برطانیہ کی بندرگاہ سے دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز اپنے پہلے سفر کے لئے امریکہ کی طرف روانہ ہوا۔ 15 اپریل 1912 کی رات آئس برگ سے تصادم ہوا۔ اس سے تین گھنٹے بعد یہ جہاز مکمل طور پر سمندر میں غرق ہو چکا تھا۔ وائرلیس آپریٹر جیک فیلپس اس دوران مسلسل مدد کے پیغامات بھجواتے رہے۔ 1517 لوگوں کے لئے یہ ان کی زندگی کا آخری سفر تھا لیکن 706 لوگوں کو آر ایم ایس کارپینتھیا کی بروقت آمد نے بچا لیا۔ اس پوری کہانی پر بہت سے کہانیاں، فلمیں، مضامین، سائنس اور سیاست کے سبق موجود ہیں لیکن ابھی بات صرف مواصلات کے حوالے سے۔

ٹیلی گرافی کے اس نظام سے قبل بحری جہازوں کے ایک دوسرے سے رابطے کا ذریعہ اونچی آواز اور فلئیر چھوڑنے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔ اگر یہ جہاز بیس برس پہلے ڈوبتا تو شاید ایک ہفتے تک کسی کو اس حادثے کی خبر بھی نہ ہوتی۔ اس مواصلاتی نظام کے بغیر 706 لوگوں کا بچنا ناممکن تھا۔

ٹائی ٹینک کی کہانی کے اپنے اندر بہت سی انسانی کہانیاں ہیں۔ اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کو بچانے والی، بہادری کی، خود غرضی کی، مرنے والوں کے غم کی یا پھر ان سینکڑوں بچ جانے والوں کی جن میں سے سات نے اکیسویں صدی بھی دیکھی لیکن مواصلات کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانوں کو آپس میں جوڑنے کے ذرائع ہماری ان انسانی کہانیوں میں کس قدر اہم کردار رکھتے ہیں۔
الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ پر پہلے کی گئی پوسٹ
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/908655729302964/
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/908655729302964/
ٹائی ٹینک کے مکمل پیغامات
https://www.theatlantic.com/…/the-technology-that-a…/255848
https://www.theatlantic.com/…/the-technology-that-a…/255848
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں