باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 28 ستمبر، 2023

جغرافیہ کے قیدی (39) ۔ مشرقِ وسطیٰ ۔ عراق


یورپی کالونیل طاقتوں نے جب یہ خطہ چھوڑا تو مشرقی وسطی میں ممالک قائم کئے اور انہیں مقامی لیڈروں کے ہاتھوں میں دے دیا۔ ان کی اپنی قبائلی اور مذہبی وابستگیاں تھیں۔ علاقوں کے آمروں نے ریاستی مشینری کو استعمال کیا کہ وہ اپنے نئے ممالک کے علاقوں کے اندر اپنی رٹ قائم کریں۔
تنازعات اور گڑبڑ کی ایک مثال عراق رہی ہے۔ شیعہ میں سے زیادہ مذہبی طبقے نے سنی حکومت تسلیم نہیں کی۔ یہاں پر وہ شہر ہیں جو شیعہ اسلام کے لئے سب سے اہم ہیں جن میں کربلا اور نجف ہیں۔ صدیوں پرانی لڑائیوں کو محض “عراقی” ہو جانا حل نہیں کرتا۔
عثمانی سلطنت کے دور میں ترک علاقے سے یہاں کے درمیان سنگلاخ پہاڑ تھے۔ ان پہاڑوں پر کرد قبائل کا غلبہ تھا۔ اور یہاں سے یہ بغداد آتے تھے اور پھر مغرب میں سیریا کی طرف۔ یہاں زیادہ لوگ سنی عرب تھے۔ دجلہ اور فرات آپس میں مل کر شط العرب کے دلدلی علاقے میں بہتا تھا اور یہاں بصرہ کا شہر تھا جہاں اکثریت شیعہ تھی۔ ترکوں نے یہاں پر انتظامی علاقے اسی طرح بنائے تھے۔ موصل، بغداد اور بصرہ۔
قدیم وقتوں میں یہ علاقے اسیریا، بابل اور سمیر کے تھے۔ جب فارس نے اس علاقے پر قبضہ کیا تھا تو یہ تقسیم ایسے ہی رہی تھی۔ سکندرِاعظم کے وقت میں بھی اور بنو امیہ کے دور میں بھی۔ برٹش نے ان تینوں کو ایک ملک میں یکجا کر دیا۔
زیادہ تر تجزیہ نگار ایسا سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو متحد صرف سخت آمر ہی رکھ سکتا ہے۔ اور عراق میں ایسے لیڈر یکے بعد دیگرے آتے رہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں لوگ متحد نہیں ہوئے، صرف جبر کے آگے رک گئے۔ ڈکٹیٹروں کی پہنچ لوگوں کے ذہنوں تک نہیں تھی۔ ریاست کا پراپگینڈا کم لوگوں نے قبول کیا۔ ریاست نے شمال میں کرد اور 1991 میں ناکام بغاوت کے بعد جنوب میں شیعہ آبادی کا قتل عام کیا۔
عراقی کرد پچاس لاکھ کی تعداد میں ہیں اور اکثریت سنی مسلمان ہیں جو کہ شمال مشرق میں ہلال کی شکل کے پہاڑی علاقوں میں ہیں۔ صدام کے دور میں عراقی افواج نے یہاں 1988 میں الانفال آپریشن کی۔ یہاں کے مشکل علاقوں میں آٹھ مراحل میں  کئے جانے والے آپریشن میں کوئی قیدی نہیں بنائے گئے اور پندرہ سے پچاس سال کے درمیان کے تمام مرد قتل کر دئے گئے۔ اس میں ایک لاکھ کرد قتل ہوئے اور بڑے تعداد میں دیہات ختم کر دئے گئے۔
 جب 1990 میں عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو ہونے والی جنگ کے بعد کرد آبادی کو موقع مل گیا کہ کردستان کو حقیقت بنایا جا سکے۔ جنگ کے آخر میں یہ نیم خودمختار علاقہ بن گیا۔ اگرچہ یہ آزاد ریاست نہیں ہے لیکن بغداد کا زور یہاں پر محدود ہے۔  سیریا، ترکی اور ایران بھی کرد قبائل کے علاقے کے حصے رکھتے ہیں۔ اس لئے آزادی کا کوئی بھی قدم ان سب کے لئے قابلِ قبول نہیں۔ اور کسی بھی آزاد کردستان کو سمندر میں پہنچنے کے لئے ان ممالک سے راستے درکار ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ ہے۔ کرد متحد نہیں۔ عراقی کردستان میں دو خاندانوں کے درمیان تلخ تقسیم ہے۔ سیریا کی خانہ جنگی کے دوران یہاں کے کردوں نے روجاوا کے اپنی الگ ریاست بنائی تھی۔ خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد ترکی اور سیریا نے ملکر اس کو بڑی حد تک ختم کر دیا۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں