باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 27 جولائی، 2023

ذہانت (27) ۔ ڈیٹا کا مسئلہ


ٹمارا ملز کو پیدائش سے ہی سانس کی تکلیف تھی۔ وہ نو ماہ کی تھیں کہ ان کو دمہ تشخیص ہوا۔ یہ عام مرض ہے اور برطانیہ میں ان کی طرح چون لاکھ اس سے متاثر ہیں۔ اس کی آسانی سے دیکھ بھال کی جا سکتی ہے۔ انہیں اپنے ساتھ inhaler رکھنا پڑتا تھا لیکن باقی سب نارمل تھا۔
جب وہ آٹھ سال کی ہوئیں تو انہیں سوائین فلو ہو گیا جو کہ ان کی صحت کے لئے ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اس کے بعد سینے کی ایک انفیکشن اور پھر اگلی اور پھر اگلی۔ دمے کا دورہ بھی شدید ہوتا۔ان کی والدہ ٹمارا کو ڈاکٹر کے پاس اور ہسپتال لے جاتی تھیں۔
دو مرتبہ بچی کو ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ سکول میں انہیں فزیکل ٹریننگ کی کلاس سے رخصت مل گئی۔ جب گھر کی سیڑھیاں چڑھنا دشوار ہوا تو ٹمارا کو نانی کے پاس بھیج دیا گیا۔
دس اپریل 2014 کو بچی کو ایک بار پھر سینے کا انفیکشن ہوا۔ ان کے نانا نے ایمبولینس منگوائی۔ آکسیجن لگائی لیکن بچی کی حالت بگڑتی گئی۔ اس رات ٹمارا کا انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر تیرہ برس تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دمہ عام طور پر جان لیوا مرض نہیں ہے۔ لیکن اس سے ایک سال میں مرنے والوں کی تعداد برطانیہ میں 1200 ہے۔ ان میں سے دو تہائی ایسی اموات ہیں جن کو بچایا جا سکتا تھا۔ ٹمارا بھی انہیں میں سے تھیں۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وارننگ کی علامات کو پہلے پکڑ لیا جائے اور اس پر ایکشن لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے آخری اور جان لیوا دورے سے پچھلے چار  سال میں 47 مرتبہ ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال گئی تھیں۔ ان کی طرف توجہ دی گئی تھی اور ان کے فوری مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایکشن لیا گیا تھا۔ لیکن کسی نے مجموعی تناظر کو نہیں دیکھا تھا۔ کسی نے وہ پیٹرن نہیں دیکھا تھا کہ ہر بار ہسپتال آنے میں کیا ہو رہا تھا۔ ان کی حالت ایک ڈھلوان پر تھی۔ اور کسی نے یہ تجویز نہیں کیا تھا کہ کچھ مختلف کرنا چاہیے۔
اس کی وجہ کسی فرد کی کوتاہی نہیں تھی بلکہ ایسا ہونے کی وجہ تھی۔ برطانیہ میں قومی صحت کا ادارہ دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ سروسز میں سے ہے لیکن پھر بھی، اگر آپ ہسپتال گئے ہیں تو دیکھنے والے معالج کو علم نہیں ہو گا کہ آپ نے کب اپنے مقامی ڈاکٹر کو دکھایا ہے اور ہسٹری کیا رہی ہے۔
اور اس کے دستیاب نہ ہونے کا مطلب یہ نکلا کہ جب ٹمارا ملز کو کسی ڈاکٹر کو دکھایا جاتا تو اس کے لئے پوری تصویر کو سمجھنا ناممکن ہوتا۔
الگورتھم ٹمارا جیسی بچیوں کی بہت مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن انہیں پیٹرن ڈھونڈنے کے لئے ڈیٹا اکٹھا کئے جانا درکار ہے۔
اور یہ کسی سٹرکچر سے نہیں ہوتا۔ نسخے، سکین، ہاتھ کی لکھائی، مخفف الفاظ اور انسانی غلطیاں بھی اس کا حصہ ہیں۔ اور پھر انسانی زبان کو سمجھنا ہے۔ اگر مریض بتا رہا ہے کہ وہ درد سے مرا جا رہا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موت کے منہ میں ہے یا اسی بہت درد ہو رہا ہے؟
اس طرح پیچیدگیوں کی تہیں ہیں جو کہ ڈیٹا کو مشین کے پراسس کرنے لئے دشوار کرتی جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
صحت کے ریکارڈز کے اس ڈیٹا کے اوپر مغزماری کرنے کا کام آئی بی ایم کے بعد گوگل نے کیا۔ گوگل کے ڈیپ مائنڈ کو برطانیہ کے ہسپتالوں تک رسائی دی گئی۔ شروع میں ارادہ تھا کہ اس تمام ڈیٹا پر سیکھنے کے ہوشیار الگورتھم چلائے جائیں گے۔ لیکن محققین کو جلد ہی معلوم ہو گیا کہ انہیں اپنی امنگوں کو لگام دینا ہو گی کیونکہ ڈیٹا یہ سب کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اور صرف گردے کے ضرر تک محدود کر لیا۔ اس کے لئے سولہ لاکھ مریضوں کے پانچ سال کے ڈیٹا تک رسائی دے دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گردے کی انجری کی وجہ سے ماہانہ ایک ہزار اموات ہوتی ہیں اور گوگل کا الگورتھم اس سے اہم معلومات نکال سکتا تھا جس سے جانیں بچائی جا سکیں۔
لیکن اس خبر پر عوامک ردِعمل excitement کا نہیں بلکہ طیش کا آیا۔ اور یہ بلاوجہ نہیں تھا۔ ایک نجی ادارے کو لوگوں کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی دے دی گئی تھی۔ کون کب ہسپتال میں داخل ہوا۔ اسے ملنے کون آیا۔ اس کی رپورٹ کیا تھیں۔ ذہنی بیماریوں کی کیا حالت تھی وغیرہ۔
یہ بڑا سکینڈل تھا جس نے طوفان کھڑا کر دیا۔ صحت کے ادارے اور گوگل کو ابھی تک اس پر بڑے مقدمات کا سامنا ہے۔
اگرچہ معاہدے کے تحت گوگل اس انفارمیشن کو اپنے کسی بھی اور بزنس کے لئے استعمال نہیں کر سکتا تھا اور ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کا اس کا ریکارڈ بہت اچھا تھا لیکن دنیا کی ایک طاقتور ترین ٹیکالوجی کمپنی کے پاس لوگوں کا پرائیویٹ ترین ڈیٹا؟ یہ ایک معقول خوف ہے۔
اور یہاں پر ایک مشکل الجھن ہے۔
اگر میڈیکل ریکارڈز کو الگورتھمز کے لئے کھول دیا جائے تو نوعِ انسانی اس سے زبردست فائدہ اٹھا سکتی ہے۔لیکن اس کو حقیقت بنانے کے لئے لوگوں کو اپنے ریکارڈ بڑی طاقتور اور امیر کمپنیوں کے حوالے کرنے ہوں گے۔ اور امید کرنی ہو گی کہ یہ محفوظ رہیں اور ان سے غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے۔
الگورتھم انسانی زندگیوں کو بہت بہتر کر سکتے ہیں لیکن ان کو ہمارے خفیہ ترین ریکارڈز تک رسائی چاہیے اور ہمیں اس کی قیمت پرائیویسی کی قربانی کی صورت میں دینی پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مسئلہ بڑا ہے اور مشکل ہے لیکن یہ بھی ناقابلِ حل نہیں ہے۔ اس بارے میں احتیاط سے کام کیا جا سکتا ہے۔ کنٹرول بنائے جا سکتے ہیں۔ آئندہ دہائیوں میں مزید پیشرفت دیکھنے کو ملے گی۔
لیکن اس بارے میں اصل سوال ایک اور ہے جو کہ اس موضوع کا مشکل ترین سوال ہے۔
اگر بالفرض مصنوعی ذہانت کی اچھی تربیت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر کیا ہو گا؟
(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں