باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 27 مئی، 2019

وولباکیا



مارشل ہرٹک اور سائمن وولبیک نے 1924 میں عام بھورے مچھر کے اندر رہنے والا ایک نیا جرثومہ دریافت کیا۔ یہ کسی بیماری کا باعث نہیں بنتا تھا، اس لئے اسے اہمیت نہ ملی۔ بارہ سال بعد اس کو دریافت کرنے والے سائنسدان کے نام پر اس کا نام وولباکیا رکھا گیا۔ یہ جاننے میں ماہرینِ حیاتیات کو کئی دہائیاں مزید لگیں کہ یہ بیکٹٰریا کس قدر خاص تھا۔ اپنے اثر میں اور اپنے پھیلنے کے طریقے میں اس کا ثانی نہیں۔ یہ جراثیم کے دوہرے کردار کی بڑی مثال ہے۔ دوست کہ دشمن؟

کارل ووز نے 1980 اور 1990 کی دہائی میں دنیا کو دکھایا کہ مائیکروب کی ان کی جینز کو سیکوئنس کر کے کیسے شناخت کی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد وولباکیا ہر جگہ ملنا شروع ہو گئے۔ الگ الگ سائنسدان جو ایسے بیکٹیریا کو سٹڈی کر رہے تھے جو اپنے میزبان کی جنسی زندگی بدل دیتا تھا، انہیں پتا لگا کہ وہ تو دراصل ایک ہی بیکٹیریا کو دیکھ رہے تھے۔

رچرڈ سٹوتھیمر نے بھڑوں کی ایک قسم دریافت کی جس میں تمام مادہ بھڑیں تھیں جو بغیر کسی نر کی مدد کے خود کو کلون کر سکتی تھیں۔ ان کی یہ صلاحیت ایک بیکٹیریا کا کام تھا۔ سٹوتھیمر نے ان کو اینٹی بائیوٹک دے کر اس بیکٹیریا کو ان میں سے ختم کیا تو نر پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بیکٹیریا وولباکیا تھا۔

تھیری ریگاڈ نے لکڑی کی جوں میں بیکٹیریا دریافت کیا جو کہ نر کو مادہ میں بدل دیتا تھا۔ یہ کام نر ہارمون کی پیداوار کو روک کر سرانجام دیتا تھا۔ یہ بیکٹیریا وولباکیا تھا۔

فیجی اور سمووا میں گریگ ہرسٹ نے بلیومون تتلی میں ایک بیکٹیریا تلاش کیا جو تتلی کے نر بچوں کو قتل کر دیتا تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں کہ مادہ تتلیاں نر کے مقابلے میں سو گنا ہو گئی تھیں۔ یہ وولباکیا تھا۔

یہ سب اسی مچھر میں پہلے بار دریافت ہونے والے مختلف سٹرین تھے۔ نر کے لئے یہ بری خبر کیوں؟ اس لئے کہ وولباکیا اگلی نسل میں مادہ کے انڈے کے ذریعے پھیلتا ہے۔ نر کا سپرم اتنا چھوٹا ہے کہ یہ اس میں سما نہیں سکتا۔ اس کے لئے اگلی زندگی کا ٹکٹ مادہ ہیں۔ اس نے نر میزبان کو ختم کر کے مادہ میزبانوں کو بڑھانے کے طریقے تلاش کر لیے ہیں۔ تتلیوں میں نر کو مار کر، بھڑوں میں نر کی ضرورت ختم کر کے اور ووڈلائس میں نروں کو مادہ بنا کر یہ اپنا مستقبل محفوظ کرتا ہے۔ وولباکیا کے علاوہ بھی بیکٹیریا اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں لیکن جتنے مختلف طریقے یہ استعمال کرتا ہے، دوسرا کوئی نہیں۔

جہاں پر یہ نر کو زندہ رہنے دیتا ہے، وہاں پر بھی ان کو بدل دیتا ہے اور یہ طریقہ ان کے سپرم میں تبدیلی لا کر بدلنے کا ہے۔ یہ سپرم صرف اس انڈے کو فرٹیلائز کرے جس میں وولباکیا موجود ہے۔ متاثرہ مادہ میزبان صرف متاثرہ نر میزبان سے افزائشِ نسل کر سکتی ہیں اور یہ بیکٹیریا تیزی سے پھیل جاتا ہے۔ یہ حکمتِ عملی اس بیکٹیریا کی سب سے عام اور سب سے زیادہ کامیاب حکمتِ عملی ہے۔ یہ ایک آبادی میں تیزی سے پھیلتا ہے اور جلد ہی ایک علاقے میں اپنے میزبانوں میں سو فیصد آبادی تک بہت جلد پھیل سکتا ہے۔

اپنے میزبان کو بدلنے کے علاوہ یہ مادہ کی اووری اور پھر اس کے انڈے میں گھسنے کی بھی کمال صلاحیت رکھتا ہے اور ایک نوع سے دوسرے نوع میں منتقل ہونے کی بھی۔ آسٹریلیا کے ایک بیٹل یا یورپ کی ایک مکھی میں اسی بیکٹیریا کا وہی سٹرین مل جاتا ہے۔

اپنے ان طریقوں کے باعث وولباکیا بہت ہی عام بیکٹیریا ہے۔ حالیہ ہونے والی سٹڈی میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ آرتھروپوڈز کے چالیس فیصد انواع کو انفیکٹ کرتا ہے۔ جانوروں کے اس گروپ میں کیڑے، بچھو، مکڑیاں، مائیٹ وغیرہ آتے ہیں اور انواع کا یہ سب سے بڑا گروپ ہے۔ یہ خشکی پر پایا جانے والا سب سے کامیاب بیکٹیریا ہے۔ وولباک کا انتقال 1954 میں ہو گیا تھا۔ وہ اس سے بے خبر رہے کہ ان کا نام دنیا میں پھیلنے والے سب سے بڑے وبائی بیکٹیریا کو دیا گیا ہے۔

بہت سے جانوروں کے لئے وولباکیا ایک ان چاہا دشمن ہے۔ ایک آرگنزم جو ان کی جنسی زندگی کو اپنے فائدے کے لئے بدل دیتا ہے۔ میزبان کو نقصان پہنچاتا ہے۔ کئی مر جاتے ہیں، کئی افزائشِ نسل نہیں کر پاتے۔ جو متاثر نہیں ہوتے، ان کو بھی ایسی دنیا میں رہنا پڑتا ہے جہاں ان کو جنسِ مخالف کا کوئی پارٹنر نہیں ملتا۔ ایک دشمن بیکٹیریا؟ نہیں، اسی کا ایک دوسرا روپ بھی ہے۔

یہ کئی جانداروں کی زندگی میں ان کی مدد کرتا ہے۔ نیماٹوڈ وورم ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ کئی مکھیوں اور مچھروں کو وائرس اور دوسرے پیتھوجن سے بچاتا ہے۔ آسوبارا ٹابیڈا نامی بھڑ اس کے بغیر انڈے نہیں دے سکتی۔ کھٹمل کو یہ غذائی سپلی منٹ مہیا کرتا ہے۔ ان کے لئے وٹامن بی بناتا ہے، جو کھٹملوں کے چوسے ہوئے خون میں نہیں ہوتا۔ اس کے بغیر یہ کھٹمل اپنے نسل نہیں بڑھا سکتے۔

اگر خزاں میں سیب کے باغ سے گزریں تو زرد اور نارنجی پتوں کے درمیان میں کہیں کوئی سبز پتوں کے جزیرے نظر آئیں گے۔ یہ کام ایک قسم کے پتنگے کا ہے جو سیب کے درخت کے پتوں میں رہتے ہیں۔ تقریبا ان سب میں وولباکیا پایا جاتا ہے۔ یہ وہ ہارمون بنانے میں ان کی مدد کرتا ہے جن کی وجہ سے پتے زرد ہو کر نہیں گرتے۔ یہ کیٹرپلر ان کے لئے خزاں موخر کر دیتے ہیں۔ اگر ان بیکٹیریا کو ان میں سے مار دیا جائے تو پتے زرد ہو کر گر جاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ کیٹرپلر بھی۔

وولباکیا ایک جرثومہ ہے جس کے کئی بھیس ہیں۔ کہیں پر کچھ سٹرین ایک خودغرض دشمن کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسی مہارت والا دشمن جو اپنے میزبان کے پروں اور ٹانگوں کی مدد سے دنیا بھر میں پھیلا ہے۔ جانوروں کو مار دیتا ہے۔ ان کی بائیولوجی بدل دیتا ہے اور ان پر اپنی مرضی کی پابندیاں لگا دیتا ہے۔ جبکہ کچھ اور سٹرین جو اپنے میزبان کے ساتھ مل کر رہتا ہے، ان کا اتحادی ہے، ان کے لئے خوشخبری ہے۔ اور پھر کچھ اور سٹرین جو ایک ہی وقت میں دونوں ہیں۔

اسی بیکٹیریا سے فائدہ اٹھا کر ہم ڈینگی اور زرد بخار ختم کرنے کا طریقہ دیکھ رہے ہیں جبکہ اسی کو ختم کر کے فلارئیسس اور دریائی اندھاپن دور کرنے کا۔

بہت سے چہرے رکھنے والا وولباکیا ۔۔۔ ایسا کرنے میں اکیلا نہیں۔


اس بیکٹیریا کو ختم کر کے بیماریوں سے جنگ پر
https://waharaposts.blogspot.com/2019/05/blog-post_45.html

وولباکیا کی مدد سے ڈینگی کے خلاف ملنے والی کامیابی پر
https://www.nature.com/articles/d41586-018-05914-3

اس بیکٹیریا کے متعلق
https://en.wikipedia.org/wiki/Wolbachia


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں