باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 31 مئی، 2019

جنگل کی سست رفتار محبت



درختوں کی زندگی سست رفتار ہے لیکن پلاننگ کے بغیر نہیں۔ اگلی نسل کب آگے بڑھانی ہے۔ یہ فیصلہ کم سے کم ایک برس پہلے لے لیا جاتا ہے۔ یہ عمل اب کریں یا پھر ایک دو سال کا وقفہ دے دیا جائے؟ یہ فیصلہ بہار میں لیا جاتا ہے۔ کونیفر جیسے درخت تو اپنے بیج ہر سال دنیا میں بھیجتے ہیں لیکن پتے جھڑنے والے درختوں کی حکمت عملی بالکل مختلف ہے۔ جنگل میں یہ درخت پتے کھلنے سے پہلے یہ سب مل کر طے کرتے ہیں۔ اکٹھے اس لئے کہ ان کے جینز آپس میں زیادہ اچھے طریقے سے مل سکیں۔ ہر سال اس لئے نہیں، کہ یہ چرنے والے جانوروں سے بچنے کی حکمتِ عملی ہے۔

بلوط یا شفتالو کے میوے ہرن یا جنگلی سوٗر وغیرہ کی مرغوب غذا ہے۔ اس میں پچاس فیصد تک تیل یا سٹارچ ہوتا ہے، کسی بھی اور خوراک سے زیادہ۔ یہ جانور ان کا صفایا کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ خزاں تک کوئی کوئی ہی بچتا ہے۔ اس لئے انہوں نے طے کرنا ہے کہ یہ ایسا ہر سال نہ کریں تا کہ یہ جانور اپنی خوراک کے لئے ان پر انحصار نہ کریں۔ بغیر اس خوراک کے کچھ جانور مر جائیں گے یا اگلی نسل نہیں چلا سکیں گے۔ ان جانوروں کی تعداد کم ہو گی اور بیجوں کی زیادہ تو ان درختوں کی اگلی نسل چل سکے گی۔

“ماسٹ کے سال” جنگلوں میں ایک قدیم استعمال ہونے والی اصطلاح ہے جب یہ درخت اپنے بیج دیتے ہیں۔ ان سالوں میں ان جنگلی جانوروں کی اگلی نسل بھی زیادہ بڑھتی ہے۔ ان سالوں میں جانور پالنے والنے اپنے جانوروں کو جنگلون میں لے جا کر فربہ کرتے رہے ہیں۔ اس سے اگلے سال جب یہ بیج نہیں ہوتے تو ان جانوروں کی تعداد بھی تیزی سے گرتی ہے۔ جنگل کا فرش خالی رہ جاتا ہے۔

جن سالوں میں یہ درخت اپنے افزائشِ نسل روک دیتے ہیں، یہ کئی کیڑوں کے لئے بھی اچھی خبر نہیں ہوتی۔ شہد کی مکھیاں بھی متاثرین میں سے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کی تعداد پرانے جنگلوں میں ویسے بھی اتنی زیادہ نہیں اور ان درختوں کو ان ننھے مددگاروں کی بھی پرواہ نہیں۔ ان کی دوستی ہوا سے ہے اور یہ تعداد پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہوا ان کا پولن لے اڑتی ہے اور پڑوس کے درختوں تک پہنچا دیتی ہے۔ سردی ہو یا گرمی، ہوا نے تو چلنا ہی ہے۔ شہد کی مکھیوں بارہ ڈگری سے کم درجہ حرارت پر باہر نہیں نکلتیں۔ یہ درخت ان پر بھروسہ نہیں کرتے۔

ہر سال بیج دینے والے درختوں کے بیج زیادہ غذائیت نہیں رکھتے اس لئے انہیں جانوروں کا ڈر نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صنوبر کے کئی درخت اس قدر پولن پیدا کرتے ہیں کہ ہلکی ہوا مین بھی ہر طرف بکھرے ہوتے ہیں۔ جب یہ پورے جوبن پر ہوں تو لگتا ہے کہ دھواں دے رہے ہیں۔ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے جو بڑا اہم سوال ہے۔

یہ درخت خود اپنے آپ سے جنسی عمل، یا اِن بریڈنگ سے کیسے بچتے ہیں اور کیسے اس بات کو یقنی بناتے ہیں کہ اگلی نسل میں جینیات الگ الگ درختوں سے آئیں اور نئی نسل صحت مند ہو؟ یہ کام کرنے کے لئے مختلف قسم کے درختوں کے پاس اپنی اپنی انوکھی حکمت عملی ہے۔ ان حکمت عملیوں کی وجہ سے درختوں میں جینیاتی تنوع ہے اور یہ زندہ اور صحت مند ہیں۔

ساتھ والی تصویر درختوں سے اڑتے پولن کے بادل کی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں