باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 22 مئی، 2019

جھوٹ کیوں بولا جاتا ہے؟



ہم کس قدر آسانی سے جھوٹ بول دیتے ہیں، یہ حیران کن ہے۔

کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی نے باتوں میں پوچھا ہو کہ آپ نے فلاں کتاب پڑھی اور نہ پڑھنے کے باوجود “ہاں” کہہ دیا ہو؟ اگر ایسا ہے تو ایسے جھوٹ بہت عام ہیں۔ لیکن کوئی بھی ایسا کیوں کرے گا۔ یہاں پر کچھ داوٗ پر نہیں لگا ہوا۔ ایسے جھوٹ کو ساکھ  کا جھوٹ کہا جاتا ہے۔ یہ جھوٹ کی دلچسپ ترین شکل ہے۔ جو کوئی فائدہ اٹھانے، کسی مصیبت سے نکلنے یا کسی وعدہ نبھانے کی تکلیف سے بچنے وغیرہ کیلئے نہیں۔

سیزر مارٹینیلی اور سوزن پارکر نے اس طرح کے جھوٹ بولنے پر ایک پیپر لکھا ہے۔ (پیپر نیچے دئے گئے لنک سے)۔ اس میں میکسیکو کے ویلفئیر پروگرام سے حاصل کردہ ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ یہ پروگرام میں حکومت کے طرف سے کم آمدنی والے گھرانوں کو انکم سپورٹ دی جاتی ہے۔ اس میں درخواست دینے والوں سے جو سوالات پوچھے جاتے ہیں، اس میں ان کی گھریلو اشیاء کے بارے میں بھی سوالات کئے جاتے ہیں۔ اور پھر ان درخواستوں کی پڑتال ہوتی ہے۔ مارٹینیلی اور پارکر نے ایسی ایک لاکھ درخواستوں کا تجزیہ کیا۔

اس میں سے ایک چیز یہ نکلی کہ درخواست دینے والے کئی چیزوں کو چھپا جاتے تھے۔ گاڑی، سیٹلائیٹ ٹی وی، ٹیلی فون، گیزر اور ویڈیو ریکارڈر وہ اشیاء تھیں جن کو سب سے زیادہ چھپایا جاتا تھا۔ یہ غیرمتوقع نہیں تھا۔ لوگ ویلفئیر پروگرام میں کوالیفائی کرنے کے لئے چیزوں کو چھپائیں گے،، تا کہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ لیکن جھوٹ کی ایک اور قسم حیران کن تھی۔

کئی ایسی اشیاء تھیں جو درخواست دینے والے کے پاس نہیں تھیں لیکن درخواست میں انہوں نے لکھا تھا کہ ان کے پاس ہیں۔ ان میں ٹوائلٹ، نلکا، چولہا، پکا فرش شامل تھے۔ جن لوگوں کے گھروں میں ٹوائلٹ نہیں تھا، ان میں سے چالیس فیصد نے درخوست میں لکھا تھا کہ ان کے پاس ٹوائلٹ ہے۔ کیوں؟

ایسے لوگ جو اس قدر غریب تھے، وہ بظاہر صرف کلرک کے آگے شرمندگی سے بچنے کے لئے یہ تسلیم نہیں کر رہے تھے کہ ان کے گھر میں ٹوائلٹ یا نلکا یا پکا فرش وغیرہ نہیں ہے۔ اس جھوٹ کا واحد مقصد اپنی ساکھ تھی۔ حالانکہ ایسا کہنے کی وجہ سے پروگرام میں کوالیفائی کرنے میں نقصان ہی ہو سکتا تھا، کوئی فائدہ نہیں۔

مارٹینیلی اور پارکر کے اس پیپر کے نتائج کے اثرات وسیع ہیں۔ کوئی بھی ایسا پراجیکٹ جو لوگوں کے رپورٹ کردہ ڈیٹا پر انحصار کرتا ہو، ٹھیک نتائج نہیں دے گا۔ لوگوں کے ماحولیات، منشیات، ذاتی ہائی جین، ووٹ دینے کی ترجیح وغیرہ جیسے سروے میں لوگوں کی سیلف رپورٹنگ کو استعمال کیا جاتا ہے یعنی ان کی رائے پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اس میں جواب دیتے ہوئے اگر کسی کو اپنی ریپوٹیشن کا ڈر ہو تو جواب ٹھیک نہیں ملتے، خواہ اس ریپوٹیشن سے بالکل بھی فرق نہ پڑتا ہو۔

اس میں ایک اور دلچسپ سٹڈی آسٹریلیا میں میڈیکل سٹاف پر کی گئی۔ ہدایات کے مطابق ایک مریض سے دوسرے کے درمیان کیا یہ ہاتھ دھوتے ہیں؟ میڈیکل سٹاف نے جو اس پر خود رپورٹ کیا، وہ تناسب 73 فیصد تھا۔ جب ان کا مشاہدہ کیا گیا تو یہ صرف 9 فیصد نکلا۔

ووٹ دینے میں نسل پرستی یا دوسرے منفی فیکٹر، ماحول کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ رویہ یا ایسی کوئی بھی چیز جس میں ہمیں احتمال ہو کہ ہمارے بارے میں منفی رائے قائم کی جا سکتی ہے، خواہ کتنی بھی غیراہم کیوں نہ ہو، غلط رپورٹنگ پر متنج ہوتی ہے۔ اس بارے میں کئے گئے سروے کے نتائج ٹھیک نہیں نکلتے۔ کیونکہ جہاں ہماری عزت و شہرت کا معمولی ترین معاملہ بھی ہو، وہاں ہم سچ نہیں بولتے۔

مارٹینیلی اور پارکر کا پیپر
https://onlinelibrary.wiley.com/doi/abs/10.1162/JEEA.2009.7.4.886

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں