ابتدا ہے۔
بیچ کی جڑیں ہر اس جگہ پر جا رہی ہیں جہاں بلوط کی جڑیں نہیں پہنچیں۔ یہ پرانے تنے کے نیچے پہنچ چکا ہے اور اس بڑے درخت کا پانی اور خوراک کو اپنی طرف کرنے لگا ہے۔
اب 150 سال گزر چکے ہیں۔ یہ نوجوان درخت اب اتنا بڑا ہونے لگا ہے کہ اس کا قد بلوط کی چھتری کی طرف پہنچنے لگا ہے۔ اگلی چند دہائیوں میں یہ اسے پار کر جائے گا۔ اپنے حریف کے برعکس اس کا قد تمام عمر بڑھتا رہے گا۔
اب، بیچ کے پتوں تک روشنی براہ راست پہنچنے لگی ہے۔ اس کو اتنی توانائی میسر آ رہی ہے کہ یہ آسانی سے پھیل سکتا ہے۔ اس کی چھتری اب متاثر کن ہے۔ یہ دھوپ کا 97 فیصد پکڑ رہی ہے جو اس درخت کی خاصیت ہے۔
بلوط کا درخت اب پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کے پتے اس کوشش میں ہیں کہ دھوپ پکڑ لیں۔ شوگر کی پیداوار گر چکی ہے۔ ذخائر استعمال ہو گئے ہیں اور اسے فاقہ زدگی کا سامنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوط نے احساس کر لیا ہے کہ یہ اپنے حریف کو نہیں پکڑ پائے گا۔ اور کبھی اتنا قد نہیں بنا پائے گا کہ اس تک پہنچ جائے۔ اس میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اور یہ وہ وقت ہے جب یہ ایسے کام کرتا ہے جو کہ اس کے اصولوں اور آداب کے خلاف ہیں۔ یہ نئی ٹہنیاں اور پتے زمین کے قریب اگانے لگا ہے۔ یہ پتے معمول سے زیادہ بڑے ہیں اور نرم ہیں۔ اور یہ باقی پتوں سے کم روشنی پر گزارا کر لیتے ہیں۔ لیکن جتنی روشنی ان تک پہنچ رہی ہے، یہ ناکافی ہے۔ اور اس وجہ سے یہ کوشش کام نہیں کر رہی۔ یہ مرجھا کر گر گئے اور ان پر کی جانے والی توانائی کی سرمایہ کاری ضائع گئی۔
اس مشکل وقت میں بلوط کا یہ درخت چند دہائیاں ہی اور نکال پائے گا۔ اور ایک وقت آئے گا جب یہ ہار مان لے گا۔ اس میں طاقت نہیں رہی۔ لکڑی میں سوراخ کرنے والے کیڑوں کا حملہ اس کے لئے جان لیوا ہو گا۔ ان کیڑوں نے اس کی چھال کے نیچے انڈے دے دیے۔ ان سے نکلنے والے لاروا نے نازک حالات کے شکار اس درخت کی چھال کو کھانا شروع کر دیا۔
لیکن اتنا عظیم الشان درخت اتنا کمزور کیوں؟ ایسا کیوں کہ یہ طویل عمر اور استقامت کی علامت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
بلوط کو اگر بیچ سے مقابلے کا سامنا نہ ہو تو یہ بہت سخت جان درخت ہے۔ بیچ اپنے آبائی جنگل سے باہر اگے تو بمشکل بھی 200 سال گزار سکتا ہے۔ جبکہ بلوط آسانی سے 500 سال کی عمر سے اوپر نکل جاتے ہیں۔ اور اگر بلوط کو گہرا زخم لگ جائے یا بجلی گرنے کے سبب تنے میں بڑی دراڑ پڑ جائے تو اسے فرق نہیں پڑتا۔ اس کی لکڑی میں ایسے اجزا موجود ہیں جو فنگس کو روکتے ہیں اور اس کے پھیلاؤ کو بہت کم کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ گلتا سڑتا نہیں۔ یہ اجزا زیادہ تر کیڑوں کو بھی دور رکھتے ہیں۔ بہت ضرر کھا جانے والے درخت بھی اپنے ٹوٹی شاخوں کی جگہ دوسری اگا لیتے ہیں۔ نئی چھتری آ جاتی ہے اور بڑے واقعے کے بعد بھی کئی سو سال گزار سکتے ہیں۔ بیچ کے درخت یہ کرنے کے قابل نہیں۔ اور یہ اپنی نوع کے درختوں سے باہر مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک طوفان کی زد میں آ جانے والا ایسا درخت بیس سال کے اندر اندر ہی ختم ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوط بہت سخت جان ہیں۔  ایک گرم ڈھلوان میں مجھے چند ایسے درخت نظر آئے جن کی جڑیں ننگے پتھروں پر تھیں۔ جب گرمی اس پتھر کو پکا دیتی ہے تو یہاں سے پانی کے آخری قطرے بھی بخارات میں بدل جاتے ہیں۔ سردی میں ہڈیاں جما دینی والا کہرا زمین پر ہوتا ہے جس سے بچانے کیلئے ان کے پاس مٹی اور گرنے والے پتوں کی حفاظتی تہہ نہیں۔ اس کا نتیجہ؟ ایک صدی کے بعد بھی یہ درخت زیادہ قدآور نہیں۔ کلائی جتنی موٹائی کا تنا اور صرف پندرہ فٹ قد ہے۔ جبکہ ان کے ساتھی اچھے ماحول میں سو فٹ قد کو پہنچ جاتے ہیں اور موٹا تنا رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ مرتے نہیں۔ اور اس کا انہیں فائدہ ہے۔ اس ڈھلوان میں ان کے حریف نہیں رہ پاتے۔ ان درختوں کو کسی سے مقابلہ نہیں۔ تو یہ سکون سے رہیں گے۔
بلوط کی چھال کی بیرونی چھال موٹی ہے۔ اور یہ ملائم اور پتلی چھال رکھنے والے بیچ کے درخت سے زیادہ سخت جان ہے اور بہت کچھ برداشت کر سکتی ہے۔
برداشت کر لینے کی صلاحیت فطرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔
(جاری ہے)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں