ہارمون جسم کے شہر میں کیمیائی پیغام رساں ہیں۔ یہ جسم کے کسی ایک حصے میں پیدا ہوتے ہیں اور کہیں اور جا کر ایکشن کرتے ہیں۔ یہ انواع و اقسام کے ہیں۔ مختلف سائزکے، مختلف کیمسٹری رکھنے والے، مختلف جگہوں پر مختلف اثرات کرنے والے۔ کئی پروٹین ہیں۔ کئی سٹیروائڈ ہیں۔ کئی ایمائن ہیں۔ ہماری ان کے بارے میں سمجھ ابھی مکمل ہونے سے بہت دور ہے اور زیادہ تر ہم نے حال میں ہی سیکھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر جان واس کہتے ہیں کہ “ہارمون جسم میں دریافت ہونے والا آخری بڑا سسٹم تھے اور ہم انہیں ابھی بھی دریافت کر رہے ہیں”۔ 1958 تک ہمیں صرف بیس کے قریب ہارمونز کا علم تھا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ کتنے ہیں لیکن 80 سے 100 کے درمیان کا عدد ہے۔
بہت دیر تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ ہارمون جسم کے اینڈوکرائن غدود ہی بناتے ہیں۔ (اس وجہ سے میڈیسین کے اس شعبے کا نام اینڈورکرائنولوجی ہے)۔ اینڈوکرائن غدود وہ ہیں جو اپنی پراڈکٹ کو براہِ راست خون میں دیتے ہیں۔ جبکہ ایکسوکرائن غدود اسے سطح پر (جیسا کہ پسینہ یا منہ میں لعاب) دیتے ہیں۔
اہم اینڈوکرائن غدود ۔۔ تھائیرائیڈ، پینیل، ہائپوتھالیمس، تھائمس، لبلبہ وغیرہ ۔۔۔ جسم میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن ملکر کام کرتے ہیں۔ یہ چھوٹے ہیں اور ان کا وزن چند اونس سے زیادہ نہیں لیکن اپنے مختصر جثے کے باوجود یہ آپ کی خوشی اور صحت میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر، پیٹیوٹری گلینڈ دماغ کے اندر دفن ہے۔ اس کا سائز محض لوبیے کے ایک دانے جتنا ہے لیکن اس کے اثرات بہت بڑے ہیں۔
دنیا میں سب سے طویل القامت شخص کا ریکارڈ رابرٹ واڈلو کے پاس ہے۔ ان کے اس گلینڈ میں خرابی تھی جس وجہ سے ان کے بڑھنے پر رکاوٹ نہیں تھی۔ بارہ سال کی عمر تک وہ اپنے والد کے قد سے بڑھ چکے تھے۔ 1936 میں ہائی سکول مکمل کرنے تک ان کا قد آٹھ فٹ ہو گیا تھا۔ ان کا وزن پانچ سو پاونڈ اور جوتے کا نمبر 40 تھا۔ چلنے میں دشواری تھی۔ ان کی وفات صرف بائیس سال کی عمر میں 1940 میں ہوئی۔ اس وقت ان کا قد 8 فٹ اور 11.1 انچ تھا۔
اور یہ سب صرف اس لوبیے جتنے گلینڈ سے خارج ہونے والی کیمیکل کی زیادتی کی وجہ سے تھا۔
پیٹیوٹری گلینڈ کو ماسٹر گلینڈ بی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بہت کچھ کنٹرول کرتا ہے۔ اور جب آپ سخت ورزش کرتے ہیں تو یہ خون میں اینڈروفن کا اخراج کرتا ہے۔ یہ وہ کیمیکل ہے جو ہمیں لذت دیتا ہے۔ اور اس وجہ سے کئی لوگ ورزش سے سکون محسوس کرتے ہیں (اس کے لئے runners high کی اصطلاح بھی ہے)۔ زندگی کا بمشکل ہی کوئی گوشہ ہو گا جسے یہ گلینڈ نہ چھوتا ہو۔ لیکن بیسویں صدی میں بہت دیر تک ہمیں اس کی کوئی خاص سمجھ نہیں تھی۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
Your Ad Spot
اتوار، 29 مئی، 2022
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں