باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 2 اکتوبر، 2018

ذہن کی پارلیمنٹ



جان کیٹس نے کہا تھا، "خوبصورتی سچائی ہے اور سچائی خوبصورتی"۔

یہ جملہ پڑھنے میں خوبصورت ہے لیکن اکثر مختصر فقروں کی طرح خود مکمل طور سچ نہیں۔ سچ ہمیشہ خوبصورت نہیں ہوتا۔ گہرے سچ تو بعض دفعہ بالکل بھی نہیں۔ اس طرح کا ایک سچ خود ہمارا اپنا ذہن ہے۔

بی ایف سکنر نے "جانداروں کے رویوں" کے بارے میں ایک بڑی خوبصورت وضاحت دی تھی۔ جس رویے کو اپنانے میں انعام ملے، جاندار اس کو دہرائے گا۔ یہ ری انفورسمنٹ کی تھیوری تھی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ غلط تھی (ری انفورسمنٹ سے دہرانے کے امکان میں اضافہ ہوتا ہے) بلکہ اس لئے کہ یہ بہت سادہ تھی۔ یہ رویوں کے کئی حصوں کو مِس کر دیتی تھی۔ تجربے رویے کو شکل دیتے ہیں لیکن صرف ری انفورسمنٹ سے نہیں۔ جاندار بہت سی مختلف چیزیں بہت سے مختلف طریقوں سے سیکھتے ہیں۔

رویوں کی ایک اور وضاحت ماڈیولر مائنڈ ہے یعنی ذہن مختلف خانوں میں بٹا ہے، خاص طور پر انسانی ذہن۔ مختلف حصے اپنے اپنے طریقے سے کام کرتے ہیں۔ مختلف احکامات جاری کرتے ہیں، کئی بار ایسے بھی جو ایک دوسرے سے متضاد ہوں۔ یہ خوبصورت تھیوری نہیں (اس قسم کے خیال پر اوکم اپنا استرا نکال سکتے ہیں)۔ لیکن خیالات کو مقابلہ حسن میں نہیں پرکھا جاتا۔

رومیو اور جولیٹ کی کہانی میں رومیو ایک مونٹاگیو تھا جبکہ جولیٹ ایک کاپولیٹ۔ ماٹاگیو اور کاپیولیٹ ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے لیکن رومیو اور جولیٹ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ اگر ہم صرف گروپ کانفلیکٹ کی تھیوری سے رویوں کو دیکھیں تو اس کی وضاحت نہیں کر سکتے۔ اس لئے نہیں کہ گروپ کانفلیکٹ تھیوری غلط ہے بلکہ اس لئے کہ یہ ذہن کا بس ایک حصہ ہے۔ گروہی رویہ ذہن کا ایک ماڈیول ہے جبکہ شخصی تعلقات ایک اور۔ ہمارا ذہن لوگوں کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے لیکن ڈیٹا کے ساتھ ہر ماڈیول الگ برتاؤ کرتا ہے۔  گروہی ماڈیول گروہ کی شناخت کی لکیریں کھینچتا ہے اور سٹیریوٹائپ بناتا ہے۔ شخصی تعلقات کا ماڈیول فرد کو دیکھتا ہے۔ دونوں اپنے طریقے سے فیصلے لیتے ہیں۔  

کیا آپ نے اپنے کبھی خود اپنے ذہن پر اور اس میں چلتے خیالات پر گہرائی میں غور کیا؟ خاص طور پر خیالات کے تضاد پر؟ اور ہر کوئی اتنے تضادات کا شکار کیوں ہے؟ انسانی رویوں کی وضاحت صرف ایک تھیوری سے کرنا غلط نتائج کیوں دیتا ہے؟ ارسطو نے ایک وقت میں انسان کو معقول جاندار کہا تھا لیکن ہم اتنے نامعقول کیوں ہیں؟ اور دوسرے ہم سے بھی کہیں زیادہ نامعقول کیوں ہیں؟ اس لئے کہ ذہن ایک یونٹ نہیں۔ اس میں خیالات کی ایک پارلیمنٹ ہے۔ رویوں کی مختلف تھیوریز ان میں سے کسی ایک حصے کی وضاحت کرتی ہیں۔ ذہن میں لگی پارلیمنٹ ان میں سے رویے کا انتخاب کرتی ہے۔ اس میں سے بڑا حصہ ہمارے شعور تک نہیں پہنچتا۔

ہم گپ شپ کیوں لگاتے ہیں؟ ناول اور آپ بیتیاں کیوں پڑھتے ہیں؟ سیاست دانوں کی باتیں ٹی وی پر کیوں سنتے ہیں؟ کوئی ہمیں ایسا کرنے کے لئے کھانا یا پیسے نہیں دیتا یا شاباش بھی نہیں دیتا۔ ذہن کے لئے ڈیٹا اکٹھا کرنا خود ایک انعام ہے۔ اس میں لگی پارلیمنٹ نے اس ڈیٹا کی بنیاد پر فیصلے کرنے ہیں۔ آپ نے یہ طے کرنا ہے کہ اس کے کونسے ممبر کو بولنے دیا جائے اور کس کو خاموش کروا دیا جائے۔   

ماڈیولر مائنڈ کی تھیوری خیالات کا مقابلہ حسن تو نہیں جیتے گی لیکن انسانی رویوں کی بہتر وضاحت کر دیتی ہے۔

اس کا مرکزی خیال سائیکولوجی ریسرچر جوڈتھ ہیرس کی اس کتاب سے
 
No Two Alike: Human Nature and Human Individuality


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں