باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 27 جولائی، 2023

ذہانت (28) ۔ ڈاکٹر کس کا؟


مصنوعی ذہانت کی راہ میں گوناگوں چیلنج ہیں۔ لیکن یہ توقع رکھے جانا غيرمعقول نہیں کہ ان کو حل کیا جا سکے گا۔ اور یہ ہمیں ایک اہم نکتے کی طرف لے کر آتا ہے جو کہ ٹیکنالوجی کا نہیں ہے۔
اگر فرض کر لیجئے کہ مستقبل میں ایسی مشین بنا لینے میں کامیابی ہو جاتی ہے جو کہ تشخیص کر سکے اور اس کے مطابق مریض کو علاج تجویز کر سکے تو کیا ہو گا؟ ایسی مشین کی ترجیح کیا ہو گی؟ کیا ترجیح ہونی چاہیے؟ اجتماعی اور انفرادی کا توازن کیسے ہو گا؟ کیونکہ یہ مفاد ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے۔
فرض کر لیجئے کہ آپ ڈاکٹر کے پاس گئے ہیں اور آپ کو کھانسی کی شکایت ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگر آپ ڈاکٹر کے پاس نہ جائیں تب بھی یہ کھانسی خود ٹھیک ہو جائے لیکن آپ مصنوعی ذہین ڈاکٹر سے مشورہ کرنے چلے گئے ہیں۔ اس مشین کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ اگر یہ مشین آپ کی خدمت کے لئے ہے تو یہ آپ کو ایکسرے کا کہے گی اور ایک بلڈ ٹیسٹ دے گی تا کہ محفوظ طور پر فیصلہ لیا جا سکے۔ اور اگر آپ اینٹی بائیوٹک کی فرمائش کریں گے تو شاید آپ کو یہ بھی لکھ دے گی۔ خواہ، اس سے آپ کی تکلیف میں ایک آدھ دن کی کمی ہی آتی ہو۔ لیکن آپ کا آرام اور صحت سب سے مقدم ہیں تو یہ الگورتھم ایسا نسخہ لکھنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
لیکن اگر مشین کی ترجیح معاشرہ ہے تو پھر اس کو اس بات کا خیال بھی کرنا ہو گا کہ اینٹی بائیوٹک سے مدافعت ایک اجتماعی مسئلہ ہے جس کے لئے ایسی ادویات صرف ضرورت کے وقت ہی دینی چاہیے۔ اور اگر آپ خطرے میں نہیں ہیں تو وقتی تکلیف کو نظرانداز کرنا ہے۔
اور الگورتھم کو اس بات کا خیال بھی کرنا ہے کہ کب ٹیسٹ کے لئے بھیجنا ہے اور کیا ان کی قیمت سے ہونے والا فائدہ اتنا ہے کہ اس طرف جایا جائے؟ اور اگر ادویات اور ٹیسٹ سرکاری خرچ پر ہیں تو اسے بجٹ کا دھیان بھی کرنا ہو گا۔ اور صرف سنجیدہ علامات کی صورت میں تجویز کرنے ہوں گے۔ اور یہ نسخہ میں صرف ڈسپرین لکھ کر آپ کو سرزنش کرے کہ ذرا بہادر بنیں۔
ایک مشین جس کی ترجیح “اجتماعی بھلائی” ہو، اس کا اعضا کے ٹرانسپلانٹ میں فیصلہ کیا ہو گا؟ یقینی طور پر، اس کے علاج کے پلان “انفرادی بھلائی” والی مشین سے مختلف ہوں گے۔ اور یہاں پر سوال یہ ہو گا کہ اس کا خرچ کون دے گا کیونکہ ترجیحات اس سے طے ہوں گی۔
ایسی مشین جو کہ سرکاری ہو گی یا پھر انشورنس کرنے والے کی طرف سے ہو گی، وہ اس مفاد کو ترجیح دی گی۔ اس کے لئے جہاں ممکن ہو، سستا علاج تجویز کرے گی۔ جبکہ اگر ادویات بنانے والے کی طرف سے ہو گی تو وہ کچھ ادویات کو دوسرے پر ترجیح دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر کسی کا مقصد تقریباً ایک ہی ہے جو کہ مریض کی صحت بہتر کرنا ہے لیکن اس عمل میں بھی باریکیاں ہیں۔ کیونکہ مختلف پارٹیوں کے اپنے مقاصد ہمیشہ ہم آہنگ نہیں ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کے کسی بھی شعبے میں جب الگورتھم متعارف کروائے جائیں تو توازن قائم رکھنا پڑتا ہے۔ پرائیویسی اور لوگوں کی بھلائی کے درمیان۔ فرد اور معاشرے کے درمیان۔ مختلف ترجیحات اور چیلنج کے درمیان۔ اور مفادات کے الجھے جال میں آسان راستہ نہیں ہوتا۔ خواہ حتمی مقصد ایک ہی ہو۔
اور یہ اس وقت زیادہ مشکل ہو جاتا ہے جب مقابلہ کرنے والے مفادات واضح نہ ہوں۔
جب بھی الگورتھم کے فائدے بڑھا چڑھا کر بیان کئے جائیں اور اس کے خدشات پر نظر نہ ہو۔ تو اس وقت یہ سوال بنتا ہے کہ کیا اس تشہیر پر یقین کر لینا چاہیے؟ اس سے فائدہ کس کس کو ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہاں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اچھے الگورتھم انسانیت کو بے پناہ فوائد دے سکتے ہیں۔
(جاری ہے)


 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں