باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 16 دسمبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (72) ۔ سپین ۔ کیتھولک بادشاہ


سپین میں 1469 مسلمانوں کی موجودگی کے خاتمے کا آغاز تھا۔  کاستیل کی ازابیلا اول نے اراگون کے فرڈیننڈ سے شادی کی۔ اور اس نے اراگون اور کاستیل کی سلطنتوں کو یکجا کر دیا۔ یہ محدود سیاسی یونین تھی جس کے محدود معاشی فوائد تھے۔ کیونکہ یہ الگ خودمختار علاقے ہی رہے لیکن یہ جدید سپین کی پیدائش کا اہم واقعہ تھا۔ اس سے دو دہائیوں بعد اس کے ہونے والے اثرات بڑے تھے۔
اس شاہی جوڑے کو کیتھولک بادشاہ کہا گیا۔ 1482 میں انہوں نے غرناطہ پر حملے شروع کیے جو کہ اگلے دس سال تک لہروں کی صورت میں جاری رہے۔ 1492 میں غرناطہ ہتھیار ڈال چکا تھا۔ یہ کاستیل کا حصہ بن گیا اور اس کے ساتھ ہی 800 سال سے جاری مسلمانوں کا آئیبریا میں حکومت کا آخری حصہ بھی ختم ہو گیا۔ مسلمانوں نے اس سرزمین پر شاندار حکومت کی تھی جس کی روشنی نے اس زمین کو منور کیا تھا۔ اگرچہ طرز حکومت مختلف نہیں تھا لیکن یہ علم کی آزادی اور فروغ کا دور تھا۔ بڑی حد تک مذہبی رواداری تھی۔ اگرچہ کرسچن اور یہودی آبادی کو جزیہ دینا پڑتا تھا لیکن جبری تبدیلی مذہب نہیں تھی، جان کا خوف نہیں تھا یا الگ علاقوں میں رہنا نہیں پڑتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ دوسری طرف، ازابیلا اور فرڈیننڈ اس سے متضاد تھے۔ انکا مشن سپین کو ایک مذہب یعنی کیتھولک چرچ تلے اکٹھا کرنا تھا۔ اور فتح کے بعد مسلمانوں اور یہودیوں کو انتخاب دیا گیا۔ یا تو مذہب بدل لیں، یا جلاوطن ہو جائیں یا مار دیے جائیں۔
یہودی اس علاقے میں ایک ہزار سال سے آباد تھے۔ لیکن مارچ 1492 کو انہیں چار مہینے کی مہلت دی گئی کہ علاقہ چھوڑ دیں۔ اور یہ اپنے ساتھ سونا، گھوڑے یا ہتھیار نہیں لے جا سکتے تھے۔ مورخین میں اتفاق نہیں کہ کتنے جلا وطن کئے گئے لیکن اندازہ چالیس ہزار کا ہے۔ اس کے بعد سے آج تک سپین میں یہودی آبادی بہت کم رہی ہے۔ 1968 میں آ کر اس حکم کو سرکاری طور پر ترک کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہودیوں کا صفایا کرنے کے بعد 1502 میں اگلا نشانہ مسلمان بنے۔کئی اعلانیہ مذہب تبدیل کر چکے تھے لیکن اصل میں نہیں اور چھپ کر اسلام پر عمل پیرا تھے۔ مسلمان سے کرسچن ہو جانے والے لوگوں کو Little Moor کہا گیا اور ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ انہیں “اندرونی دشمن” کہا جاتا تھا۔ اور 1609 میں انہیں بھی ملک بدر کر دیا گیا۔ لاکھوں لوگ اس جبر کا نشانہ بنے۔ ویلنشیا کی ایک تہائی آبادی صاف کر دی گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی یہاں کی زراعت تباہ حال ہو گئی جو کہ کئی نسلوں کے بعد واپس بحال ہو سکی۔
سپین نے صدیوں تک یہودی اور مسلمان مخالف ریاست کے طور پر اپنی شناخت قائم رکھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپین کے بادشاہوں کی نظر میں ان پر خدا کی طرف سے یہ فرض عائد کیا گیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کیتھولک بنائیں۔ نہ صرف سپین میں بلکہ دنیا بھر میں۔
اور اس پس منظر میں ایک چالیس سالہ اطالوی مہم جو داخل ہوتے ہیں جن کا نام کرسٹوفر کولمبس تھا۔ وہ کئی سالوں سے کوشش کر رہے تھے کہ ان کے انڈیا تک پہنچنے کے مختصر راستے کی تلاش کو فنڈ کیا جائے۔ انہیں اتنی کامیابی ہوئی کہ وہ ہسپانیولا (جزیرہ جس میں ہیٹی اور ڈومینکن ری پبلک ہیں) پہنچ گئے۔ انہیں تھوڑی سی مقدار میں سونا بھی مل گیا۔ ازابیلا کو لکھے خط میں انہوں نے اسے “سونے کی وسیع کانیں” کہا۔ اور اس زرد دھات کی لالچ میں بڑی کشتیاں یہاں آنے لگیں۔ لاطینی امریکہ دریافت ہوا اور اس نے سپین کو دنیا کا طاقتور ترین ملک بنا دیا۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں