باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 9 اکتوبر، 2018

فطرت سے جنگ - پہاڑ بمقابلہ انسان







"جب تم گھر لوٹو گے تو سب کو بتا دینا، میں نے اپنا آج تمہارے بہتر کل کے لئے قربان کر دیا"

ہم اس زمین کی سطح پر رہتے ہیں لیکن اس کی ہر جگہ زندگی کے لئے مناسب نہیں۔ سمندر کے بیچ، لق و دق صحراؤں میں، پہاڑوں پر، برفیلے میدانوں میں ہمارا رہنا مشکل ہے لیکن زندگی کے لئے سب سے مشکل جگہ جہاں پر پورا سال انسانی آبادی رہتی ہے، وہ ہے جو پاکستان کے شمال مشرق میں قراقرم کا ایک گلیشئیر ہے۔ یہ اس قدر بنجر، غیراہم اور ویران زمین تھی کہ نہ کراچی کے 1949 کے معاہدے میں اور نہ ہی 1972 میں ہونے والے شملہ معاہدے میں اس پر لکیر کھینچی گئی۔ یہ سیاچین گلیشئیر ہے۔  

یہاں پر فوجی آپریشن 1984 میں شروع ہوا۔ جنگ بندی 2003 میں ہوئی۔ لیکن یہاں پر جنگ دو فوجوں کی آپس میں نہیں۔ دونوں کا دشمن ایک ہی ہے اور وہ یہاں کا موسم ہے۔ دو ہزار کے قریب فوجی پاکستان کی طرف سے جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ان میں سے صرف تین فیصد لڑائی میں اور باقی سب فراسٹ بائٹ، ایوالانچ یا موسم کی دوسری پیچیدگیوں کی وجہ سے۔ 2012 میں گیاری کے ایک ہی ایوالانچ سے 129 پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔

انسانی جسم 5400 میٹر کی اونچائی پر رہنے کا عادی نہیں بن ہی نہیں سکتا۔ یہاں پر رہنے والوں کو صحت کے طویل المدت اثرات کا سامنا ہوتا ہے۔ منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ میں، الٹراوائلٹ شعاعوں میں، بہت کم آکسیجن والی مہین ہوا میں اور تنہائی میں زندگی کا رشتہ برقرار رکھنا آسان نہیں۔ بُرے موسم میں کئی بار مسلسل ایک ماہ تک ایسا موسم ہوتا ہے کہ حدِ نگاہ صفر رہتی ہے۔ تنہائی سے ہونے والے اثر کی وجہ سے خود اپنا ذہن دوستی چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے انتشار کا سامنا آسان نہیں۔ یاداشت کا بگڑ جانا، پھیپھڑوں کی انفیکشن، بولنے میں لڑکھڑاہٹ، وزن کم ہونا، سونے اور کھانے میں مشکل۔ تازہ خوراک کا تصور نہیں۔ آنکھ، ہاتھ یا پاؤں ضائع ہو جانے کا خطرہ۔ جسم انسان کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیتا ہے۔ یہاں پر رہنے والوں کی اوسط زندگی 5 سال کم ہو جاتی ہے۔

یہاں پر رہنے کے لئے ساز و سامان عام نہیں۔ اس کو ایکسٹریم کولڈ ویدر سسٹم کہتے ہیں۔ تھرمل اِن سول، برف کے گوگل، بوٹ، ایلوالانچ کا پتہ لگانے کا ڈیٹکٹر، راک پائیٹن، برف پر چڑھنے کے لئے کلہاڑی، سونے کے لئے بیگ، رسے یہ سب یہیں سے خاص ہیں۔ یہ سب یورپ سے خریدا جاتا ہے۔ ان کو بنانے والا یورپین سپلائر ایک ہی ہے جس سے انڈیا اور پاکستان دونوں یہ سب کچھ خریدتے ہیں۔ جنگی ساز و سامان بھی اسی علاقے سے خاص ہے۔

پاکستان اور انڈیا کی 150 پوسٹس ہیں جن میں دونوں اطراف سے تین تین ہزار فوجی تعینات ہیں۔ فطرت کے ساتھ اس جنگ کا ایک دن کا خرچ پانچ کروڑ روپے ہے۔

کیا یہاں پر سے فوجیں ہٹائی جا سکتی ہیں؟ نہیں۔ اس کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں۔ یہ فیصلہ کسی کے ہاتھ میں ہے ہی نہیں۔ ایک دوسرے پر اعتماد کا اس قدر فقدان ہے اور ماضی کی تلخیاں اتنی زیادہ کہ ایسا کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔ آپس کی جنگ بند ہوئے پندرہ سال گزر گئے۔ لیکن پہاڑوں کے ساتھ دونوں طرف کے نوجوان روز جنگ کرتے ہیں۔

اب یہاں پر ایک نیا خطرہ ہے۔ اس نازک جگہ پر پچھلی 31 سالہ عسکری ایکٹیویٹی کی وجہ سے یہ گلیشیر پگھل رہا ہے جو نہ صرف ماحول کے لئے تباہ کن ہے بلکہ یہاں رہنا مزید خطرناک بنا رہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تنازعہ ختم ہونے سے پہلے گلیشیئر ختم ہو جائے (گیاری کے سانحے پر آئس ایس پی آر کے میگیزین 'ہلال' میں فروری 2016 میں شائع ہونے والی رپورٹ سے)۔

"جب تم گھر لوٹو گے تو سب کو بتا دینا، میں نے اپنا آج تہمارے بہتر کل کے لئے قربان کر دیا"
یہ الفاظ اس گلیشئیر کے مغرب میں بھی لکھے ہیں اور مشرق میں بھی۔

گلیشیر کے پگھلنے پر
https://www.dawn.com/news/1365369

پاکستانی فوجی کا یہاں رہنے کا تجربہ
https://www.parhlo.com/pakistan-army-soldider-siachen-experience/

انڈیا کی طرف سے اس پر ایک رائے
https://akodalikar.wordpress.com/2016/02/12/why-cant-the-siachen-glacier-be-demilitarized/

تنازعے کی تاریخ
https://en.wikipedia.org/wiki/Siachen_conflict

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں