باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 19 جون، 2024

پرچم (26) ۔ عراق اور اسرائیل


عراق کا ملک جب بنایا گیا تو یہ ہاشمی خاندان کو دیا گیا تھا۔ اس لئے اس نے ابتدا میں جو جھنڈا بنایا، یہ ہاشمیوں کا بنایا گیا عرب بغاوت کا جھنڈا ہی تھا۔ اس میں دو ستاروں کا اضافہ کیا گیا جو کہ عرب اور کرد قومیتوں کی نمائندگی کرتا تھا۔ ہاشمی 1958 کی بغاوت میں نکال دئے گئے۔ عراق ری پبلک بن گیا اور ہاشمیوں کی سرخ مثلث جھنڈے سے غائب ہو گئی۔ کردوں کی نمائندگی کے لئے سورج کا نشان جھنڈے کے درمیان میں آ گیا۔ 1963 میں بعث پارٹی نے ملک سنبھال لیا۔ یہ سوشلسٹ تھی تو اس نے جھنڈے میں سبز رنگ نکال کر سرخ ڈال دیا۔ سرخ، سفید اور سیاہ پٹیوں نے درمیان میں تین ستارے بنے تھے۔ یہ مصر اور سیریا سے اتحاد کی خواہش کے نمائندہ تھے۔ لیکن یہ یونین کبھی نہ بن سکی۔ 1991 میں ہونے والی جنگ میں یہ دونوں ممالک عراق کے کویت پر قبضے کے خلاف ہونے والی جنگ میں امریکہ کے ساتھ تھے۔
اس وقت تک سیریا کی بعث پارٹی عراق کی بعث پارٹی سے سخت لڑائی لے چکی تھی اور مصر امریکہ کا پکا اتحادی تھا۔ عرب ممالک عراق کو خبردار کر چکے تھے کہ ان کے برادر عرب ملک کویت پر یکطرفہ قبضہ کر لینا قابل قبول نہیں۔
اس سب کے دوران میں صدام نے جھنڈے کے درمیان میں اپنی لکھائی سے بنے اللہ اکبر کا اضافہ کر دیا۔ جب 2003 میں صدام ہٹائے گئے تو اس کی لکھائی کے بجائے اللہ اکبر کو کوفی رسم الخط میں لکھ دیا گیا۔ 2008 میں تین ستارے نکال دئے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عراق کے موجودہ جھنڈے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ یگانگت کی علامت نہیں سمجھا جاتا۔ عراقی کردوں کی نمائندگی کا نشان نہیں۔ کرسچن اقلیت کی نمائندگی نہیں۔ اور اس کے علاوہ عرب مسلم شناخت میں بھی دراڑیں ہیں۔
جب عراقی فوج دولت اسلامیہ سے جنگ کرنے گئی تو نہ صرف عراقی جھنڈا میدان میں تھا۔ بلکہ مختلف ملیشیا کے اپنے جھنڈے بھی۔ شیعہ گروہوں کے الگ اور سنی کے الگ۔
ابھی کے لئے عراق کے پاس ایک جھنڈا تو ہے لیکن یہ طے ہونا باقی ہے کہ کیا یہ اس ملک کو اس علامت تلے متحد کر سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں ایک تہائی ممالک ایسے ہیں جن کے جھنڈوں پر مذہبی علامات کا استعمال ہے۔ ان میں سے نصف میں کرسچن علامات ہیں۔ اکیس میں اسلامی علامات ہیں جبکہ اسرائیل ایسا ملک ہے جس میں یہودی علامات کا استعمال ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ہونے والے صیہونی سیاسی جلسوں میں سفید جھنڈے کا استعمال کیا جاتا تھا جو کئی قسم کے ڈیزائن والے تھے۔ صیہونی تحریک کے بانی ہرزل نے سات ستاروں والا جھنڈا تجویز کیا تھا لیکن اسے پذیرائی نہیں ملی تھی۔ جب مئی 1948 میں اسرائیلی ریاست وجود میں آئی تو اس بات پر کوئی اتفاق نہیں تھا کہ ملک کا جھنڈا کیسا ہو۔
حکومت نے لوگوں کو جھنڈے کے ڈیزائن کے لئے تجاویز مانگیں۔ پانچ ماہ بعد اکتوبر میں رچرڈ آرئیل کا تجویز کردہ ڈیزائن منظور ہوا۔ اس میں سفید اور نیلا رنگ یہودی عبادت کی شال (تالیت) کا ہے۔ درمیان میں حضرت داؤد کی ڈھال بنی ہے۔
اسرائیل اس اعتبار سے ایک منفرد ملک ہے کہ یہ بیرونی آبادکاروں کے قبضے میں بنا نیا ملک ہے جو اپنی نسبت یہاں رہنے والی قدیم آبادی سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا جھنڈا اسی کی نمائندگی کرتا ہے۔
(جاری ہے)   

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں