باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 7 اپریل، 2019

پہلے جاسوس سیٹلائیٹ




نگرانی کرنے والے سیٹلائیٹ سے تصور آتا ہے کہ یہ زمین کی کسی بھی جگہ کی تصویریں کھینچ کر جاسوسی کرنے والے اداروں کو بھیجتے ہونگے۔ اب گوگل ارتھ کے ساتھ یہ ٹیکنالوجی تو دنیا میں ہر ایک کو میسر ہے لیکن جب پہلی بار نگرانی کرنے والی سیٹلائیٹ خلا میں بھیجے گئے تھے تو ٹیکنالوجی ایسے نہیں تھی۔ الیکٹرانک طریقے سے زمین پر تصاویر نہیں بھیجی جا سکتی تھیں۔

سوویت یونین کیا کر رہا ہے؟ سرد جنگ کے دور میں یہ ایک اہم سوال ہوا کرتا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں جاسوسی کے لئے طیارے استعمال کئے جاتے تھے۔ مغربی یورپ کے مقابلے میں سوویت یونین کا سائز بہت زیادہ تھا۔ شروع میں جاسوسی طیاروں کے ذریعے سرحد کے قریب ہوتی رہی۔ بہت بلندی پر پرواز کرنے والے طیارے بنائے گئے۔ بوئنگ نے B47 اور لاک ہیڈ نے U2 طیارہ بنایا۔ ایک لاکھ فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے والے ہیلئم کے غبارے استعمال کئے گئے جو مغربی ہوا کے دوش پر سفر کر سکتے تھے لیکن ان میں سے صرف چھ فیصد کی تصاویر استعمال کی جا سکیں۔ باقی کو یا تو مار گرایا جاتا تھا یا وہ گم ہو جاتے تھے۔ 1960 میں U2 جاسوس طیارہ مار گرایا گیا۔ یہ ایک بڑا عالمی واقعہ بن گیا۔ ان پروازوں کو بند کرنا پڑا۔ سیٹلائیٹ کو بھیجنے پر پہلے ہی کام ہو رہا تھا، ان کی جگہ سیٹلائیٹ نے لی۔

زمین سے 160 کلومیٹر اوپر لو ارتھ آربٹ میں سیٹلائیٹ جس کو نشانہ نہ بنایا جا سکے۔ ستائیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے یہ زمین کے بڑے حصے کو بہت جلد کور کر سکتا تھا۔ لیکن ایک مسئلہ تھا۔ یہ مسئلہ کیمرہ تھا۔ تصویر کھینچ کر زمین تک کیسے پہنچائی جائے؟

اس وقت تک خلا سے کوئی چیز زمین پر واپس نہیں بھجوائی گئی تھی۔ خلا سے ویڈیو واپس زمین تک پہنچانے کی ٹیکنالوجی ابھی تیار نہیں تھی۔ ڈیجیٹیل امیجنگ کی ٹیکنالوجی جو جاسوسی کے لئے اچھی ریزولیوشن کی تصاویر زمین تک بھیج سکے، اس ٹیکنالوجی سے ابھی بیس برس دور تھے۔ اس کے لئے ایک طریقہ ڈھونڈا گیا۔ تصویر کھینچ کر فلم کو ایک حرارت سے محفوظ رکھنے والی بالٹی میں ڈال کر زمین پر پھینک دیا جائے۔ اس کے پیراشوٹ کو بحرالکاہل کے اوپر پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر جہاز کے ذریعے پکڑ لیا جائے۔ یہ ایک دیوانے کا خیال لگے لیکن جہاز کے ذریعے اس کو پکڑنا اس کا آسان حصہ تھا۔ فلم والی بالٹی کو اس جگہ تک پہنچانا مشکل معاملہ تھا۔ اس پروگرام کو خفیہ رکھنے اور اس مقصد کے لئے کہ اتنی پروازوں پر شک و شبہ نہ پیدا ہو جائے، کور سٹوری سیٹلائیٹ میں بھیجے گئے جانوروں کے بارے میں بنائی گئی۔ مقصد نگران سیٹلائیٹ سے تصوریں کھینچ کر فلمیں پکڑنا تھا۔

نئے بنائے گئے تھور آگینا راکٹ کو محفوظ طریقے سے خلا میں بھیجنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ پہلی گیارہ کوششیں ناکام رہیں۔ ڈسکورر 13 خلا میں پہنچا اور 10 اگست 1960 کو پہلی مرتبہ انسان کی خلا میں بھیجی گئی چیز کو واپس بھیج کر پکڑ لیا گیا۔ (اس سے نو روز بعد سوویت یونین نے بھی یہی کام کامیابی سے کورابل سوپٹنک دوئم میں کر لیا)۔ اگلے کئی تجربوں کے بعد اس کو باقاعدہ طور پر لانچ کر دیا گیا۔ یہ ٹاپ سیکرٹ تھا اور اس پروگرام کا نام کرونا رکھا گیا، جو بڑے برسوں تک کامیابی سے چلتا رہا۔ آج کے سیٹلائیٹ اپنے آربٹ میں برسوں رہتے ہیں، کرونا کے سیٹلائیٹ چند ہفتوں تک خلا میں رہنے کے لئے ڈیزائن کئے جاتے تھے۔ تصاویر کی فلم ختم ہو جاتی اور زمین پر بھیج دی جاتی تو سیٹلائیٹ ویسے ہی بے کار ہو جاتا تھا کیونکہ اس میں نئی فلم نہیں ڈالی جا سکتی تھی۔ ان کو دنیا کے مہنگے ترین ڈسپوزیبل کیمرے کہا جا سکتا ہے۔ ستر ملی میٹر کی فلم، پنوراما کیمرہ اور فی ملی میٹر 170 لائنوں کی ریزولیوشن۔ یہ دوسری جنگِ عظیم کے کیمروں سے دگنا بہتر تھے۔ دو کیمروں کے مدد سے سٹیریو وژن مل جاتا تھا اور کھینچی گئی تصاویر کی گہرائی اور سائز کا ٹھییک اندازہ ہو جاتا تھا۔ لینز حرکت کر سکتا تھا تا کہ سیٹلائیٹ کی رفتار کی وجہ سے تصویر خراب نہ ہو اور مسلسل اور اچھی کوالٹی کی تصاویر ملتی رہیں۔ اس کیمرہ کے لینز اس وقت کی ٹیکنالوجی کے مطابق بہترین لینز تھے۔ تصاویر کی کیلیبریشن درست رکھنے کے لئے ایریزونا کے صحرا میں 256 نشان لگائے گئے جو سولہ میل تک پھیلے تھے۔ کھینچی گئی تصاویر کے سائز کا موازنہ ان سے کر کے ٹھیک سائز نکالا جا سکتا تھا۔ یہ پروگرام 1972 میں ختم ہو گیا۔ ان نشانوں میں سے آدھے آج بھی موجود ہیں۔ فلم کی کوالٹی وقت کے ساتھ بہتر ہوتی گئی۔ بعد میں بھیجے گئے سیٹلائیٹس میں دو بالٹیاں ہوتی تھیں۔ ہر ایک کی فلم تقریبا پانچ کلومیٹر لمبائی کی ہوا کرتی تھی۔

جہاز سے اس فلم کو پکڑنے کا طریقہ اتنا کامیاب رہا کہ یہ دیر تک استعمال ہوتا رہا۔ چین جاسوسی کے اس طریقے کو 2000 تک استعمال کرتا رہا ہے۔ اگر جہاز اس کو نہ پکڑ سکے اور یہ سمندر میں گر جائے تو پھر یہ دو روز میں ڈوب جاتی تھی تا کہ اگر سمندر سے اس کو ریکور نہ کیا جا سکے تو ڈوب جائے اور کسی کے ہاتھ نہ آ جائے۔

کرونا صرف جاسوسی کا پروگرام نہیں تھا۔ اس سے کئی اہم ٹیکنالوجیز ٹیسٹ ہوئیں۔ یہ جیمینائی، مرکری اور اپالو جیسے پروگرامز نے استعمال کیں۔ زمین میں واپس داخلہ، ٹھیک پوائنٹ پر انٹری، سمندر سے ریکوری جیسی ٹیکنالوجیز اس طریقے سے ڈویلپ ہوئیں۔ کرونا نے 167 فلمیں حاصل کیں۔ ان کی مدد سے عسکری پالیسی سازوں نے فیصلے لئے۔ بداعتمادی کی فضا میں اورر ری ایکشن روکنے میں مدد ملی۔ جب نیوکلئیر ہتھیاروں کے غیرمسلح ہونے کا معاہدہ ہوا تو جاسوس سیٹلائیٹ کی مدد سے دونوں نے نگرانی کی کہ دوسرا فریق معاہدے کا پاس رکھ رہا ہے۔ تباہ شدہ بمبار طیارے کھلے میدانوں میں رکھے گئے کہ دوسرا فریق دیکھ لے۔

جب یہ فلمیں ڈی کلاسیفائی ہوئیں تو انہوں نے ہمیں دنیا کی اور ہماری قدیم تاریخ کی تصاویر دیں۔ اب بھی ماحولیات یا آبادی وغیرہ کی سٹڈی میں جب ہم تاریخی موازنہ کرتے ہیں تو آج سے پچاس سے ساٹھ سال پہلے کی دنیا کے لئے انہی تصاویر کو استعمال کرتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں