باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 18 اگست، 2019

مشکلات



تقدیر ۔۔۔ یہ وہ مشکل لفظ ہے جو قدیم زمانے سے ہر طرح کے مباحث کا موضوع رہا ہے۔ ایک ہندو روایتی کہانی ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو خدا اس کی تقدیر اس کے ماتھے پر لکھ دیتا ہے۔ ابھی اسی کہانی کی بنیاد پر ایک سوچ کا تجربہ کرتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ جس دن آپ کا بچہ پیدا ہوا، اس دن آپ کو ساتھ دو تحفے مل گئے ہیں۔ عینک اور پنسل۔ عینک جس سے یہ تقدیر پڑھی جا سکے اور پنسل جس سے ناپسندیدہ حصوں کو کاٹا جا سکے۔ عینک لگا لیں اور پڑھتے ہیں کہ ماتھے پر کیا لکھا ہے۔

نو سال کی عمر میں بہترین دوست کینسر کے ہاتھوں فوت ہو گیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں کلاس کے بہترین طالبعلم کے طور پر کالج سے گریجویشن کی۔ اکیس سال کی عمر میں گاڑی کا حادثہ ہوا جس میں تمام عمر کے لئے ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ پیدا ہو گئی۔ چھبیس سال کی عمر میں ملازمت سے نکال دیا گیا۔ انتیس سال کی عمر میں شادی ہوئی۔ بتیس سال کی عمر میں ایک انتہائی کامیاب ناول شائع ہوا۔ پینتیس سال کی عمر میں طلاق۔ اسی طرح، آگے تک ایک ملا جلا سا بیگ ہے۔

اب اگر ایسا ہو تو پھر آپ کیا انتخاب کریں گے؟ یہ مستقبل اگر سامنے نظر آ رہا ہو تو اپنے بچے کو تکلیف سہتا دیکھنا کتنا برا لگے گا۔ کونسے والدین ایسے ہوں گے جو تکلیف دہ واقعات کو کاٹ نہیں دینا چاہیں گے؟

لیکن ذرا ٹھہریں۔ ذرا احتیاط سے۔ اگر نطشے ٹھیک کہتے ہیں کہ “جو مارتا نہیں، مضبوط کر دیتا ہے” تو مشکلات کو مٹا دینا اسے کمزور کر دے گا، ڈویلپمنٹ روک دے گا۔ لوگوں کو مشکلات، سیٹ بیک، اور کئی بار ٹراما بھی چاہیے، تا کہ وہ مضبوطی، تکمیل اور ذاتی ڈویلپمنٹ کے اعلیٰ لیول حاصل کر سکیں۔

نطشے کا قول مکمل طور پر ٹھیک تو نہی۔ اپنی جان کا خوف، دوسروں کو تکلیف میں مرتے دیکھنا پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا باعث بن سکتا ہے۔ بے چینی اور حساسیت کی بری حالت، جو لوگوں کو تبدیل کر دیتی ہے، کئی بار ہمیشہ کے لئے۔ اور سٹریس والے واقعات ڈیپریشن، دل کے عارضوں اور انگزئیٹی کی تکلیف میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ لیکن مشکلات بہت سی جگہوں پر مفید ہوتی ہیں۔ کہاں؟ اس کا جواب یہ نہیں کہ چھوٹی مشکلات مفید اور بڑی نقصان دہ۔ یہ کہانی اس سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جو یہ دکھاتی ہے کہ انسان کیسے پھلتے پھولتے ہیں۔ اور آپ کا بچہ مشکلات سے کیسے فائدہ اٹھا سکے گا۔ پنسل ابھی کچھ دیر کے لئے طرف رکھ دیں۔ پہلے ایک اصل کہانی پڑھ لیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گریگ کی زندگی 8 اپریل 1999 کو بکھر گئی۔ ان کی بیوی ان کے چار سالہ اور سات سالہ بچوں کو لے کر غائب ہو گئی۔ تین روز  کی تلاش بعد گریگ کو پتا لگا کہ یہ کوئی حادثے وغیرہ کا شکار نہیں ہوئی بلکہ کسی ایسے شخص کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی جس سے کچھ ہفتے پہلے شاپنگ مال میں ملاقات ہوئی تھی۔ گریگ کے لئے یہ سب ناقابلِ یقن تھا۔

دو مہینے بعد اس شخص سے بھی علیحدگی ہو گئی۔ پولیس نے بچے حاصل کر کے گریگ کی تحویل میں دے دئے۔ شادی ختم ہو گئی۔ اکیلے والد کے طور پر اور ایک اسسٹنٹ پروفیسر کی تنخواہ میں دو بچوں کے ساتھ زندگی گزارنی تھی۔ ان کی تحویل رکھنے کے لئے عدالت میں کیس لڑنا تھا۔ وکیلوں کے اخراجات بھرنے تھے۔ ان کے اپنے اکیڈمک کیرئیر کا انحصار اس کتاب کو مکمل کرنے پر تھا جس کے لئے اب نہ وقت تھا اور نہ توجہ۔ گریگ کو اپنی اور اپنے بچوں کی دماغی صحت برقرار رکھ سکنے پر بھی یقین نہیں تھا۔ مشکل سوالات سامنے کھڑے تھے، جن کے جواب ان کے پاس نہیں تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگست 1999 تک گریگ کی زندگی میں کئی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ تکلیف باقی تھی۔ لیکن انہوں نے زندگی میں کئی نئی چیزیں دریافت کر لی تھیں۔ جس چرچ میں جاتے تھے، وہاں پر آنے والوں میں سے کچھ ان کے لئے کھانا پکا کر لے آیا کرتے، بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کر دیتے۔ ان کے والدین دوسری ریاست میں اپنا گھر بیچ کر ان کے پاس آ رہے تھے تا کہ اپنے پوتوں کی پرورش میں مدد کر دیں۔ گریگ کہتے ہیں کہ اس سب نے ان کو زندگی کو دیکھنے کا نیا رنگ دیا تھا کہ اس میں کیا اہم ہے۔ ان کی دوسرے لوگوں کو دیکھنے کی نگاہ ہی بدل گئی تھی۔ ہمدردی، درگزر اور محبت بڑھ گئی تھی۔ لوگوں پر اب غصہ نہں آتا تھا۔

گریگ کے الفاظ میں، “زندگی کے سٹیج پر میری گانے کی باری تھی۔ میں یہ نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن روشنی اب میرے پر تھی۔ کیا کروں؟ بھاگ جاوٗں یا موقع کی مناسبت سے اپنی بہترین پرفارمنس دکھاوٗں۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ مجھے گانا بھی آتا ہے یا نہیں لیکن میں نے طے کر لیا تھا کہ یہ میرا وقت ہے۔ جو کر سکا، کر کے دکھاوٗں گا”۔

اپنے دوستوں، اپنی فیملی اور اپنے یقین کی طاقت سے انہوں نے اپنی زندگی دوبارہ بنائی۔ اپنی کتاب مکمل کی۔ دو سال بعد بہتر ملازمت حاصل کر چکے تھے۔

گریگ کے مطابق وہ ابھی بھی بے وفائی کا زخم محسوس کرتے ہیں لیکن ساتھ اس تجربے کے لئے شکرگزار ہیں۔ اس نے انہیں ایک نیا انسان بنا دیا تھا۔ اب وہ ہر نئے دن کی قدر پہلے سے زیادہ کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ گزارے وقت کی قدر کرتے ہیں۔ یہ سب پہلے نہیں تھا۔ اس واقعے کے بغیر یہ سب نہ ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نفسیات پر کئی دہائیوں تک ہونے والی تحقیق منفی پہلووٗں پر ہوتی رہی ہے۔ ماہرِ نفسیات کا کام نفسیاتی عوارض ٹھیک کرنے میں مدد سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ رہا ہے کہ مثبت سائیکلوجی پر ہونے والا کام بہت کم رہا ہے۔ یہ صرف پچھلے پندرہ سال ہیں جہاں پر اب سٹریس اور مشکلات جیسے چیزوں سے ہونے والے فوائد پر تحقیق ہوئی ہے۔

مشکلات سے فوائد تین طرح کے ہیں۔
پہلا، مشکلات میں اپنی صلاحیتوں کی پہچان۔ “اگر وہ مجھ سے چھن گیا تو میں مر جاوٗں گا”، “جو فلاں کے ساتھ ہو رہا ہے، اگر میرے ساتھ ہو تو میں برداشت نہیں کر سکتا”۔
ظاہر ہے کہ وہ چھن جائے یا فلاں کے ساتھ جو ہو، اس پر دل دھڑکنا تو نہیں بند کر دے گا۔ مشکل وقت میں لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ طاقتور ہیں جتنا ان کا خیال ہے۔ یہ احساس اعتماد لے کر آتا ہے۔ مستقبل کے چیلنج سے بہتر طریقے سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور بلاوجہ کے خوف بھی دور ہو سکتے یہں۔

فوائد کی دوسری کلاس لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ مشکلات ایک فلٹر ہیں۔ مشکل وقت میں لوگ مدد کرنے آتے ہیں۔ یہ تعلقات کو مضبوط کرتا ہے، دوسروں کی طرف دل کھول دیتا ہے۔ محبت اور تشکر طاقتور ادویات ہیں۔ دوسروں کے ساتھ برداشت اور ملنساری میں اضافہ خود اپنے لئے نئے راستے کھول دیتا ہے۔

فوائد کی تیسری کیٹگری ترجیحات پر دوبارہ غور کرنا ہے۔ ایک جھنجوڑ دینے والا واقعہ، ایک ٹرننگ پوائنٹ۔ غیراہم چیزوں کو پسِ پشت ڈالنے کا موقع، زندگی کو نئے زاویے سے دیکھنے کا وقت۔ چارلس ڈکنز کے کردار سکروج کی طرح خود اپنے کردار میں مکمل تبدیلی۔ سکروج، موت کی حقیقت کی شناخت کر کے انتہائی کنجوس شخص سے فیاض میں بدل گیا تھا جو اپنی فیملی، اپنے ملازمین اور سڑک پر چلتے اجنبیوں سے فیاضی اور مہربانی سے پیش آنے لگا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں، اس کا مطلب تکالیف کو سیلیبریٹ نہیں۔ جہاں پر ہم کسی کو تکلیف میں دیکھیں، اس کو ممکنہ حد تک کم کرنے کی کوشش ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ہر کینسر کی تشخیص خاندانوں میں زلزلے لے آتی ہے۔ تکالیف ناپسندیدہ ہیں۔ لیکن صرف یہ کہ تکلیف اور مصائب ہر ایک کے لئے ہر وقت بری چیز نہیں۔ ان کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ زندگی کھٹی میٹھی چیزوں کا رنگا رنگ بنڈل ہے۔ ایک رنگ نکالیں تو دوسرا رنگ بھی غائب ہو جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب آپ پنسل واپس اٹھا لیں۔ اختیار آپ کے پاس ہے۔ جو بھی بدلیں، احتیاط سے۔ یہ اتنا آسان نہیں، جتنا لگتا ہے۔

اور ہاں، میری طرف مت دیکھیں۔ میں الگ کھڑا ہوں۔ اس اطمینان کے ساتھ کہ اس قدر مشکل فیصلہ مجھے کرنے کے لئے نہیں دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شکسپئیر کے الفاظ میں ۔۔۔۔

مشکل کا پھل میٹھا ہے
کسی مینڈک کی طرح، بدصورت اور زہریلا
لیکن سر پر قیمتی تاج پہنے ہوئے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں