باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 11 اکتوبر، 2018

صحرا میں کشتیاں - ارل سمندر


ساتھ لگی پہلی تصویر ایک زہریلے صحرا کی ہے۔ یہاں پر دور دور تک پانی نہیں اور اس کے بیچ مچھلیاں پکڑنے والی کشتیاں کئی سالوں سے کھڑی زنگ کھا رہی ہیں۔ ان کو آخر یہاں لایا کیوں گیا؟ مچھلیاں پکڑنے کے لئے۔ یہ سیاست، معیشت اور جنگ کے نام پر زندگیوں کو تباہ کرنے کی کہانی ہے۔ یہ دنیا میں انسان کی لائی گئی ایک بڑی تباہی کی کہانی ہے۔


ہزارہا سال سے وسطی ایشیا میں پانی کی بڑی جھیل تھی۔ 68000 مربع کلومیٹر پر پھیلی دنیا کی چوتھی سب سے بڑی جھیل۔ یہ ارل سمندر تھا جو موجودہ ازبکستان اور قازقستان میں تھا۔ آئرلینڈ کے ملک کے سائز کی اس جھیل کنارے آبادیاں تھیں۔ سوویت یونین کی بیس فیصد سے زیادہ مچھلیاں یہاں سے پکڑی جاتی تھیں اور ہزاروں لوگ اس صنعت سے وابستہ تھے۔ دریائے سائر اور دریائے آمو اس میں گرتے تھے۔ نئے پانی کی آمد اور تبخیر کے ساتھ پانی کی سطح ایک توازن میں تھی۔ ان دونوں دریاؤں سے نہریں نکال کر کھیتوں کو سیراب کرنے کے لئے ان کے رخ موڑے گیا۔ یہ سوویت دور میں انجینرنگ کے بڑے منصوبے تھے جن کا ایک بڑا مقصد ازبکستان کے کھیتوں کے ذریعے کپاس میں سوویت یونین کو خود کفیل کرنا تھا۔ 1988 تک ازبکستان دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ لیکن 60 کی دہائی میں مکمل ہونے والی نہریں پانی کو اس جھیل میں داخل ہونے سے روک رہی تھیں۔ طرہ یہ کہ زیادہ ایفیشنٹ بھی نہیں تھیں اور بھاری مقدار میں پانی لیک کر رہیں تھیں۔ 1960 میں ارل سمندر کا پانی کم ہونا شروع ہو گیا۔ یہ کس قدر تیزی سے کم ہوا؟ اس کے لئے دوسری تصویر۔ 

اس تباہی کی دوسری سائیڈ یہ تھی کہ پانی بخارات میں بدل کر اڑ جاتا ہے، نمک نہیں۔ پانی میں نمک کا تناسب بھی بڑھ رہا تھا۔ 2004 میں یہ پانچ گُنا ہو چکا تھا۔ یہاں پر رہنے والے جاندار اور پورا ایکوسسٹم ختم ہو گیا۔ ساتھ لی گئی پہلی تصویر موعیناق شہر سے ہے جہاں پر ایک وقت میں تیس ہزار لوگ فشنگ انڈسٹری سے وابستہ تھے۔ آج یہ بحری جہازوں کا قبرستان ہے۔ جہاں پر کبھی سو فٹ گہرا پانی تھا، آج یہاں پر لوگ زنگ آلود کشتیاں دیکھنے آتے ہیں۔۔ یہ بندرگاہ اب پانی سے سو کلومیٹر دور ہے۔

جھیل خشک ہونے سے جو زمین نکلی، اس میں نمک اتنا ہے کہ یہاں پر زراعت ناممکن ہے لیکن اس کی اصل اور بڑی ٹریجڈی یہ نہیں۔ سرد جنگ کے وقت میں انسانوں کو مارنے کے نت نئے طریقوں پر تحقیق ہوا کرتی تھی۔ بائیولوجیکل ہتھیاروں کے تجربات کے لئے جس جگہوں کا انتخاب کیا گیا، ان میں سے ایک اس سمندر کے درمیان ایک وژرژدینینا جزیرہ تھا۔ سمندر کے درمیان غیرآباد جزیرے پر قسم قسم کے تجربات ہوئے۔ اینتھراکس، چیچک، طاعون، مالٹا بخار اور ٹولاریمیا جیسے ایجنٹس کے۔ صرف ان تجربات کو کرنے کے لئے نیا ائرپورٹ بنایا گیا اور ڈیڑھ ہزار آبادی والا نیا شہر (کانٹوبک) بسایا گیا۔ سوویت یونین ختم ہوا، تجربات ختم ہوئے، یہ شہر آج مکمل طور پر ویران ہے لیکن ہر زہریلا مادہ بالآخر سمندر کی تہہ میں ہی پہنچتا ہے۔ اس کے گرد اگائے گئے کھیتوں کو دی جانے والی کھاد یا کیڑے مار ادویات کا رن آف بھی آخر میں اس کی تہہ تک پہنچتا تھا۔ پانی خشک ہو جانے کے بعد یہ تہہ سطح بن گئی۔ ہوا اور آندھیاں اس زہر کو لے اڑیں۔ جو پھینک کر بھلا دیا گیا تھا، وہ فضا کا حصہ بن گیا۔ اس علاقے کے قریب زندگی آج آسان نہیں۔ یہاں پر پیدا ہونے والے بچوں میں ایک ہزار میں سے 75 زندہ نہیں رہتے۔ ( یہ تناسب نائیجیریا اور مالی جیسے ممالک سے بھی برا ہے۔ بچوں کی اموات کا اس سے زیادہ اموات صرف افغانستان، صومالیہ، چاڈ، نائیجر اور وسطی افریقن ری پبلک میں ہیں)۔ یہاں پر کینسر کی شرح دنیا کی اوسط سے 25 گنا زیادہ ہے۔ ٹی بی کا پھیلاؤ بڑا مسئلہ ہے۔ طاعون کی وبا بھی پھیلتی رہیہے۔ جس کپاس کو اگانے کے لئے یہ کیا گیا، اس کو بھی چیلنج کا سامنا ہے۔ زہریلی آندھیوں کے وجہ سے پیداوار گر رہی ہے۔ کپاس کے کھیتوں میں لوگ 'رضاکارانہ' طور پر کام کرتے رہے تھے۔ یہ روایت اب بھی جاری ہے۔ ہر سال بیس لاکھ لوگ خزاں کے موسم میں اس 'جبری رضاکارانہ مشقت' میں حصہ لیتے ہیں۔ (تفصیل نیچے دئے گئے لنک میں)۔

نہریں نکالنے کا پراجیکٹ ایک بہت بڑا انجینرنگ پراجیکٹ تھا۔ ان سب کو ہاتھ سے کھودا گیا اور بہت سے لوگوں کا خون پسینہ اس میں لگا۔ ابتدائی نہریں نکالنے کے بعد پھر اس میں توسیعی کام ہوا۔ اس وقت معلوم تھا کہ اس سے ارل سمندر میں کیا اثرات ہوں گے۔ مشہور سوویت کلائیمٹولوجسٹ الیگزینڈر ووئیکوف کا کہنا تھا کہ یہ جھیل خود ایک غلطی ہے اور اس کی وجہ سے قوم کا قیمتی پانی ضائع ہو رہا ہے۔ مچھلی کے مقابلے میں کپاس قوم کے لئے زیادہ ضروری ہے۔
سوویت حکومت نے یہ سب اپنے لوگوں کی بھلائی کے لئے اچھی نیت سے کیا تھا لیکن اچھے کاموں کے لئے صرف اچھی نیت کافی نہیں ہوتی۔ سیاست، معیشت اور جنگ کے سامنے نیچر کی اہمیت ثانوی ہو جاتی ہے لیکن نیچر کے آگے انسان کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔

ہر جنگ کی طرح بیسویں صدی کی سرد جنگ نے بہت سے ایکولوجیکل مسائل کو جنم دیا۔ ان میں سے ایک مثال ایٹمی تجربات کی سائٹس ہیں۔ جہاں پر ایٹمی تجربہ کیا جائے، وہاں پر تابکاری کے اثرات بہت لمبی مدت رہتے ہیں۔ یہ تجربے بند ہوئے مدت ہو چکی، ان کے اثرات کو نہیں۔ آج تک امریکہ ان اثرات کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کی مد میں دو ارب ڈالر کا ہرجانہ بھر چکا ہے اور اس سے بھی زیادہ وہ ہیں جہاں پر ہرجانے کے کیس کامیاب نہیں ہوئے۔ دوسری سائیڈ پر قازق اتنے خوش قسمت نہیں رہے۔

جنوری 1994 میں ازبکستان، قازقستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغستان نے معاہدہ کیا کہ یہ سب اپنے سالانہ بجٹ کا ایک فیصد ارل سمندر کے مسئلے پر خرچ کریں گے۔ ورلڈ بینک کی مدد سے اس سلسلے میں پہلا پراجیکٹ 2006 میں مکمل ہوا۔ بائیولوجیکل ہتھیاروں کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے اس وقت ازبکستان، قازقستان اور امریکہ مل کر کام کر رہے ہیں۔

ارل سی پر نیشنل جیوگرافک میں آرٹیکل
https://www.nationalgeographic.com/magazine/2015/06/vanishing-aral-sea-kazakhstan-uzbekistan/

الجزیرہ ٹی وی کی اس پر ڈاکومنٹری فلم
https://www.aljazeera.com/programmes/aljazeeraworld/2012/08/2012857324531428.html

ازبکستان میں کپاس پر جبری مشقت کس شکل میں جاری رہی
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_829.html

پاکستان اور انڈیا کے تنازعے کی وجہ سے ہونے والی ایک ماحولیاتی تبدیلی پر پوسٹ
https://waharaposts.blogspot.com/2018/10/blog-post_9.html

بائیولوجیکل ہتھیاروں کے تجربوں والا جزیرہ
https://en.wikipedia.org/wiki/Vozrozhdeniya_Island

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں