باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 15 فروری، 2024

درختوں کی زندگی (4) ۔ بولی ۔ درخت کی زبان


لغت کے مطابق بولی وہ ہے جو کہ ہم ایک دوسرے سے بات چیت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اگر اس طرح سے دیکھا جائے تو پھر بولی انسانوں تک ہی محدود ہے۔ کیا یہ دلچسپ نہیں ہو گا اگر ہم یہ جان سکیں کہ کیا درخت بھی ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں؟ لیکن کیسے؟ یہ آواز تو نہیں پیدا کرتے تو ہم سن کچھ نہیں سکتے۔ شاخیں چرچراتی ہیں اور پتے سرسراتے ہیں۔ لیکن ان آوازوں پر درخت کا کنٹرول نہیں۔ ان کے آپس میں رابطہ کرنے کا طریقہ الگ ہی ہے۔ یہ خوشبو استعمال کرتے ہیں؟
خوشبو سے رابطہ؟ یہ تصور ہمارے لئے اجنبی نہیں۔ ورنہ عطر، ڈیوڈرنٹ، پرفیوم کی اتنی قدیم اور بڑی صنعت نہ ہوتی۔ اور جب ہم ان مصنوعات کو نہ بھی استعمال کر رہے ہوں تو ہماری اپنی بو دوسروں کو غیرشعوری طور پر پیغام دیتی ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پسند کا شریک حیات چننے میں پسینے میں فیرومون سے کشش اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تو ہماری اپنی بھی خوشبو کی خفیہ بولی ہے اور درخت بھی یہ بولی رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے چالیس سال پہلے، سائنسدانوں نے افریقہ کے میدانوں میں کچھ نوٹ کرنا شروع کیا۔ زرافے کانٹوں والے ببول کے درختوں کے پتے کھاتے ہیں اور درختوں کو یہ ذرا بھی پسند نہیں۔ درخت ان سے نجات پانے کے لئے چند منٹ میں پتوں میں زہریلے کیمیکل پمپ کرنے لگتے ہیں۔ زرافے کو پیغام مل جاتا ہے اور یہ اس درخت کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن یہ پڑوس والے درختوں سے آگے جا کر کھانا ددوبارہ شروع کرتے ہیں اور یہ تقریباً سو گز کا فاصلہ ہوتا ہے۔
اس کی وجہ حیران کن ہے۔ ببول کے درخت خبردار کرنے والی گیس (ایتھیلین) کا اخراج بھی کرتے ہیں تا کہ اپنی نوع والے پڑوسی کو پیغام دے سکیں کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ جن تک یہ سگنل پہنچتا ہے، وہ یہ کیمیکل پہلے ہی پتوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ زرافوں کو اس امر کا علم ہے اور اس لئے اتنا دور چلے جاتے ہیں کہ ان درختوں تک پہنچ جائیں جنہیں ابھی خبر نہیں ہوئی۔ یا پھر یہ اس رخ جاتے ہیں جو ہوا کے مخالف ہو۔ چونکہ پیغام ہوا کے جھونکوں پر پہنچتا ہے تو یہ ہوا کے مخالف سمت کے درخت تک نہیں پہنچا ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ صرف ان درختوں تک محدود نہیں۔ جب بلوط، صنوبر یا شفتالو کے درخت بھی اسی طرح تکلیف کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر کنکھجورا پتوں سے بڑا لقمہ لے جائیں تو نقصان پہنچ جانے والے جگہ کے گرد ٹشو تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ برقی سگنل بھیجتا ہے، ویسے ہی جیسے انسانی ٹشو زخمی ہونے پر سگنل بھیجتا ہے۔
انسانی سگنل چند ملی سیکنڈ میں پورے جسم کا سفر کر لیتا ہے لیکن درخت میں اس کی رفتار صرف ایک انچ فی منٹ ہے۔ دفاعی کیمیکلز کو فعال ہونے میں گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ اور یہ اس کیڑے کا کھانا خراب کر دیتے ہیں۔
درختوں کی زندگی سست رفتار ہے۔ خطرے کی صورت میں بھی۔ لیکن سست رفتار ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ درخت اپنے ماحول سے بے بہرہ ہیں۔ یہ اپنے سٹرکچر سے آگاہی رکھتے ہیں۔ اگر جڑ مشکل کا شکار ہو تو یہ اطلاع تمام درخت میں نشر ہوتی ہے۔ اور پتے بو والے کیمیکل خارج کرتے ہیں۔ اور یہ خاص وہ کیمیکل ہوتے ہیں جو متعلقہ خطرے کے مطابق ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درختوں کے لیے رابطوں کے کئی اور طریقے ہیں۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں