باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 19 جون، 2024

پرچم (20) ۔ حسین اور سعود


عربوں کی عثمانیوں سے آزادی کے آزادی میں اہم کردار شریفِ مکہ حسین ابن علی کا تھا۔ ان کے ایک بیٹے مختصر مدت کے لئے حجاز کے بادشاہ بنے۔ ایک اردن کے، ایک عراق و شام کے۔ عرب بغاوت کا جھنڈا حسین کا تھا۔ نئے علاقوں کے جھنڈے کا یہی ڈیزائن برقرار رہا۔ انہوں نے اس جھنڈے پر اردن کے لئے ایک، عراق کے لئے دو اور سیریا کے لئے تین ستاروں کا اضافہ کیا۔
حسین مکہ کے آخری امیر تھے۔ (آج یہ علاقہ ان کے حریف خاندان السعود کے پاس ہے)۔ ان کا خواب تھا کہ ایک عظیم عرب ریاست قائم ہو گی جو کہ حلب سے عدن تک پھیلی ہو گی۔
انہوں نے اس خواب کو حقیقت بنانے کے لئے کپٹین لارنس کے ساتھ رفاقت بنائی اور عثمانیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن حسین کا اپنا خیال تھا جبکہ برطانیہ اور فرانس کا اپنا۔ حسین خود کو عرب کا بادشاہ کہتے تھے۔ لیکن برٹش نے انہیں صرف حجاز کے بادشاہ کے طور پر تسلیم کیا۔ برٹش کو عرب ریاست میں دلچسپی نہیں تھی۔ برطانیہ کے سائیکس اور فرانس کے پیکو نے آپس میں معاہدہ کیا اور اس خطے کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس معاہدے سے پہلے وہ عرب قبائل کو عثمانیوں کو شکست دینے کے لئے استعمال کر چکے تھے۔ حسین کا خواب ادھورا رہ گیا۔
شریف نے پہلے تو 1919 کے معاہدے سے انکار کیا۔ نہ ہی وہ عراق کے بارے میں برطانیہ سے معاہدے پر دستخط کو تیار تھے۔ سائیکس پیکو معاہدہ عرب ریاست کے خواب کا خاتمہ ہوتا۔  
برطانیہ کی حمایت کے بغیر حسین کمزور تھے۔ ان کے عرب ہمسائیوں نے یہ کمزوری بھانپ لی اور موقع دیکھ لیا۔ یہ ہمسائے السعود قبائل تھے جن کا نجد پر کنٹرول تھا۔ انہوں نے عرب بغاوت میں حصہ نہیں لیا تھا۔ برٹش ہاشمی حکمران سے تھک چکے تھے اور ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لئے تھے۔ اب فیصلہ ہو گیا۔
عبدالعزیز بن سعود نے حسین کے خلاف شک


ایات کا انبار لگا دیا۔ کہ وہ نجد سے مکہ آنے والے حاجیوں کو روکتے ہیں۔ اور اس شکایت کی بنیاد پر حملہ کر دیا۔ چند ہفتوں میں مکہ کو فتح کر لیا۔ حسین نے تخت چھوڑ دیا اور جلاوطن ہو کر قبرص چلے گئے۔ 1925 تک عبدالعزیز پورے حجاز پر قبضہ کر چکے تھے۔ عبدالعزیز کے سپورٹر اس بات کے خواہاں تھے کہ اس قبضے کو بڑھایا جائے۔ اردن، کویت اور عراق کو فتح کیا جائے لیکن عبدالعزیز عالمی سیاست سے زیادہ اچھی طرح کھیلے۔ انہیں معلوم تھا کہ ایسا کرنے سے برٹش براہ راست مخالفت میں آ جائیں گے۔ 1927 میں انہوں نے لندن سے ڈیل کی  جس میں حجاز اور نجد کی بادشاہت ان کے پاس آئی۔ پانچ سال بعد 1932 میں انہوں نے ان دونوں ریاستوں کو ایک ملک کے طور پر ملا دیا۔ یہ سعودی عرب تھا۔
(جاری ہے)

 ساتھ لگی تصویر عثمانی سلطنت کے خلاف عرب بغاوت کے جھنڈے کی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں