سرخ ہرن کا اپنا ہی طریقہ ہے۔ خارپشت کی طرح یہ بھی اپنا درجہ حرارت بہت گرا لیتے ہیں۔ اور یہ ایسا دن میں کئی بار کرتے ہیں۔ یعنی کہ ان کی hibernation چند گھنٹے ہی رہتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے یہ توانائی کا خرچ کم کر لیتے ہیں۔ اس حالت میں ان کا توانائی کا خرچ گرمی کے مقابلے میں ساٹھ فیصد کم ہو جاتا ہے۔
لیکن ایک اور مسئلہ ہے۔ سرخ ہرن کو کھانا ہضم کرنے کے لئے میٹابولزم زیادہ کرنا ہے۔ اور سردیوں بغیر توانائی کے تو نہیں گزر سکتیں۔ اس طرح مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ خوراک سے اتنی غذائیت اخذ نہیں کر پاتا۔ اس لئے یہ زیادہ سے زیادہ اپنی چربی پر گزارنا کرتا ہے۔
اور یہاں پر ہمیں بھوک کے احساس کے بارے میں بصیرت ملتی ہے۔
کیا سرخ ہرن پوری سردیوں بھوک محسوس کرتا رہتا ہو گا؟ اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جانور بھوک کے احساس کو بند کر سکتے ہیں۔ بھوک کا احساس لاشعوری سگنل ہے جو کہ ہمیں بتاتا ہے کہ کھانے کا وقت ہو گیا۔ اور ایسا صرف اس وقت ہونا چاہیے اگر اضافی کیلوری درکار ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ سرخ ہرن کو خوراک کی اشتہا نہیں ہوتی۔
اپنے میٹابولزم کی رفتار کم کر کے اور درجہ حرارت کو گرا کر یہ توانائی کی ضرورت کو گرا لیتا ہے لیکن یہ ہر ہرن کے لئے مختلف ہے۔ اگر کوئی ریوڑ کا لیڈر ہے تو اسے چوکس رہنا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی توانائی کا خرچ زیادہ ہے۔ دل کی دھڑکن تیز ہے۔ اور اس کے لئے سردی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔ کم درجہ کے ہرنوں کے مقابلے میں اسے بہتر خوراک میسر ہوتی ہے لیکن ان کو چوکس نہ رہنے کی وجہ سے خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ ویانا کے ماہرینِ جنگلات نے یہ حیرت انگیز دریافت کی تھی کہ ہرنوں میں لیڈر کے زندہ رہ جانے کے امکانات کم ہوتے ہیں اگرچہ کہ خوراک کے معاملے میں انہیں ترجیح ملتی ہے۔ ویانا کے محققین کے مطابق “ہمیں جانوروں کی سٹڈی کے وقت پوری نوع کو ایک جیسا تصور کر لینے کے بجائے انفرادی جانوروں کی شخصیات کو بھی دیکھنا چاہیے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہمارے جسم کا درجہ حرارت 34 ڈگری سے گر جائے تو پھر یہ خطرناک ہے۔ اس سے پہلے ہی جسم کانپنا شروع کر دے گا۔ تا کہ درجہ حرارت اوپر کرنے کے لئے کچھ کیا جا سکے۔ گھوڑوں کے لئے بھی ایسا ہی ہے۔ اور کچھ گھوڑے زیادہ کانپتے ہیں۔ ان کے لئے سردی ناگوار احساس ہو گا۔
لیکن کیڑوں کے بارے میں کیا ہے؟ ان کے جسم کا درجہ حرارت فضائی درجہ حرارت کے ساتھ اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے کیونکہ ان کے پاس درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لئے کچھ نہیں۔ سردیوں میں کیڑے زمین کے نیچے یا درخت کی چھال میں خود کو دفن کر لیتے ہیں تا کہ یہ جم نہ جائیں۔ اور انہوں نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان کے خلیات کے اندر برف نہ جم جائے۔ کیونکہ ایسا ہوا تو خلیہ پھٹ جائے گا۔ اس کی حفاظت کے لئے یہ ایک چیز سٹور کرتے ہیں جو کہ گلیسرین ہے۔ یہ برف کے کرسٹل بننے سے روکتی ہے۔ لیکن سوال یہ کہ ان کے لئے احساس کیا ہو گا۔ کیا انہیں سردی لگتی ہو گی؟ جب مینڈک برفیلے پانی کے تالاب میں پھدکتے ہیں اور پھر اس کی تہہ کے نیچے کیچڑ میں خود کو چھپا کر اونگھنے لگتے ہیں تو ایسا لگتا نہیں کہ ان کو سردی کا ناگوار احساس ہوتا ہو گا۔ ہمیں سرد پانی اس لئے ناگوار لگتا ہے کہ یہ جسم کی حرارت چھین لیتا ہے۔ لیکن اگر آپ کے جسم کا درجہ حرارت اتنا ہی ہے جتنا پانی کا تو پھر یہ احساس غالباً نہیں ہو گا۔ اس وجہ سے مینڈک آرام سے اس تالاب میں چھلانگ لگا کر اس کی تہہ میں اونگھنے لگتے ہیں۔
لیکن اگر کیڑوں، چھپکلیوں یا سانپوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ سخت سردی کی تکلیف کیا ہے تو پھر کیا انہیں خوشگوار موسم کے لطف کا بھی معلوم نہیں۔ غالباً، انہیں اس کا علم ہے۔ بہار میں یہ مخلوقات دھوپ والے مقامات کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ جس قدر جلد ان کا جسم گرم ہو جائے، یہ اتنی ہی چستی سے حرکت کر سکتے ہیں۔ اس لئے گرم ہونے میں مثبت احساس ہو سکتا ہے۔ اور کئی بار یہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ سڑک دھوپ میں جلد گرم ہو جاتی ہے۔ اسفالٹ حرارت کو ذخیرہ کرتا ہے اور اس کو خارج کرتا ہے۔ رات کو بھی یہ دیر تک گرم رہتی ہے۔ اس حرارت کی تلاش میں آنے والا کیچوا گاڑی کے نیچے کچلے جانے کے خطرے کا شکار ہو جاتا ہے۔
بہرحال، یہ واضح ہے کہ سرد خون کے جانوروں کو درجہ حرارت کا احساس تو ہے۔ لیکن ان کے لئے یہ احساس غالباً ہمارے احساس سے بہت مختلف ہو گا۔
(جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں