اگر جانوروں کے دماغ کی ساخت ہم سے مختلف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شاید چیزوں کا تجربہ مختلف طریقے سے کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جانوروں میں جذبات فطری ناممکن ہیں۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے یہ تصور کرنا زیادہ مشکل ہے کہ وہ جذبات کو محسوس کیسے کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر، فروٹ فلائی کو لیں، جس کا مرکزی اعصابی نظام 250,000 خلیوں پر مشتمل ہے، جو ہمارے دماغ کے چار لاکھویں حصے کے برابر ہے۔ کیا اس طرح کی چھوٹی مخلوق اتنی محدود صلاحیت کے ساتھ واقعی کچھ محسوس کر سکتی ہے؟ کیا ان کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان میں شعور ہے؟ بدقسمتی سے، سائنس ابھی تک اس سوال کا جواب دینے کے قابل نہیں ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس شعور کی غیرمبہم تعریف نہیں۔
شعور کی ایک تعریف میں ان چیزوں کے بارے میں سوچنا اور غور کرنا شامل ہے جن کا ہم نے تجربہ کیا ہے یا جن کے بارے میں پڑھا ہے۔ ابھی، آپ اس کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو آپ پڑھ رہے ہیں، اور اس لیے آپ شعور رکھتے ہیں۔ ایک بہت بنیادی سطح پر، شعور کے لیے ضروری حالات فروٹ فلائی میں دریافت کیے گئے ہیں۔ مکھیاں مسلسل بیرونی دنیا سے محرکات کی زد میں رہتی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ہم ہیں۔ گلاب کی خوشبو، کار کا دھواں، سورج کی روشنی، ہوا کا جھونکا—سبھی مختلف اعصابی خلیوں کے ذریعے رجسٹر ہوتے ہیں۔ تو ایک مکھی انفارمیشن کے اس سیلاب سے سب سے اہم چیز کو کیسے فلٹر کرتی ہے تاکہ وہ خطرے سے دور رہ سکے اور خاص طور پر لذیذ خوراک سے محروم نہ ہو؟ اس کا دماغ معلومات پر کام کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مختلف علاقے اپنی سرگرمیوں کو مربوط کریں، کچھ جانب زیادہ توجہ دیں۔ اور اس طرح دلچسپی کی چیز ہزاروں دیگر تاثرات کے عام شور سے نمایاں ہوتی ہے۔ اس لیے مکھیاں مخصوص چیزوں پر اپنی توجہ مرکوز کر سکتی ہیں—بالکل اسی طرح جیسے ہم کر سکتے ہیں۔
فروٹ فلائی کی آنکھیں تقریباً چھ سو انفرادی پہلوؤں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ چھوٹے کیڑے اتنی تیزی سے ادھر ادھر اڑتے ہیں، اس لیے ان کی آنکھیں فی سیکنڈ میں بڑی تعداد میں تصاویر بنتی ہیں۔ یہ پروسیس کرنے کے لیے ڈیٹا کی ایک ناممکن حد تک بڑی مقدار معلوم ہوتی ہے، لیکن بقا کے لیے مکھیوں کو یہ کرنا ہی ہے۔ کوئی بھی حرکت کرنے والی چیز ایک بھوکے شکاری سے متعلق ہو سکتی ہے۔ لہذا، فروٹ فلائی کا دماغ تمام جامد تصاویر کو دھندلا چھوڑ دیتا ہے اور خصوصی طور پر حرکت کرنے والی اشیاء پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلٹر کا طریقہ ہے ۔۔ ایک ایسی صلاحیت جس کی آپ کو یقینی طور پر ان چھوٹی مکھیوں سے توقع نہیں ہوگی۔
اور ویسے، ہم بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ہمارا دماغ ان تمام تصاویر کو ہمارے شعور تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا جو ہم دیکھتے ہیں۔ یہ صرف اہم تصاویر کو ہی گزرنے دیتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مکھیوں میں شعور ہے؟ محققین ابھی یہ دعویٰ نہیں کریں گے؛ تاہم، یہ واضح ہے کہ مکھیاں کم از کم اپنی توجہ ان چیزوں پر فعال طور پر مرکوز کر سکتی ہیں جو ان کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم انواع کے درمیان دماغی ساخت میں تغیرات کی طرف واپس آتے ہیں۔ بنیادی عضو یقیناً نچلے فقاری جانوروں میں بھی موجود ہے، لیکن انسانوں جیسے احساسات کے معیار کے لیے، مزید کی ضرورت ہے۔ آپ بار بار پڑھتے ہیں کہ جن گہرے جذبات سے کوئی فرد شعوری طور پر آگاہ ہوتا ہے وہ صرف ہمارے جیسے مرکزی اعصابی نظام سے ہی ممکن ہیں۔ زور الفاظ "شعوری طور پر آگاہ" پر ہے۔ ایک خیال کے مطابق ہمارے دماغ کی بیرونی تہہ، نیوکورٹیکس خود آگاہی اور شعور کی جگہ ہے، اور انسانی دماغ میں کسی دوسری نوع کے مقابلے میں ان خلیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ تمام دوسری مخلوقات ہمارے جیسا جذبات کا مجموعہ نہیں رکھ سکتیں۔ لیکن کیا یہ درست ہے؟
سرخ چمکدار لوبسٹر ایک بہت مہنگی ڈش ہے۔ اور اسے زندہ ابالا جاتا ہے۔ باقی جانوروں کے برعکس، اس بات کو قابل قبول سمجھا جاتا ہے کہ زندہ لوبسٹر کو اپنی تمام حسیات سمیت ابلتے پانی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ کئی منٹ لگتے ہیں جس میں پہلے اس کے نازک اعصابی ریسپٹر پہلے تباہ ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ باقی اعضاء۔ اگر یہ درد محسوس نہیں کر سکتے تو پھر ایسا کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟ یہ اپنی حرکات سے ایسا تو بتاتے ہیں کہ یہ ابالے جانے کے دوران بہت تکلیف میں ہیں، لیکن کیا یہ واقعی درد محسوس کرتے ہیں؟ کئی سائنسدان اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ کہ محض غیرشعوری اور اضطراری حرکات ہیں۔ اور یہ اخلاقی مخمصے کو جنم دیتا ہے۔
پروفیسر رابرٹ ایلوڈ روایتی سوچ سے اختلاف کرتے ہیں۔ "یہ انکار کرنا کہ کیکڑے درد محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کی حیاتیات ہمارے جیسی نہیں ہے ایسا ہی ہے جیسے اس بات سے انکار کیا جائے کہ وہ دیکھ سکتے ہیں کیونکہ ان میں بصری کورٹیکس نہیں ہے (دماغ کا وہ حصہ جو انسانوں میں بصارت کے لیے ذمہ دار ہے) اس کے علاوہ، درد اضطراری اعمال کا ایک حصہ ہے، جیسا کہ آپ خود آسانی سے جانچ سکتے ہیں اگر قریب ہی کوئی بجلی کی باڑ موجود ہو۔ اگر آپ اپنا ہاتھ اس پر رکھتے ہیں اور آپ کو بجلی کا جھٹکا لگتا ہے، تو آپ کے ہاتھ فوری طور پر پیچھے ہٹیں گے، چاہے آپ ایسا کرنا چاہتے ہوں یا نہیں؟ یہ آپ کی طرف سے خالص اضطراب ہے، کچھ ایسا جو آپ کسی سوچ کے بغیر کرتے ہیں، لیکن اس سے بجلی کا جھٹکا کسی بھی طرح کم تکلیف دہ نہیں ہوتا۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
ہفتہ، 22 مارچ، 2025
حیوانات کی دنیا (9) ۔ ابلتا کیکڑا
Tags
Inner Life of Animals#
Share This
About Wahara Umbakar
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
لیبلز:
Inner Life of Animals
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں