باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 3 ستمبر، 2018

فیلڈز - ایک تعارف


سوئمنگ پول میں ایک شخص چھلانگ لگاتا ہے، اس سے لہریں بن رہی ہیں جو پانی میں سفر کر رہی ہیں۔ اس پول میں اور بھی کئی لوگ تیر رہے ہیں اور ہر حرکت کی وجہ سے پانی متلاطم ہے۔ یہ لہریں پانی میں موجود وہ سگنل ہیں جو یہ پتا دے رہے ہیں کہ سوئمنگ پول میں کیا ہو رہا ہے۔ سوئمنگ پول کے ایک کونے پر بیٹھا ایک عقلمند کیڑا جس تک یہ لہریں پہنچ رہی ہیں، اس سگنل کی خاصیت کا تجزیہ کر یہ بتا سکے گا کہ کب کسی نے چھلانگ لگائی اور کس سمت میں کوئی کیسے تیر رہا ہے۔
کسی چیز کو دیکھنا درحقیقت ایسا ہی عمل ہے۔ جسے ہم روشنی کہتے ہیں، وہ تین ڈائمنشن پر بننے والی ویسی ہی لہریں ہیں۔ ہمارے پاس ایک انچ کے آٹھویں حصے کے سائز کا ایک آلہ ہے جسے ہم آنکھ کہتے ہیں۔ یہ لہریں اس سے ٹکرا رہی ہیں اور ہم ان کی مدد سے پتا لگا رہے ہیں کہ ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے اور یہ اس قدر مزیدار ہے کہ جب آپ اپنے سامنے دیکھ رہے ہوں، اسی وقت اسی کمرے میں کوئی اور شخص کسی اور سمت بھی دیکھ رہا ہے گویا یہ تلاطم ہر وقت اور ہر سمت میں برپا ہے۔ یہ ہلتی ہوئی چیز الیکٹرک فیلڈ ہے اور اس قدر پیچیدہ ارتعاش اس خوبصورتی کے ساتھ ہے کہ آپ بغیر کسی مسئلے کے اپنے سامنے بھی دیکھ رہے ہیں اور آپ کے دائیں طرف کھڑا شخص اسی وقت اپنے سامنے۔ الیکٹرک فیلڈ میں ہونے والے اس ہنگامے کا مطلب یہ ہے کہ یہ روشنی ادھر ادھر ٹکراتی اور اچھلتی پھر رہی ہے خواہ کوئی اسے دیکھے یا نہیں۔ اس تمام ہنگامے کا مطلب ہم اپنے ڈیکٹکٹر کی مدد سے فورا نکال لیتے ہیں۔
اب اس سے بھی زیادہ دلچسپ چیز کی طرف چلتے ہیں۔ جب ہم پانی کو دیکھیں تو بننے والی ہر لہر کی خاصیت میں کچھ فرق ہے، کچھ لہریں جلدی اپنے آپ کو دہرا رہی ہیں اور کچھ ذرا آرام سے۔ اسی طرح اس الیکٹرک فیلڈ میں بھی فرق فریکوئنسی پر چلنے والی بہت سی لہریں ہیں۔ ہمارا قدرتی ڈیٹکیٹر صرف ایک رینج کی لہروں کا پتہ لگا سکتا ہے۔ جب ان کی ویولینتھ ایک انچ کے ایک لاکھویں حصے سے بڑھ جائے تو ہماری آنکھ کی پہنج سے باہر ہو جاتی ہیں۔ یہ انفراریڈ ویوز کہلاتی ہیں جسے ہم حرارت کی صورت میں محسوس کرتے ہیں۔ صحرائی سانپ کی آنکھ ان کو دیکھ سکتی ہے اور وہ چوہے کے جسم کی گرمی کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر اس کا شکار کر لیتے ہیں۔ اب ان کی ویولینتھ بڑھاتے جائیں اور تو ہم ریڈیو ویوز پر پہنچ جائیں گے۔ سینکڑوں میل دور کے ریڈیو سٹیشن سے نشر کئے گئے سگنل بھی اسی فیلڈ کی لہریں ہیں۔ اس وقت اڑتا ہوا ایک جہاز ریڈار سے اپنی جگہ کا تعین کر رہا ہے، وہ بھی اسی فیلڈ کا ارتعاش ہے جو آپ کے کمرے کے فیلڈ پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایکس ریز، کاسمک ریز بھی بالکل مختلف نہیں، سوائے اپنی ویولینتھ کے ان سب میں کوئی بھی فرق نہیں۔
یہ متلاطم الیکٹرک فیلڈ آپ کے ہر طرف ہے اور اس پر ہونے والا ارتعاش قسم قسم کی معلومات لئے ہوئے ہے اور یہ کوئی ریاضی کا فارمولا نہیں یا جادوئی شے نہیں، ایک حقیقی چیز ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو ابھی ریڈیو چلائیں، یہی فیلڈ اس ریڈیو کے اینٹینا میں الیکٹرانز کو حرکت دے گا اور آپ ریڈیو دہلی پر چلتا گانا سن لیں گے۔ یہ گانا آپ کے ارد گرد پہلے بھی موجود تھا، ریڈیو کی 'آنکھ' نےاسے دیکھ لیا۔
یہ سب کچھ وہ ہے جسے سائنس کی کتابوں میں ہر ایک نے پڑھا ہوتا ہے مگر رکیں، سوچیں اور لطف اٹھائیں اپنے آس پاس پھیلی اس خوبصورت پیچیدگی کا۔ یہ الیکٹرک فیلڈ ان بہت سے فیلڈز میں سے ایک ہے جو ہر وقت ہر جگہ موجود ہیں۔ ان سب پر ہونے والا ارتعاش ان فیلڈز کی معلومات ہے اور اس سب معلومات کے مجموعے کو ہم کائنات کہتے ہیں۔

1 تبصرہ:

  1. سر وہارا امباکر کا ہر مضمون بے مثال اور علم بے نظیر نمونہ ہوتا ہے ۔ مجھے بہت حیرت ہوتی ہے ان کو ابھی تک پاکستانی میڈیا میں ہائی لائٹ کیوں نہیں کیا گیا۔ مشکل سے مشکل سوال کو بھی آسانی سے حل کر دیتے ہیں ۔ اللہ ان کو اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔امت مسلمہ اور پاکستان کو ان جیسے لوگوں کی بہت ضرورت ہے

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں