باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 16 دسمبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (71) ۔ سپین ۔ قرونِ وسطیٰ

 


سپین کا محل وقوع یورپ کے جنوب مغرب کے آخر میں ہے۔ اور یہاں پر یورپ اور شمالی افریقہ سے لوگ آتے رہے ہیں۔ ہسپانیہ 600 سال تک رومی سلطنت کا حصہ رہا۔ رومیوں نے یہاں چند آبادیاں ہی بنائیں لیکن اس علاقے کی ثقافت پر ان کا گہرا اثر رہا ہے۔ لاطینی ختم ہو گئی لیکن اس سے کاستلین، کاتالان، پرتگالی اور گالیسین زبانیں نکلیں۔
اور پھر مغربی گوتھ (Visigoth) آ گئے۔ رومیوں کے برعکس انہوں نے علاقے پر آثار زیادہ نہیں چھوڑے۔ 710 میں گوتھ بادشاہ وٹیزا کا انتقاہ ہوا اور ہسپانیہ کا علاقہ سلطنت کے الگ دعویداروں میں بٹ گیا۔ تقسیم شدہ ریاستیں کھڑی نہیں رہ سکتیں۔ مغربی گوتھ کا یہ گھر بھی کمزور ہو کر منہدم ہو گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب شمالی افریقہ سے مسلمان افواج یہاں پہنچیں۔ بادشاہ روڈرک کو شکست دی (جس میں وٹیزا کے مخالف خاندان نے بھی مدد کی) اور  ملک لے لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مئی 711 میں طارق بن زیاد کی سات ہزار کی فوج جبرالٹر پر اتری اور جولائی تک یہ روڈرک کی فوجوں کو شکست دے چکے تھے۔ اور روڈرک مارے جا چکے تھے۔ یہاں سے طارق بن زیادہ کی افواج شمال کی طرف گئیں ارو دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا۔ اٹھارہ ہزار کی فوج کی مزید کمک پہنچ چکی تھی۔ اور دو سال میں مسلمان افواج اس جزیرہ نما کے بڑے حصے پر قبضہ کر چکے تھے۔ اس کا نام الاندلس رکھ دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمان افواج نے شمال میں پیرینی کے پہاڑ پار کر کے چند بار حملے کئے۔ لیکن پھر معرکہ بلاط الشہدا (Battle of Tours) آ گیا۔ کئی مورخین کا خیال ہے کہ یہ وہ فیصلہ کن موڑ تھا جس نے فرانس اور باقی مغربی یورپ پر مسلمان قبضے کو روک دیا۔ 732 میں مسلمان فوج شمال میں پیشقدمی کر رہی تھی اور لوئر کا دریا (River Loire) پار کر چکی تھی۔ یہاں پر فرنگی لیڈر چارلس مارٹل سے جنگ ہوئی جس میں فرنگی فاتح رہے۔
اس سے ایک ہزار سال بعد مورخ ایڈورڈ گبن کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں اگر عرب فاتح رہتے تو آگے دور تک میدان صاف تھا۔
اس جنگ کے بعد مسلمان پیچھے ہٹ گئے اور پیرینی کو پار کرنے کی یہ آخری کوشش تھی۔
اگلی صدیوں میں بنو امیہ کی اندلس میں خلافت رہی۔ ان کا دارالحکومت قرطبہ عالمی تہذیب کا اہم ترین شہر رہا۔ لائبریریاں قائم ہوئی۔ سائنس اور آرکیٹکچر فروغ پایا۔ مسلمان سکالر علم اور دانش کو مغربی یورپ تک لے کر گئے۔ عربی نے سپین پر نقش چھوڑے ہیں۔ سپینش زبان نے سب سے زیادہ الفاظ عربی سے مستعار لئے ہیں۔ جبرالبٹر کا نام بھی اصل میں جبل الطارق (طارق کا پہاڑ) رکھا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلافت 1031 میں منہدم ہو گئی۔ اور ملک طائفوں میں بٹ چکا تھا۔ کرسچن راہنماؤں نے اسے موقع جانا۔ 1060 کی دہائی میں پوپ الیگزینڈر دوئم نے اعلان کیا کہ جو بھی جنگ میں شرکت کرے گا، اس کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ 1085 تک طلیطلہ کو کرسچن فتح کر چکے تھے۔ یہ مرکزی میسیتا کے حصے کی اہم فتح تھی اور یورپ اور سپین کی تاریخ کا اہم مرحلہ تھا۔
کرسچن افواج 1212 تک ڈیسیناپیروس پاس کو عبور کر چکی تھیں اور 1250 تک تقریبا تمام آئبیریا ان کے پاس تھا۔ صرف جنوبی ساحل پر غرناطہ کی سلطنت باقی تھی۔ غرناطہ نے وقت کے دھارے کو بھانپ لیا تھا اور کاستیل کو خراج ادا کرتا تھا۔ یہ اگلے 250 سال تک برقرار رہا۔ اور اس دوران میں الحمرا میں کئی شاندار محلات تعمیر ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپین کی کرسچن فتح ایک پراجیکٹ نہیں تھا۔ سپین کے جغرافیے کا مطلب یہ تھا کہ شمال کی کرسچن بادشاہتیں اپنے فیصلے یکطرفہ طور پر لیتی تھیں۔ یہ لہر کی طرح جنوب تک نہیں گئیں بلکہ وقفوں سے الگ مہمات اور جنگیں رہیں۔ اور اس کا یہ مطلب بھی نکلا کہ جدید سپین کے الگ ٹکڑوں کو جوڑنا تھا لیکن یہ لگائے ہوئے جوڑ نمایاں رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اب کچھ صدیوں چھوڑ کر آگے کی طرف چلتے ہیں۔ 1469 میں، جو یہاں کی تاریخ کا اہم سال رہا۔
(جاری ہے)

 



 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں