باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 28 اپریل، 2022

علمی خلا


ہماری تمام تر سائنسی کوششوں کے باوجود خلا باقی ہے۔ کوانٹم اور کلاسیکل کے درمیان، جاندار اور بے جان کے درمیان، ذہن اور دماغ کے درمیان۔ سائنس اس کو آخر کیسے عبور کر سکتی ہے؟ اس کو ہائزنبرگ نے Schnitt  کا نام دیا تھا۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خلا صرف موجودہ علم کے نامکمل ہونے کا نتیجہ ہے۔ جبکہ کئی دوسرے ایسے سمجھتے ہیں کہ یہ خلا کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ ایسا کیا جانا ممکن نہیں۔
ہارورڈ پیٹی اس مسئلے پر پچاس برس سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے ہاتھ میں اس کا سرا آ گیا ہے۔ اور یہ پرانا آئیڈیا ہے۔ جاندار اور بے جان نظام کے درمیان کا فرق سمجھنے کے لئے ماہرینِ حیاتیات کو جدید فزکس کا ایک تحفہ مکمل طور پر قبول کرنا پڑے گا۔ یہ complementarity کا آئیڈیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس غیرمتوقع تحفے کو قبول کرنا آسان نہیں۔ آئن سٹائن کو اسے قبول کرنے میں تامل تھا جب تک کہ نیلز بوہر نے ایسا کرنے پر مجبور نہیں کر دیا تھا۔ یہ آئیڈیا کوانٹم دنیا سے آیا تھا۔ کوانٹم فزکس کی آمد نے ڈیٹرمنزم کے عقیدے کو اور کائنات کو سمجھنے کے لئے ایک بڑی گرینڈ تھیوری کی امید پر پانی پھیر دیا تھا۔ بوہر نے کممپلیمنٹری کا آئیڈیا تجویز کیا تھا۔ اس کے مطابق کوانٹم اشیا کی خاصیتیوں کا جوڑا ہے۔ جن میں سے وقت کے ایک خاص نکتے پر صرف ایک ہی ناپا جا سکتا ہے۔  سائنسدان کے لئے یہ ایک کاری ضرب تھی اور خاص طور پر فزسسٹ کے لئے۔ رابرٹ روزن کہتے ہیں کہ “فزکس میں کوشش ہوتی ہے کہ معروضیت تک محدود رہا جائے۔ اور اس میں یہ مفروضہ لیا جاتا ہے کہ معروضی کو غیرمعروضی سے الگ کیا جا سکتا ہے”۔ بوہر کا یہ آئیڈیا اس مفروضے کو ہلا دیتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں سے ہوارڈ پیٹی کہانی آگے بڑھاتے ہیں۔ پیٹی کا کہنا ہے کہ کمپلیمنٹریٹی کا تقاضا ہے کہ زندگی کو ایک تہہ دار سسٹم کے طور پر دیکھا جائے جس میں ہر تہہ کی اپنی لغت ہے۔ اس میں ایک طرف نیورون کا فائر ہونا ہے۔ جبکہ دوسری طرف علامات ہیں جو فزیکل دنیا کی عکاس ہیں اور خود میں رئیلیٹی کا حصہ ہیں۔ ایک طرف نیورون کے پیٹرن ہیں۔ جبکہ دوسری طرف احساس ہیں۔ ایک وقت میں ان دونوں میں سے صرف ایک طرف کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ دونوں ہی اصل ہیں۔ یہاں پر ہم بوہر کا کمپلیمنٹری کا اصول بڑے سکیل پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایک ہی سسٹم کی دو الگ وضاحتیں، جن میں باہم کچھ مشترک نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس میں کوئی جادو نہیں۔ پیٹی اس نکتے کی وضاحت کرنے کے لئے ڈی این اے کے میکانزم کی مثال لیتے ہیں۔ ڈی این اے علامتی انفارمیشن (ڈی این اے کوڈ) کی مثال ہے جو کہ مادی فنکشن (انزائم ایکشن) کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور یہاں پر مرغی اور انڈے کا مسئلہ نظر آتا ہے۔ اگر ڈی این اے کو توڑنے والے انزائم نہ ہوں تو ڈی این اے ایک غیرفعال پیغام ہے جس کی نہ ہی کاپی بنائی جا سکتی ہے، نہ اس کو پڑھا جا سکتا ہے اور نہ ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ اور دوسری طرف، ڈی این اے نہ ہو تو کوئی انزائم بھی نہیں ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زبردست آئیڈیا ہمارے سامنے ہے۔
مالیکولز کا ایک جمگھٹا، جس کو نیچرل سلیکشن نے شکل دی ہے، مادے کو افزائشِ نو کے قابل بناتا ہے۔ یہ مالیکیول (جنہیں سٹور کیا جا سکتا ہے اور واپس لایا جا سکتا ہے)، ایک علامت ہیں، انفارمیشن کا کوڈ ہیں جو اس بات کی تفصیل بتاتے ہیں کہ زندگی کا نیا یونٹ کیسے تعمیر ہو سکتا ہے۔ اور دوسری طرف یہی مالیکیول تعمیر کے عمل کی فزیکل شکل ہیں۔ ڈی ان اے بات بھی کرتا ہے اور کام بھی کرتا ہے۔  یہ ایک ہی چیز کی دو الگ حقیقتیں ہیں۔ جس طرح روشنی بیک وقت لہر بھی ہے اور ذرہ بھی۔ انفارمیشن اور تعمیر، سٹرکچر اور فنکشن ۔۔۔ یہ ایک یہ فزیکل شے کی ناقابلِ تخفیف خاصیتیں ہیں جو الگ تہوں میں الگ پروٹوکول کے ساتھ موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طرف یہ کائیاں خیال لگتا ہے لیکن دوسری طرف یہ بہت ہی سادہ اور خوبصورت ہے۔ پیٹی نے ہمیں ایسا تصور فراہم کر دیا ہے۔ یہ سوچنے کا ایک طریقہ ہے جس میں صرف فزکس کے استعمال سے (کمپلیمنٹری کے اصول کو شامل کر کے) بے جان سے جاندار برآمد ہو جاتا ہے۔ معروضی نیورونز سے موضوعی ذہن تک جایا جا سکتا ہے۔ پیٹی کی تجویز ہے کہ شعوری کوگنیشن کو انفارمیشن پراسسنگ یا نیورون کی حرکات سے ہٹ کر تیسرے طریقے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ شعور کی کسی ایک شے تک تخفیف نہیں کی جا سکتی۔ دونوں کو ہی میز پر رکھنا ہے۔ یہ ایک ہی سسٹم کی کمپلیمنٹری خاصیتیں ہیں۔
پیٹی کا یہ آئیڈیا نیوروسائنس میں آگے بڑھنے میں مدد کر سکتا ہے۔


یہ اس مضمون کا ترجمہ ہے
https://www.edge.org/response-detail/27049

  





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں