باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 7 ستمبر، 2018

پرانی سیاست سے ایک واقعہ


اگر ہم نے کسی کو عزت و وقار سے جیتتے اور عزت و وقار سے ہارتے دیکھنا ہو اور یہ دیکھنا ہو کہ قوموں کے لئے یہ دونوں خاصیتیں کس قدر اہم ہیں تو ہمیں برِصغیر کی تحریکِ آزادی کی مثال دیکھنی چاہیے۔ اتنے بڑے اور پیچیدگی سے بھرپور معاملات کس قدر خوش اسلوبی سے حل ہوئے، اس کا سہرا اس وقت کی سیاسی قیادت کے سر جاتا ہے۔ کالونیل نظام سے آزادی کی تحریکیں دنیا بھر میں پرتشدد رہی ہیں لیکن برِصغیر ایسا نہیں تھا۔

ان کے لیڈران کا طرزِ عمل کیسا تھا، اس کے لئے ان کا ایک سچے واقعے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
محمد علی جناح اور مہنداس گاندھی سیاسی حریف تھے جو مشکل جذباتی اور سیاسی جھگڑوں میں الجھے ہوئے تھے۔ برطانیہ سے آزادی کیسے ہو، اس پر کوئی مشترک رائے بنانے کے لئے گاندھی نے جناح کو مالابار ہِل پر اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔
مذاکرات کے وقفے کے دوران جناح نے ذکر کیا کہ ان کے ایک پیر کے نیچے ریش پڑ جانے کی وجہ سے وہ خاصی تکلیف محسوس کر رہے ہیں۔ گاندھی نے یہ سن کر جناح کو فورا اپنا جوتا اور جراب اتارنے کا کہا اور کہا کہ وہ یہ تکلیف دور کر سکتے ہیں اور ان کے پاؤں کو ہاتھ میں تھام کر اس کا ناپ لیا۔
اگلے روز صبح ایک مٹی سے بنا مکسچر جناح کے دروازے پر موجود تھا۔ جناح نے کسی وجہ سے اسے ایک طرف رکھ دیا اور استعمال نہیں کیا۔
شام کو جب دونوں کی ملاقات مذاکرات کے اگلے راؤنڈ کے لئے ہوئی تو جناح کو گاندھی کی دی گئی اس دوا کا یاد آیا۔ انہوں نے دل رکھنے کے لئے گاندھی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے جو توجہ دکھائی تھی، اس کی وجہ سے اب وہ پاؤں میں آرام محسوس کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات کے دوران جناح نے اپنے پاؤں کی تکلیف ظاہر نہ ہونے دی۔
سیاسی مخالفین کے درمیان آپس میں اس طرح کا طرزِ عمل دنیا میں کم نظر آتا ہے۔ باہمی اختلافات میں بھی کچھ طے کر لینا۔ ایک دوسرے کی عزت، وقار اور تکریم، شکست اور فتح دونوں میں دانشمندانہ رویہ دکھانا۔ یہ برِصغیر کی اس دور کی سیاسی قیادت کی اقدار تھیں جس کی وجہ سے اتنا بڑا عمل بغیر خون خرابے کے طے پایا۔
Taken from "The Lost Art of Happiness" by Arthur Dobrin

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں