باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 21 اپریل، 2024

ہوا (10) ۔ جرم کا ساتھی


ہوا کی ایک اہم گیس آکسیجن ہے۔ آج سے دو ارب سال قبل یہ فضا میں اکٹھی ہونا شروع ہوئی۔ آکسیجن ایک فسادی گیس ہے۔ یہ کئی طرح کے کیمیکل ری ایکشن شروع کر سکتی ہے جو اس کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ ان میں سے ایک ری ایکشن جلنے کا ہے۔ اور یہ وہ بات تھی جس نے جرمنی کے ایک مجرم کو ایک جراتمندانہ خیال دیا۔
سائنس کو استعمال کرتے ہوئے نقب زنی کرنے والے اس شخص نے 1890 کو ایک ہوٹل میں سمتھ کے نام سے کمرہ لیا۔ فرمائش ایک خاص کمرے کی تھی۔ اور پھر اس کے ساتھ والے دونوں کمرے بھی لے لئے۔ اس کمرے کے نیچے بینک تھا۔
چند روز بعد کرسمس تھی۔ کرسمس والے دن بہت صبح، سمتھ نے اپنے سامان سے چھتری اور آری نکالی اور فرش پر چھوٹا سا سوراخ کر لیا۔ اس میں چھتری کو داخل کیا کہ ملبہ اس میں پکڑا جائے اور پھر سوراخ کو بڑا کر لیا۔ سامان سے رسی نکالی اور کاندھے پر تھیلا لٹکائے نیچے اتر گئے۔
بینک میں ستر لاکھ ڈیوش مارک تھے۔ بینک نے اس کی حفاظت کے لئے الیکٹرانک سیکورٹی سسٹم لگایا تھا۔ والٹ تہہ خانے میں تھا جہاں چکر کھاتی سیڑھی سے جایا جا سکتا تھا۔ اس سیڑھی پر اگر کوئی پریشر آ جاتا (جیسے کسی کے قدم) تو الارم بج جانا تھا۔
سمتھ نے اپنے الیکٹرونکس کے علم کی مدد سے اسے ناکارہ بنایا اور نیچے اتر گئے۔
اب سائنس کی باری تھی۔ سمتھ نے آکسیجن کے چند کنستر اپنے تھیلے سے نکالے۔ ایک اور اوزار نکالا جو ڈیڑھ فٹ لمبے اور آدھ انچ قطر کے دو سلنڈرز پر مشتمل تھا اور دونوں کے آگے ربڑ کی ٹیوب لگی تھی۔ ایک کو بینک کی گیس کی سپلائی سے لگایا جہاں سے میتھین آ رہی تھی۔ دوسرے کو آکسیجن کے کنستر سے لگایا۔ اور تھیلے سے ماچس کی ڈبی نکالی۔ اب ان کے پاس وہ ٹارچ تھی جس سے کاٹا جا سکتا تھا اور توجہ لوہے کے والٹ کی طرف کر لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جرم کی بنیاد اس سے پہلے کی دہائیوں کے کئی کیمسٹ نادانستہ طور پر رکھ چکے تھے۔ وہ اس بات کی وضاحت کر چکے تھے کہ جلنے کا عمل کیوں اور کیسے ہوتا ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ یہ دریافت کر چکے تھے کہ اس کے لئے ایندھن، توانائی اور آکسیڈائزر کی ضرورت ہے۔ آکسیڈائزر اشیا سے الیکٹران چرا لیتا ہے۔ یہ اہم اس لئے ہے کہ الیکٹران ہر کیمیائی ری ایکشن کو چلاتے ہیں۔ آکسیجن اس کام میں بہترین ہے۔ جب یہ میتھین کے ساتھ کیا جاتا ہے تو میتھین غیرمستحکم ہو جاتی ہے۔ یہ دونوں ملکر فٹافٹ ری ایکشن کی لڑی شروع کر دیتے ہیں جس سے آکسائیڈ بنتے ہیں۔ اس ری ایکشن کو شروع کرنے کے لئے ابتدائی توانائی ماچس جلانے سے آ جاتی ہے۔ اور ایک بار آکسیجن کا حملہ شروع ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ حرارت آزاد ہونے لگتی ہے اور یہ عمل جاری رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمتھ کو اسے ایک قدر آگے لے کر جانا تھا۔ میتھین کا شعلہ تو جل پڑا تھا۔ انہیں لوہے کے والٹ کو کاٹنا تھا۔
لاوسیے نے 1776 میں لوہے کی دلچسپ خاصیت دریافت کی تھی۔ تمام دھاتیں کسی درجہ حرارت پر پگھل جاتی ہیں۔ اور اس سے زیادہ کسی درجہ حرارت پر جل جاتی ہیں۔ (جلنے کا مطلب یہ کہ دھات ایندھن کے طور پر استعمال ہو رہی ہے)۔ زیادہ تر دھاتوں میں جلنے کا درجہ حرارت پگھلنے سے زیادہ کا ہوتا ہے لیکن لوہے میں یہ الٹ ہے۔ اور اس کا ایک غیرمتوقع نتیجہ ہے۔ یہ ۱۰۰۰ ڈگری سینٹی گریڈ پر جل جاتا ہے جبکہ ۱۵۰۰ ڈگری پر پگھلتا ہے۔ اگر اس کے ایک حصے کو ۱۰۰۰ سے اوپر لے جایا جائے تو اس سے خارج ہونے والی حرارت آپس پاس کے ہونے کو ۱۵۰۰ ڈگری سے اوپر لے جائے گی اور اسے پگھلا دے گی۔ یعنی اس چین ری ایکشن کی وجہ سے “مفت” کے ہزار ڈگری مل جائیں گے۔ تھوڑا سا جلانے سے بہت سارا پگھل جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ ری ایکشن تھا جس سے یہ ٹارچ کٹر ایجاد ہوا تھا جو تھامس فلیچر نے 1888 میں کیا تھا۔ انہوں نے اس کا مظاہرہ ایک تجارتی نمائش میں کیا تھا۔ اس سے فروخت کرنے میں کوئی کامیابی نہیں ملی تھی لیکن سمتھ کو اس کی بھنک پڑ گئی تھی۔ اور وہ اس کو استعمال کرنے آکسیجن کے تین کنستر لے کر تہہ خانے میں اترے تھے۔
رات ڈیڑھ بجے تک آکسیجن کا تیسرا کنستر استعمال ہو چکا تھا اور دھات کی اتنی بڑی مستطیل کٹ گئی کہ وہ اندر جا سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمتھ توقع کر رہے تھے کہ ان کی انگلیاں کرنسی نوٹوں کی نرمی سے ٹکرائیں گی لیکن ان کی ملاقات سرد اور سخت دھات سے ہوئی۔ والٹ میں لوہے کی دو تہیں تھیں!!
سمتھ واپس رسی پر چڑھ کر کمرے میں پہنچے۔ رات دو بجے سامان لے کر ہوٹل سے نکل گئے۔ انہیں پھر کبھی نہیں دیکھا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ناکام جرم میں سمتھ کا ساتھی آکسیجن تھی۔ یہ اربوں سال سے زمین پر قسم قسم کے ری ایکشن کرتی آ رہی ہے۔ فضا میں بھی اور جانداروں کے جسموں میں بھی۔ اور اس نے زمین پر انقلاب برپا کیا ہے۔
(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں