باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 25 فروری، 2019

خطرناک موجد


ریفریجریٹر گھریلو اپلائنس بن چکا تھا لیکن یہ لوگوں کو قتل کر رہا تھا۔ اس میں استعمال ہونے والی گیسیں امونیا، میتھائل کلورائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ تھیں جو سرد کئے جانے کے لئے استعمال ہوتی تھیں۔ تینوں زہریلی تھیں جو فریج کی سیل ٹوٹ کر لیک ہو جانے کی صورت میں لوگوں کو ہلاک کر دیتی تھیں۔ میتھائل کلورائیڈ کبھی دھماکہ بھی کر دیتی تھی۔ اس کو محفوظ کئے جانا ضروری تھا۔ اس مسئلے کا حل تھامس مجلے جونئیر نے تلاش کر لیا۔

انہوں نے ایک نیا کولنٹ ڈھونڈ لیا۔ یہ کولنٹ فریون گیس تھی۔ انہوں نے سب کے سامنے ایک ڈرامائی تجربہ کیا۔ پہلے اس گیس کا گہرا سانس لیا اور پھر اس کی مدد سے پھونک مار کر ایک جلتے شعلے کو بجھا دیا۔ یہ نہ صرف مارتی نہیں تھی بلکہ آگ سے بھی محفوظ تھی۔ سرد کرنے میں یہ اتنی ہی موثر تھی جتنا کہ اس سے پہلے استعمال ہونے والے کولنٹ۔ فریون فریج اور ایرکنڈیشنر میں سٹینڈرڈ بن گئی۔ انسانی جانیں چلے جانا کا مسئلہ حل ہو گیا تھا۔ پہلے کلورفلوروکاربن کی ایجاد پر مجلے کو 1937 میں پرکن میڈل سے نوازا گیا۔ یہ گیس دمہ کے لئے انہیلر اور ایروسول سپرے میں استعمال ہونے لگی۔ لیکن کسی کو علم نہیں تھا کہ یہ ایک سنگین مسئلے کا آغاز تھا۔

اوزون دریافت ہوئی اور اس کے کردار کا پتا لگا۔ کرہ ہوائی میں اس کی پتلی تہہ زندگی کے لئے بہت ضروری ہے۔ سورج سے آنے والی الٹراوائلٹ شعاعیں اس میں جذب ہو جاتی ہیں اور دھوپ میں خلیاتی نقصان نہیں ہوتا۔ آکسیجن کے تین مالیکیولز پر مشتمل یہ گیس خود بدبودار اور زہریلی ہے جو سٹریٹوسفئیر میں پائی جاتی ہے۔ ایک کروڑ میں سے ایک حصہ بھی ہو تو نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن فضا کی بالائی تہہ میں یہ ایک کروڑ میں بیس سے اسی حصے موجود ہے اور الٹراوائلٹ شعاعوں کو جذب کرنے کے لئے یہ مقدار کافی ہے۔

فرینک رولینڈ اور ماریو مولینا نے 1974 میں سب سے پہلی بار تجویز کیا کہ کلوروفلورکاربن اوزون کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ (اس کام پر ان کو بعد میں کیمسٹری کا نوبل انعام ملا)۔ برطانیہ کے اینٹارٹیکا کے سروے نے جب قطبِ جنوبی کے قریب فضا کی سٹڈی کی تو یہ ایک شاک تھا کہ اوزون کی تہہ میں کس قدر بڑا شگاف پڑ چکا ہے۔ ناسا اور پھر این او اے اے نے بھی اس کو کنفرم کر دیا۔ عالمی برادری حرکت میں آ گئی۔ کلوروفلوروکاربن پر دنیا بھر میں پابندی لگا دی گئی۔

تھامس مجلے اس سے پہلے جنرل موٹر کے ساتھ ایک اور ایجاد کر چکے تھے۔ یہ پٹرول میں سیسے کا اضافہ تھا جس سے گاڑی کے انجن کی ناکنگ ختم ہوتی تھی جو سلنڈر کے پسٹن اور دیواروں کو نقصان پہنچاتا تھا۔ اس ایجاد کی وجہ سے ساٹھ سال تک دنیا سیسے کی زہرخوانی کا شکار ہوتی رہی۔ نوے کی دہائی میں سیسے پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔

دنیا کے ماحول کے لئے دو خطرناک ترین ایجادات کرنے والے مجلے کو اپنی زندگی میں کئی اعزازات ملے، جن میں کیمیکل انجنیرنگ کا اعلیٰ ترین ایوارڈ پریسٹلے میڈل بھی تھا۔ ان کی ایجادات نے اگلی تین نسلوں میں کینسر اور بچوں میں دماغی صحت کے مسائل پیدا کئے۔ تاریخ میں کوئی اور سائنسدان اتنے بڑے پیمانے پر اور دنیا بھر میں ہلاکتوں اور صحت کے مسائل کا باعث نہیں بنا۔ لیکن اپنی زندگی میں انہوں نے یہ سب نہیں دیکھا۔ ان کی موت ان کی ایک اور ایجاد کی وجہ سے ہوئی۔

آج ہم پولیو کی ویکسین کی وجہ سے دنیا سے بڑی حد تک پولیو کو ختم کر چکے ہیں لیکن یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب دنیا بھر میں پولیو کی دہشت تھی اور یہ بیماری بڑی تعداد میں لوگوں کو معذور کر رہی تھی اور جانیں نگل رہی تھی۔ مجلے بھی پولیو کا نشانہ بن گئے اور معذوری کا شکار ہوئے۔ اپنے آپ کو بستر سے وہیل چئیر پر منتقل کرنے کے لئے انہوں نے رسیوں اور پلیوں کی مدد سے ایک سسٹم بنایا۔ رسی گلے میں پھنس جانے کے سبب وہ اسی ایجاد کی وجہ سے دم گھٹ کر انتقال کر گئے۔

مجلے کی زندگی کی کہانی دو الگ سبق رکھتی ہے۔ ایک تو یہ کہ ٹیکنالوجی سے مسائل حل بھی ہو سکتے ہیں لیکن کئی بار اس سے نکلنے والے نتائج وہ ہوتے ہیں جن کو ہم اس وقت نہیں جانتے۔ دوسرا اہم سبق یہ کہ ہم اپنے مسائل مل کر حل کر سکتے ہیں۔ سیسے والا پٹرول ہو، اوزون کی تہہ یا پھر پولیو۔ اپنی تمام تر لڑائیوں کے ساتھ ساتھ، یہ مسائل دنیا بھر کے ممالک نے اکٹھے مل کر حل کئے ہیں۔ ہمارے پاس زمین صرف ایک ہی ہے۔ فضا ہو یا جراثیم، ان کو ہمارے ملک سے یا ہماری شناخت سے کوئی غرض نہیں۔

ان کے بارے میں یہاں سے
https://en.wikipedia.org/wiki/Thomas_Midgley_Jr.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں