باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 24 ستمبر، 2018

دُور کا ایک گاؤں - ٹیکنالوجی کے تمدنی رنگ




ساتھ لگی تصویر ایک گاؤں کی ہے جو 2016 میں کھینچی گئی تھی۔ یہ ایتھوپیا اور کینیا کی سرحد پر ایک دورافتادہ جگہ پر ہے۔ یہاں نہ پکی سڑک ہے، نہ بجلی، نہ پکے گھر۔ یہاں ماسائی آباد ہیں۔ اس گھر کی چھت پر کیا نظر آ رہا ہے؟ اس سے پہلے اس کا پس منظر۔

ہر نئی جدت دنیا میں ہر جگہ ایک طریقے سے نہیں پہنچتی اور کئی جدتیں پہنچتی ہی نہیں۔ دنیا میں ٹیلیفون آیا۔ رابطے کا یہ انوکھا ذریعہ جلد ہی زیادہ تر دنیا پھیل گیا، لیکن ہر جگہ نہیں۔ کہیں پر خانہ جنگی کی وجہ سے، کئی غربت کی وجہ سے اس کے انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری نہ ہوئی۔ اس کے لئے بچھائے گئے تاروں اور نیٹ ورک سے کئی علاقے محروم رہ گئے۔ لائبیریا، نائجیریا، زمبابوے، کانگو جیسے ممالک کے بڑے علاقوں میں یہ ٹیکنالوجی کبھی بھی نہیں گئی۔

دنیا میں بینکاری آئی۔ اس نے بچت، سرمایہ کاری، ذاتی فائننس سے لے کر پوری معیشتوں کو بدل دیا لیکن بڑی آبادیوں سے دور علاقے اس سے محروم رہ گئے۔ بڑے شہری علاقوں سے دور جگہوں پر یہ جدت کبھی نہیں پہنچی۔ کبھی کسی بینک کی شاخ ہی نہ کھلی۔

دنیا میں بجلی آئی۔ توانائی کو الیکٹرانز کے بہاؤ میں بدل کر انسان کا طرزِ بود و باش اور زندگی کا طریقہ بدل گیا۔ بجلی کے ترسیلی نظام میں ہونے والی بڑی سرمایہ کاری نہ کرنے اور اقتصادی ذرائع کی کمی کی وجہ سے یہ جدت ہر جگہ نہیں پہنچ سکی۔

پرانی جدتوں سے نئی جدتیں بنیں۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، بغیر کرنسی کے آپس میں لین دین کے طریقے۔ جنگ، غربت، تنہائی، اقتصادی یا انتنظامی وجوہات نے دنیا کی آبادی کے کئی حصوں کو ان سب سے محروم رکھا۔

اب اس تصویر پر۔ اس جھوپنڑی کی چھت پر شمسی سیل لگے ہیں۔ یہ سورج سے بجلی حاصل کریں گے۔ یہ اس گھر میں لگے موبائل چارجر کو توانائی دیں گے جس سے یہاں رہنے والے اپنا موبائل استعمال کر سکیں گے۔ اس موبائل پر انٹرنیٹ میسر ہے اور ایم پیسہ بھی۔ ایم پیسہ کاروباری لین دین کا اور بینکاری کا یہاں پر سب سے بڑا طریقہ ہے۔ پچھلے سال کینیا میں اڑھائی ارب ٹرانسزیکشن اس کے ذریعے ہوئیں جن کے ذریعے چالیس ارب ڈالر کا تبادلہ ہوا۔ ترانوے فیصد آبادی تک اس کی رسائی ہے۔  

یہ تصویر امید کی تصویر ہے لیکن یہ اور کیا کچھ کہتی ہے؟
ٹیکنالوجی کہاں پر کس شکل میں اپنائی جاتی ہے۔ اس کا تعلق مقامی حالات سے ہے۔ مقامی مسائل کا حل مقامی طریقوں سے نکلتا ہے۔ ایسا گھر ترقی یافتہ ممالک میں نظر نہیں آئے گا۔
 دوسرا یہ کہ ٹیکنالوجی سے زندگی پر پڑنے والا اثر گلوبل ہے۔ رابطے ہوں یا لین دین کی سہولیات، یہ سب ان لوگوں کی بھی بالکل اسی طرح ضروریات ہیں جو باقی دنیا سے الگ تھلگ قدیم طریقے پر زندگی گزار رہے ہیں۔
تیسرا یہ کہ یہ سب بُرے سیاسی حالات میں اور بغیر حکومتی مدد کے ہو رہا ہے۔ جہاں کوئی مسئلے کا قابلِ عمل حل ڈھونڈ سکے، وہ خود بھی اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسرے بھی۔
چوتھا یہ کہ انٹرنیٹ کی رسائی سے ایک دوسرے کو جاننا ممکن ہو گیا ہے۔ بارانی جھیل کے کنارے اس جھونپڑی میں رہنے والا بھی پوری دنیا میں کسی سے رابطہ کر سکتا ہے۔ کچھ بھی پڑھ سکتا ہے۔
پانچواں یہ کہ اگر آپ نے یہ پوسٹ یہاں تک پڑھ لی ہے تو آپ خود بھی دور کے ایک گاؤں میں رہنے والے کی زندگی کے ایک پہلو سے واقف ہو گئے ہیں۔ اس جھونپڑی میں رہتا کون ہے؟ دوسری تصویر اس شخص کی ہے۔ اس کا نام اولے میلی ہے۔

اگر آپ چاہیں تو اس دنیا کو اور اس میں بسنے والے ہر طرح کے لوگوں کو جان سکتے ہیں۔ اس کا سب سے مؤثر آلہ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں