سب سے پہلے ساتھ لگی تصویر پر نظر دوڑائیں۔
آپ کو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی ہو گی کہ سیاہ بالوں والی یہ نوجوان خاتون اچھے موڈ میں نہیں۔ ان کے غصے کا اندازہ کرتے ساتھ آپ نے مستقبل کے بارے میں بھی کچھ اندازہ لگا لیا ہو گا۔ شاید یہ کچھ کہنے والی ہیں اور یہ جو کہیں گی، اس میں آواز اونچی ہو گی اور الفاظ خوشگوار نہیں ہوں گے۔ محض ایک جھلک دیکھ کر یہ سب اندازہ لگاتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگی۔ جھٹ سے پہچان لیا۔ اور آپ نے تصویر دیکھتے ہوئے ارادہ بھی نہیں کیا تھا کہ اس کو دیکھ کر آپ نے موڈ پہچاننا ہے اور مستقبل کی پیشگوئی کرنی ہے اور اس سب عمل میں آپ کو محسوس بھی نہیں ہوا کہ آپ نے کچھ کام کیا ہے۔ یہ تیز سوچ کا سسٹم ہے۔
اب ہم ایک اور چیز دیکھتے ہیں، یہ اس سے نچلی لائن میں لکھا ہوا پرابلم ہے
17 x 24
اس کو دیکھتے ہی آپ نے پہچان لیا کہ یہ ریاضی میں ضرب کا مسئلہ ہے اور شاید یہ بھی کہ یہ اتنا مشکل نہیں۔ آپ اس کو حل کر سکتے ہیں۔ اگر زبانی نہیں تو کاغذ اور پنسل کی مدد سے۔ آپ کو شاید کچھ تھوڑا تھوڑا اندازہ بھی ہو کہ جواب کس رینج میں ہو گا۔ یعنی اگر میں آپ کو کہوں کے اس کا جواب 123 ہے یا 12609 ہے تو آپ جھٹ سے کہہ دیں گے کہ نہیں، یہ جواب غلط ہے۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ اس کا جواب 568 ہے تو ہاں یا نہیں اتنی جلدی نہیں کہہ سکیں گے۔ ایک ٹھیک جواب فوری دماغ میں نہیں آیا۔ آپ کو محسوس ہوا کہ یہ فیصلہ آپ نے لینا ہے کہ اس کو حل بھی کیا جائے یا نہیں۔ اگر آپ نے ابھی اسے حل نہیں کیا تو اب اسے ذہن میں کرنے کی کوشش کر لیں یا جتنا کر سکتے ہیں، اتنا کر لیں۔
اس کے جتنے سٹیپ لئے، اس دوران آپ نے جو محسوس کیا، یہ سست سوچ کا سسٹم ہے۔ پہلے آپ نے یادداشت سے سکول میں سیکھا ہوا کوگنیٹو پروگرام حاصل کیا، پھر اس پر عملدرآمد کیا۔ اس دوران ذہن پر کچھ کرنے کا بوجھ محسوس ہوا۔ جیسے یادداشت میں کچھ اٹھا رکھا ہو۔ درمیانی سٹیپ کے جواب ذہن میں رکھنا تھے۔ یہ ذہن کے لئے ایک مشق تھی۔ جان بوجھ کر کیا گیا، زور لگا کر کرنے والا، ترتیب سے ہونے والا ۔۔ جو ذہن کی سست سوچ کا طریقہ ہے۔ اس میں صرف ذہن استعمال نہیں ہوا، جسم نے بھی شرکت کی۔ آپ کے پٹھے اکڑ گئے، بلڈ پریشر میں اضافہ ہوا، دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھی۔ اگر اس دوران کوئی قریب سے آپ کی آنکھوں کو دیکھ رہا ہوتا تو دیکھ سکتا تھا کہ اس دوران آپ کی پُتلیاں پھیل گئی تھیں۔ اور جسی طرح آپ نے اس کا جواب تلاش کر لیا (یہ 408 ہے) یا پھر ہار مان لی تو یہ واپس نارمل سائز کی ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی دہائیوں سے ماہرینِ نفسیات سوچ کے ان دو طریقوں میں گہری دلچسپی لیتے آئے ہیں۔ وہ طریقہ جو خاتون کی تصویر کے ردِ عمل میں استعمال ہوا اور وہ جو ضرب دیتے وقت۔ کیتھ سٹانووچ اور رچرڈ ویسٹ نے ان کا نام سسٹم ون اور سسٹم ٹو رکھا ہے۔
سسٹم ون آٹومیٹک اور جلد ہے جس میں کوئی محنت نہیں لگتی اور اس پر کنٹرول کا کوئی احساس نہیں
سسٹم ٹو ڈیمانڈ کے مطابق ذہنی ایکٹیویٹی کی توجہ کسی طرف مرکوز کرتا ہے۔ سسٹم ٹو کے آپریشن داخلی تجربے، انتخاب، توجہ، ایجنسی کے ساتھ ایسوسی ایٹ کئے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سسٹم ون کے کاموں کی مثالیں۔
یہ پہچاننا کہ کونسی چیز قریب ہے اور کونسی دور
اچانک کوئی آواز سن کر اس طرف دیکھنا
یہ فقرہ مکمل کرنا، “پاکستان زندہ ۔۔۔۔ “
کسی ناگوار تصویر کو دیکھ کر چہرے پر تاثرات بنانا
کسی کی آواز میں غصہ پہچاننا
دو جمع دو کا جواب دینا
خالی سڑک پر کار چلانا
اگر آپ شطرنج کے ماسٹر ہیں تو شطرنچ کی اچھی چال چلنا
آسان فقرے سمجھ جانا
کسی کے حلیہ اور گفتگو سے اس کے پیشے کا اندازہ لگانا
سسٹم ون کی صلاحیتیں ہم دوسرے جانوروں سے شئیر کرتے ہیں۔ پیدائش کے وقت سے ہی ہم دنیا کو سمجھنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ چیزیں پہچان لیتے ہیں، توجہ کا رخ کسی طرف رکھ سکتے ہیں، نقصان سے بچتے ہیں اور مکڑی سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ بہت سی ایکٹیویٹیز کو ہم مشق سے اس سسٹم کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ معلومات (افغانستان کا دارالحکومت کیا ہے؟) سے سوشل صورتحال کی باریکیوں کو۔ کئی مہارتیں اس کا حصہ بن جاتی ہیں جیسا کہ شطرنج کی اچھی چال فوری پہچاننا صرف اس شعبے کا ماہر کر سکتا ہے۔ حلیے اور گفتگو سے کسی کے پیشے کا اندازہ لگا لینے کے لئے زبان اور کلچر کے وسیع علم کی ضرورت ہے (جو ہم سب کے پاس ہوتا ہے)۔ یادداشت سے یہ تعلق بنا لینا بغیر محنت کے ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سسٹم ٹو کے متنوع آپریشنز میں ایک چیز کامن ہے۔ ان کو توجہ کی ضرورت ہے اور توجہ ہٹ جائے تو کام میں خلل پڑ جاتا ہے۔ اس کی مثالیں
ریس شروع ہونے سے پہلے گن کی آواز سننے کے لئے تیار ہونا
ایک سرکس میں اپنی توجہ مسخرے کی طرف رکھنا
شور والے کمرے میں ایک شخص کی آواز پر توجہ رکھنا
ایک مجمع میں سفید بالوں والی ایک خاتون کو تلاش کرنا
اپنی عام رفتار سے تیز رفتار پر چلنا
کسی رکھ رکھاو والی محفل میں اپنے رویے پر قابو رکھنا
کس پیراگراف میں یہ گنتی کرنا کہ “الف” کتنی بار آیا۔
اپنا فون نمبر کسی کو بتانا
دو موبائل فونوں میں موازنہ کرنا کہ بہتر کونسا ہے
ٹیکس کا فارم بھرنا
ایک بحث میں کسی کی دی گئی پیچیدہ دلیل کو جانچنا
ان سب مثالوں میں اگر توجہ ہٹ جائے تو پرفارمنس متاثر ہو گی یا کام نہیں کر سکیں گے۔
جب کوئی کہتا ہے کہ “فلاں چیز کی طرف توجہ دیں” تو یہ ایک صائب مشورہ ہے۔ کیونکہ توجہ کا بجٹ محدود ہے۔ توجہ طلب ایکٹیویٹی ایک دوسرے میں خلل ڈالتی ہیں۔ اس لئے سسٹم ون والے کاموں کے برعکس سسٹم ٹو والے کئی کام ایک ساتھ نہیں کئے جا سکتے۔ رش والے ٹریفک میں موڑ کاٹتے وقت آپ سترہ کو چوبیس سے ضرب نہیں دے سکتے (اس کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے)۔ جبکہ خالی سڑک پر گاڑی چلاتے اپنے ساتھ والے مسافر کے ساتھ اچھی گفتگو کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی ایک طرف دی جانے والی شدید توجہ ہمیں دوسری چیزوں سے اندھا کر دیتی ہے۔ اس کی سب سے ڈرامائی مثال کرسٹوفر چیبرس اور ڈینئیل سائمنز نے “مخفی گوریلا” کی مدد سے دکھائی۔ باسکٹ بال کی ایک مختصر فلم جس میں دو ٹیمیں ایک دوسرے کو پاس دے رہی ہیں۔ دیکھنے والے کو کہا گیا کہ اس میں پاس دئے جانے کی گنتی کرنی ہے۔ سفید قمیض والی ٹیم والے پاس گننے ہیں، سیاہ ٹیم والوں کے نہیں۔ یہ کام آسان نہیں اور اس میں توجہ لگتی ہے۔ اس ویڈیو کے درمیان میں ایک خاتون گوریلا کا سوٹ پہنے آئیں، کورٹ کے درمیان میں پہنچیں، اپنا سینہ پیٹا اور پھر چلی گئیں۔ نو سیکنڈ تک یہ گوریلا ویڈیو میں ہے۔ ہزارہا لوگوں نے یہ ویڈیو دیکھی اور آخر میں پوچھنے پر انہیں ویڈیو میں کچھ غیرمعمولی نظر نہیں آیا۔ یہ گننے والا کام ہے، خاص طور پر ایک ٹیم کے پاس کو نظرانداز کرنے کی ہدایت، جو لوگوں کو اندھا کر دیتی ہے۔ اگر کسی کو یہ ہدایت نہ دی جائے تو اس کا کوئی امکان نہیں کہ اسے گوریلا نظر نہیں آئے گا۔ سسٹم ٹو کی شدید توجہ نے دوسروں کاموں کو محدود وسائل سے محروم کر دیا۔
مصنف نوٹ کرتے ہیں کہ اس میں سب سے اہم مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ اس نتیجے سے حیران ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے گوریلا نہیں دیکھا تھا، ان کو ابتدا میں یقین تھا کہ گوریلا اس ویڈیو میں نہیں۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ پوری ویڈیو دیکھنے کے باوجود اتنا اہم ایونٹ ان کی نظر سے اوجھل بھی رہ سکتا ہے۔ گوریلا سٹڈی ہمارے ذہن کے بارے میں ایک اہم فیکٹ نمایاں کرتی ہے۔ نہ صرف ہم واضح چیزوں کے بارے میں اندھے ہو سکتے ہیں بلکہ اپنے اندھے پن کے بارے میں بھی اندھے ہوتے ہیں۔
یہ ترجمہ اس کتاب سے
Thinking Fast and Slow: Daniel Kahnemann
اب ہم ایک اور چیز دیکھتے ہیں، یہ اس سے نچلی لائن میں لکھا ہوا پرابلم ہے
17 x 24
اس کو دیکھتے ہی آپ نے پہچان لیا کہ یہ ریاضی میں ضرب کا مسئلہ ہے اور شاید یہ بھی کہ یہ اتنا مشکل نہیں۔ آپ اس کو حل کر سکتے ہیں۔ اگر زبانی نہیں تو کاغذ اور پنسل کی مدد سے۔ آپ کو شاید کچھ تھوڑا تھوڑا اندازہ بھی ہو کہ جواب کس رینج میں ہو گا۔ یعنی اگر میں آپ کو کہوں کے اس کا جواب 123 ہے یا 12609 ہے تو آپ جھٹ سے کہہ دیں گے کہ نہیں، یہ جواب غلط ہے۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ اس کا جواب 568 ہے تو ہاں یا نہیں اتنی جلدی نہیں کہہ سکیں گے۔ ایک ٹھیک جواب فوری دماغ میں نہیں آیا۔ آپ کو محسوس ہوا کہ یہ فیصلہ آپ نے لینا ہے کہ اس کو حل بھی کیا جائے یا نہیں۔ اگر آپ نے ابھی اسے حل نہیں کیا تو اب اسے ذہن میں کرنے کی کوشش کر لیں یا جتنا کر سکتے ہیں، اتنا کر لیں۔
اس کے جتنے سٹیپ لئے، اس دوران آپ نے جو محسوس کیا، یہ سست سوچ کا سسٹم ہے۔ پہلے آپ نے یادداشت سے سکول میں سیکھا ہوا کوگنیٹو پروگرام حاصل کیا، پھر اس پر عملدرآمد کیا۔ اس دوران ذہن پر کچھ کرنے کا بوجھ محسوس ہوا۔ جیسے یادداشت میں کچھ اٹھا رکھا ہو۔ درمیانی سٹیپ کے جواب ذہن میں رکھنا تھے۔ یہ ذہن کے لئے ایک مشق تھی۔ جان بوجھ کر کیا گیا، زور لگا کر کرنے والا، ترتیب سے ہونے والا ۔۔ جو ذہن کی سست سوچ کا طریقہ ہے۔ اس میں صرف ذہن استعمال نہیں ہوا، جسم نے بھی شرکت کی۔ آپ کے پٹھے اکڑ گئے، بلڈ پریشر میں اضافہ ہوا، دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھی۔ اگر اس دوران کوئی قریب سے آپ کی آنکھوں کو دیکھ رہا ہوتا تو دیکھ سکتا تھا کہ اس دوران آپ کی پُتلیاں پھیل گئی تھیں۔ اور جسی طرح آپ نے اس کا جواب تلاش کر لیا (یہ 408 ہے) یا پھر ہار مان لی تو یہ واپس نارمل سائز کی ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی دہائیوں سے ماہرینِ نفسیات سوچ کے ان دو طریقوں میں گہری دلچسپی لیتے آئے ہیں۔ وہ طریقہ جو خاتون کی تصویر کے ردِ عمل میں استعمال ہوا اور وہ جو ضرب دیتے وقت۔ کیتھ سٹانووچ اور رچرڈ ویسٹ نے ان کا نام سسٹم ون اور سسٹم ٹو رکھا ہے۔
سسٹم ون آٹومیٹک اور جلد ہے جس میں کوئی محنت نہیں لگتی اور اس پر کنٹرول کا کوئی احساس نہیں
سسٹم ٹو ڈیمانڈ کے مطابق ذہنی ایکٹیویٹی کی توجہ کسی طرف مرکوز کرتا ہے۔ سسٹم ٹو کے آپریشن داخلی تجربے، انتخاب، توجہ، ایجنسی کے ساتھ ایسوسی ایٹ کئے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سسٹم ون کے کاموں کی مثالیں۔
یہ پہچاننا کہ کونسی چیز قریب ہے اور کونسی دور
اچانک کوئی آواز سن کر اس طرف دیکھنا
یہ فقرہ مکمل کرنا، “پاکستان زندہ ۔۔۔۔ “
کسی ناگوار تصویر کو دیکھ کر چہرے پر تاثرات بنانا
کسی کی آواز میں غصہ پہچاننا
دو جمع دو کا جواب دینا
خالی سڑک پر کار چلانا
اگر آپ شطرنج کے ماسٹر ہیں تو شطرنچ کی اچھی چال چلنا
آسان فقرے سمجھ جانا
کسی کے حلیہ اور گفتگو سے اس کے پیشے کا اندازہ لگانا
سسٹم ون کی صلاحیتیں ہم دوسرے جانوروں سے شئیر کرتے ہیں۔ پیدائش کے وقت سے ہی ہم دنیا کو سمجھنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ چیزیں پہچان لیتے ہیں، توجہ کا رخ کسی طرف رکھ سکتے ہیں، نقصان سے بچتے ہیں اور مکڑی سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ بہت سی ایکٹیویٹیز کو ہم مشق سے اس سسٹم کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ معلومات (افغانستان کا دارالحکومت کیا ہے؟) سے سوشل صورتحال کی باریکیوں کو۔ کئی مہارتیں اس کا حصہ بن جاتی ہیں جیسا کہ شطرنج کی اچھی چال فوری پہچاننا صرف اس شعبے کا ماہر کر سکتا ہے۔ حلیے اور گفتگو سے کسی کے پیشے کا اندازہ لگا لینے کے لئے زبان اور کلچر کے وسیع علم کی ضرورت ہے (جو ہم سب کے پاس ہوتا ہے)۔ یادداشت سے یہ تعلق بنا لینا بغیر محنت کے ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سسٹم ٹو کے متنوع آپریشنز میں ایک چیز کامن ہے۔ ان کو توجہ کی ضرورت ہے اور توجہ ہٹ جائے تو کام میں خلل پڑ جاتا ہے۔ اس کی مثالیں
ریس شروع ہونے سے پہلے گن کی آواز سننے کے لئے تیار ہونا
ایک سرکس میں اپنی توجہ مسخرے کی طرف رکھنا
شور والے کمرے میں ایک شخص کی آواز پر توجہ رکھنا
ایک مجمع میں سفید بالوں والی ایک خاتون کو تلاش کرنا
اپنی عام رفتار سے تیز رفتار پر چلنا
کسی رکھ رکھاو والی محفل میں اپنے رویے پر قابو رکھنا
کس پیراگراف میں یہ گنتی کرنا کہ “الف” کتنی بار آیا۔
اپنا فون نمبر کسی کو بتانا
دو موبائل فونوں میں موازنہ کرنا کہ بہتر کونسا ہے
ٹیکس کا فارم بھرنا
ایک بحث میں کسی کی دی گئی پیچیدہ دلیل کو جانچنا
ان سب مثالوں میں اگر توجہ ہٹ جائے تو پرفارمنس متاثر ہو گی یا کام نہیں کر سکیں گے۔
جب کوئی کہتا ہے کہ “فلاں چیز کی طرف توجہ دیں” تو یہ ایک صائب مشورہ ہے۔ کیونکہ توجہ کا بجٹ محدود ہے۔ توجہ طلب ایکٹیویٹی ایک دوسرے میں خلل ڈالتی ہیں۔ اس لئے سسٹم ون والے کاموں کے برعکس سسٹم ٹو والے کئی کام ایک ساتھ نہیں کئے جا سکتے۔ رش والے ٹریفک میں موڑ کاٹتے وقت آپ سترہ کو چوبیس سے ضرب نہیں دے سکتے (اس کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے)۔ جبکہ خالی سڑک پر گاڑی چلاتے اپنے ساتھ والے مسافر کے ساتھ اچھی گفتگو کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی ایک طرف دی جانے والی شدید توجہ ہمیں دوسری چیزوں سے اندھا کر دیتی ہے۔ اس کی سب سے ڈرامائی مثال کرسٹوفر چیبرس اور ڈینئیل سائمنز نے “مخفی گوریلا” کی مدد سے دکھائی۔ باسکٹ بال کی ایک مختصر فلم جس میں دو ٹیمیں ایک دوسرے کو پاس دے رہی ہیں۔ دیکھنے والے کو کہا گیا کہ اس میں پاس دئے جانے کی گنتی کرنی ہے۔ سفید قمیض والی ٹیم والے پاس گننے ہیں، سیاہ ٹیم والوں کے نہیں۔ یہ کام آسان نہیں اور اس میں توجہ لگتی ہے۔ اس ویڈیو کے درمیان میں ایک خاتون گوریلا کا سوٹ پہنے آئیں، کورٹ کے درمیان میں پہنچیں، اپنا سینہ پیٹا اور پھر چلی گئیں۔ نو سیکنڈ تک یہ گوریلا ویڈیو میں ہے۔ ہزارہا لوگوں نے یہ ویڈیو دیکھی اور آخر میں پوچھنے پر انہیں ویڈیو میں کچھ غیرمعمولی نظر نہیں آیا۔ یہ گننے والا کام ہے، خاص طور پر ایک ٹیم کے پاس کو نظرانداز کرنے کی ہدایت، جو لوگوں کو اندھا کر دیتی ہے۔ اگر کسی کو یہ ہدایت نہ دی جائے تو اس کا کوئی امکان نہیں کہ اسے گوریلا نظر نہیں آئے گا۔ سسٹم ٹو کی شدید توجہ نے دوسروں کاموں کو محدود وسائل سے محروم کر دیا۔
مصنف نوٹ کرتے ہیں کہ اس میں سب سے اہم مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ اس نتیجے سے حیران ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے گوریلا نہیں دیکھا تھا، ان کو ابتدا میں یقین تھا کہ گوریلا اس ویڈیو میں نہیں۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ پوری ویڈیو دیکھنے کے باوجود اتنا اہم ایونٹ ان کی نظر سے اوجھل بھی رہ سکتا ہے۔ گوریلا سٹڈی ہمارے ذہن کے بارے میں ایک اہم فیکٹ نمایاں کرتی ہے۔ نہ صرف ہم واضح چیزوں کے بارے میں اندھے ہو سکتے ہیں بلکہ اپنے اندھے پن کے بارے میں بھی اندھے ہوتے ہیں۔
یہ ترجمہ اس کتاب سے
Thinking Fast and Slow: Daniel Kahnemann
Wah sir Kiya kehny ap k Jo kbi na smjh par wo bhi ap ny asani se samjha dia
جواب دیںحذف کریں