باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 25 ستمبر، 2018

عہدِ انسانی - اینتھروپوسین



انسان ہمیشہ سے ماحول کو بدلتا آیا ہے۔ جنگل اور چراگاہوں کو جلانا، جانوروں اور پودوں کو اپنے لئے سدھانا، شکار کر کے جانوروں کی انواع کو ہی مٹا دینا، زمین کھود کر مٹی سے گھر اور پھر بستیاں بسانا، لیکن جو تبدیلیاں حالیہ دہائیوں میں ہونا شروع ہوئی ہیں، وہ اتنی بڑی ہیں کہ اس نے دنیا کو اس قدر بدل دیا ہے جو اربوں سال میں نہیں ہوا۔ ہمارا اثر صرف مقامی علاقے تک محدود نہیں۔ یہ عالمی سطح پر ہے اور اتنا زیادہ کہ اس سے دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے جسے ماہرینِ ارضیات اینتھروپوسین کا نام دے رہے ہیں یعنی عہدِ انسانی۔ اگر آج سے کئی ملین سال بعد کوئی پتھروں کو کاٹے گا تو اس عہد کی انگلیوں کے نشان واضح ہوں گے جیسے ڈائنوسار کے قدموں کے نشان ہمیں جراسک ایج کا بتاتے ہیں یا کیمبرین دھماکے کا پتہ ملتا ہے۔ ہماری تبدیلیاں سمندروں کی کیمسٹری میں نظر آئیں گی، مٹتے جنگلات میں، بڑھتے صحراؤں میں، دریاؤں کے آگے بند باندھنے کی شکل میں، پیچھے ہٹتے گلیشئرز میں۔ فوسل ریکارڈ میں بڑے پیمارے پر انواع کا مٹنا نمایاں ہو گا، شاید چھٹی عظیم معدومیت کی شکل میں۔ بہت سے گھریلو جانور نظر آئیں گے۔ مصنوعی میٹیریل کے نشان ملیں گے جیسا کہ مشروبات کے ڈبے، پلاسٹک کے بیگ۔ بڑے پراجیکٹس کے نشان جیسا کہ کینیڈا کے شمال مشرق کی صرف ایک کان ہر سال اتنی مٹی کو ایک جگہ سے ہٹاتی ہے جو پوری دنیا کے دریاؤں کی ہلائی جانے والی مٹی سے دُگنا ہے۔ زمین اب انسانوں کا سیارہ ہے۔ ہم طے کرتے ہیں کہ یہاں جنگل رہے گا کہ نہیں۔ پانڈا بچیں گے یا ختم ہو جائیں گے۔ دریا کہاں سے بہے گا۔ یہاں تک کہ سیارے کا درجہ حرارت بھی۔ اس سیارے پر سب سے زیادہ بسنے والی نوع اب ہم ہیں۔ اس کے بعد ہمارے بعد وہ جانور جو مصنوعی بریڈنگ کا نتیجہ ہیں۔ خشکی کا چالیس فیصد اب ہماری خوراک کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ تین چوتھائی میٹھا پانی اب ہمارے قابو میں ہے۔ اس غیرمعمولی دور میں ہمارے وجہ سے ٹراپکس سے ساحلی مرجان غائب ہو رہے ہیں۔ قطبین سے گلیشئر پگھل رہے ہیں۔ سمندر مچھلیوں سے خالی ہو رہے ہیں۔ بڑھتے سمندر جزیروں کو نگل رہے ہیں۔ آرکٹک میں پگھلتی برف کی وجہ سے نئے جزیرے نمودار ہو رہے ہیں۔ اس سیارے کو کوئی بھی ایسا حصہ نہیں جہاں انسانی اثر نہیں۔ ہم نے قدرتی سائیکل تبدیل کر دئے ہیں۔ سیارے کے فزیکل، کیمیائی اور بائیولوجیکل پراسس بدل دئے ہیں۔ ہمارے پاس انتخاب ہے کہ اس سیارے کو کتنا مزید گرم یا سرد کریں گے۔ ہم انواع کو مٹا سکتے ہیں۔ نئی انواع انجینئر کر سکتے ہیں۔ ہم نے اپنے غلام روبوٹ کی صورت میں ایجاد کر لئے ہیں۔ اپنے ذہن کی حد سے آگے بڑھ کر کام کرنے کے لئے کمپیوٹر بنا لئے ہیں۔ اپنے اردگرد نیٹ ورکس کا ایکوسسٹم کھڑا کر لیا ہے جس کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کر سکیں۔ ہم نے خود اپنی بائیولوجی اور ارتقائی راستے کو میڈیکل سائنس کے ذریعے بدل دیا ہے۔ جو بچے پیدائش پر ہی مر جایا کرتے تھے، ان کو بچا لیتے ہیں۔ دوسری انواع کے برعکس اپنے لئے مصنوعی ماحول بنا لیتے ہیں۔ توانائی کے بیرونی ذرائع سے اپنے لئے آرام دہ ماحول پیدا کر لیتے ہیں۔ بغیر پروں کے اُڑ لیتے ہیں۔ بغیر گلپھڑوں کے سمندر کی گہرائی میں چلے جاتے ہیں۔ اپنی تجارت کے لئے برِاعظم کاٹ دیتے ہیں۔ ہزاروں میل دور اگی خوراک استعمال کر لیتے ہیں۔ کئی مہلک بیماریوں کو ختم کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ اس سیارے سے بھی باہر نکل گئے ہیں۔ چاند پر چل چکے ہیں۔

اس نقطہ نظر کو جاننا اس لئے ضروری ہے کہ بڑی طاقت کا مطلب بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ ایک وقت تھا جب انسان اپنے آپ کو مرکزِ کائنات سمجھتا تھا۔ کاپرنیکس سے شروع ہونے والی دریافتوں نے ہمیں اپنی جگہ کا احساس دلایا۔ ایک غیراہم سی کہکہشاں کے غیراہم ستارے کے گرد گھومتا بس ایک سیارہ۔ ان گنت میں سے بس ایک۔ ارضیات اور کائنات کی تاریخ سے پتہ لگا کہ ہم صرف سپیس میں ہی نہیں، ٹائم میں بھی کچھ وقعت نہیں رکھتے۔ انیسویں صدی سے ہونے والی بائیولوجی کی ترقی سے پتہ لگا کہ ہم تو زمین پر رہنے والے جانداروں میں بھی کچھ خاص نہیں۔ زندگی کے بڑے درخت کی بس ایک چھوٹی سی ٹہنی ہیں۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں ہونے والی سائنسی ایڈوانس بتاتے ہیں کہ ہم خاصے نامعقول بھی ہیں، محدود عقل رکھتے ہیں اور زیادہ جانتے بھی نہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہمیں اپنی اوقات کا پتہ لگتا جا رہا ہے، ویسے ویسے ہماری اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔

زندگی کے درخت کی یہ چھوٹی سی ٹہنی اب اس سیارے پر زندگی کے پورے درخت کے مستقبل کے تعین کا سب سے بڑا فیکٹر بن گئی ہے۔ ان سب تبدیلیوں کے اثرات خود ہم پر ہیں۔ ہم نے خود زمین پر ایک مختلف عہد (ہولوسین) میں مطابقت پائی تھی۔ اب ہونے والی تبدیلیاں بہت تیزرفتار ہیں۔ ہم بہت بڑی تعداد میں صحتمند زندگی گزار سکتے ہیں لیکن ہم خود بھی اسی نیچر کا حصہ ہیں۔ اسی سے خوراک لیتے ہیں، پانی لیتے ہیں اور تمام زندگی کے مادے۔ پروٹین کھاتے ہیں۔ خلیوں سے بنے ہیں۔ ہمارا انحصار زمین پر ہے کہ یہ سب کچھ وہیں سے ملے گا۔ بڑھتی آبادی اس سیارے سے ہماری مانگ میں اضافہ کر رہی ہے جس سے سیارے کی ایسا کرنے کی اپنی اہلیت کم ہو رہی ہے۔ اپنے بنائے اس عہد کے نتائج کا ہم کیسے سامنا کریں گے؟ ہم اپنی ضروریات کے لئے ہمیشہ سے ایکوسسٹم بدلتے آئے ہیں۔ اپنے لئے اس سیارے کو بہتر کیا ہے۔ اگلے برفانی دور کو مؤخر کر دیا ہے لیکن بہت سی چیزوں میں خود اپنے لئے خراب کر دیا ہے۔ ان میں سے کچھ پر ہم ٹیکنالوجی کے ذریعے قابو پا سکیں گے۔ مطابقت حاصل کر کے، رہنے کی جگہیں بدل کے۔ کچھ تبدیلیوں کو ہمیں ریورس کرنا ہو گا۔ لیکن کچھ کے ساتھ رہنے کے طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔

سائنس سے شاید ایسا کرنے کی بائیولوجی اور فزکس کا پتہ لگ جائے لیکن کرنا کیا ہے؟ یہ سائنس کا سوال نہیں۔ یہ سوسائٹی کے سوچنے کے سوالات ہیں۔ انسان اب محض ایک اور جاندار نہیں رہا۔ ہم اپنے لئے حقوق کا تصور بنا چکے اور توقع رکھتے ہیں کہ ہونے والی ڈویلپمنٹ سے یہ ہمیں ملیں گے۔ نکاسی آب، بجلی، صاف پانی جیسے حقوق اور ہاں، انٹرنیٹ تک رسائی کے بھی۔ معاشرتی انصاف اور ماحولیات کو بچانے کا آپس میں تعلق ہے۔ لوگ کس طریقے سے غربت سے نکلیں گے، یہ اس انسانی عہد کو شکل دے گا۔ ہمارے سیارے پر ہونے والے اثرات کی وجہ تیزی سے ہونے والی معاشرتی تبدلیاں ہیں جس نے اتنی بڑی آبادی کو بہتر معیارِ زندگی دیا ہے۔ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی اب شہروں میں رہتی ہے جو انسانوں سے بھرے ہوئے مصنوعی ماحول ہیں۔ بڑی فیکٹریاں ہیں جو دنیا کے پانی، توانائی، معدنی ذرائع اور پروٹینز کو خرچ کرتی ہیں۔ ایک وقت میں توانائی کی ضرورت 18 ٹیرا واٹ ہے۔ پانی کی سالانہ ضرورت نوے کھرب کیوبک میٹر ہے۔ انسانیت اب ایک سپرآگنزم ہے۔ ذہانت، تخلیقی صلاحیت اور معاشرتی صلاحیت کی وجہ سے اس آرگنزم کے انفرادی دماغوں کی طاقت جمع ہو جاتی ہے۔ نہ صرف آج کے بلکہ گزرے ہوئے دماغوں کی بھی۔ اور نہ صرف انسانی دماغوں کی بلکہ ہمارے بنائے مصنوعی دماغوں کی طاقت بھی۔ کمپیوٹر، آن لائن لائبریری، وکی پیڈیا جیسے دماغوں کی صورت میں۔

اس عالمی تہذیبی نیٹورک میں علم کے دریاؤں میں نئے سوال ابھرتے ہیں۔ ہمارا کردار، ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ محض اس نیچر کا حصہ۔ دوسری انواع کی زندگی کا طریقہ یہ ہے کہ زندہ رہ کر اپنی تعداد زیادہ سے زیادہ بڑھاتی ہیں، یہاں تک کہ ان کے رہنے کی جگہ کی کیپیسپیٹی ختم ہو جانے کی وجہ سے ان کی آبادی کریش ہو جاتی ہے۔ کیا ہم ان سے مختلف ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ کیا ہم جبلی رجحانات سے آگے سوچ سکتے ہیں؟ کیا ہم باقی انواع اور قدرتی دنیا کے ساتھ اپنے خودغرضی کے تعلق سے آگے بڑھ کر ان کی بھی حفاظت کر سکتے ہیں؟ ہم طاقت کے ساتھ ذمہ داری اٹھانے کے اہل بھی ہوں گے؟

یہ دنیا پیچیدہ ہے۔ اس غیرمعمولی وقت میں ہم خود بہت قسم کے ہیں۔ انسانی عہد ہم میں سے ہر ایک پر مختلف طرح سے اثرانداز ہو رہا ہے۔ ہمارے چیلنج مشترک بھی ہیں اور الگ بھی۔ کہیں پانی ختم ہو جانے کے، کہیں پانی زیادہ ہو جانے کے۔ کہیں اچھوتے حل نظر آتے ہیں۔ تبت میں پہاڑوں پر رنگ کر کے گلیشئر محفوظ کرنے کے، کہیں بڑے نیٹ لگا کر ہوا کی نمی سے پانی لینے کے اور اس طریقے سے جنگل اگانے کے۔ کہیں نئے میٹیریل ڈھونڈنے کے۔ خیال ہے کہ 2050 تک دنیا کی تین چوتھائی آبادی شہروں میں ہو گی۔ قریب ہوتے انسانی دماغ مل کر دنیا کی شکل انسانی عہد میں کیسے تشکیل دیتے ہیں؟ یہ سوال مستقبل کے مؤرخین بتا دیں گے۔ کارل ساگان کے مطابق، "ہم ستاروں کی وہ دھول ہیں جس نے اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں لے لی ہے"۔ اس طاقت کا استعمال ہمارے پر۔ زمین اس کو اپنے پتھروں میں ریکارڈ کر رہی ہے۔

اس کا زیادہ تر مواد مندرجہ ذیل کتاب سے جس نے 2015 میں برطانوی رائل سوسائٹی میں سائنس کی بہترین کتاب کا انعام جیتا تھا۔
 
Adventures in the Anthropocene by Gaia Vince



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں