باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 25 جولائی، 2019

دو مختلف اقدار



زمین کا بائیوسفئیر پیچیدہ ترین نظاموں میں سے ہے جن کا سامنا ہمیں کرنا پڑا ہے۔ زمین کی ایکولوجی کی سائنس ابھی نئی ہے اور ابتدا میں ہے۔ اس لئے یہ حیرت کی بات نہیں کہ دیانتدار ماہرین بھی اس بارے میں کچھ فیکٹس پر متفق نہیں۔ لیکن اصل اور گہرا اختلاف اقدار کا ہے۔ جب ہم اقدار کے بارے میں اپنی پوزیشن کے بارے میں خود واضح نہیں ہوتے تو کوئی بھی مفید مکالمہ نہیں کر پاتے۔ دوسروں کو اور خود اپنے آپ کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اقدار کی کسی بھی بحث سے پہلے اقدار کو پہچان لینا ضروری ہے۔  پلانیٹری ایکولوجی کے بارے میں آراء کو (ضرورت سے زیادہ) سادہ کر کے ان کا خلاصہ کیا جائے تو ایک سائیڈ نیچرلسٹ کی ہے۔

اس مکتبہ فکر کے مطابق، قدرت کو سب پتا ہے۔ انسان سب خراب کر دیتے ہیں۔ اس فکر کی اعلیٰ ترین قدر یہ ہے کہ انسان اپنے ہاتھ قدرت کے کاموں سے ہٹا لیں۔ اس میں مداخلت بند کر دیں۔ قدرتی ماحول میں کوئی بھی انسانی تبدیلی ایک برائی ہے۔ تیل سے توانائی حاصل کرنا بُرائی ہے۔ یہاں تک کہ قدرتی صحرا، خواہ صحارا کے ہوں یا سمندر کے، انکو ایسے ایکوسسٹم میں بدلنے کی سوچ جس میں زرافے اور ٹیونا مچھلیاں پھل پھول سکیں، یہ بھی برائی ہے۔ کیونکہ قدرت کو ہی سب پتا ہے۔ ہم اس کو جب بہتر کرنے کی کوشش بھی کریں تو مزید مصیبت مول لیں گے۔ سب کچھ اور خراب کر دیں گے۔ یہ نکتہ نظر بے وزن نہیں۔

ماحول کے لئے کام کرنے والی کئی بڑی تنظیمیں، بہت سے ایکٹیوسٹ، آرگینک اشیاء پر بضد صارف، دیسی مرغی پر اصرار کرنے والے، زرعی ٹیکنالوجی کو مشکوک نظروں سے دیکھنے والے اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ کسی چیز کے برا ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ قدرتی نہیں۔

اس کے مقابلے میں اقدار کا ایک اور مکتبہ فکر ہے۔ اس کی بنیاد اس پر ہے کہ انسان بھی اسی قدرت کا ضروری حصہ ہے، الگ نہیں۔ اپنے ذہنوں کی وجہ سے اس نے صلاحیت حاصل کی ہے اور اس کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لی ہے۔ اس کی وجہ سے انسانوں کا حق بھی ہے اور فرض بھی کہ وہ ماحول کی تشکیل ایسے کریں کہ انسان اور یہ مکمل بائیوسفئیر زندہ رہ سکیں اور پروان چڑھ سکیں۔ اس فکر کی اعلیٰ ترین قدر انسانوں اور قدرت کی ہم آہنگی ہے۔ جبکہ بیماری، غربت، بے روزگاری، بھوک، وہ حالات جو لوگوں سے مواقع مسدود کر دیں اور آزادی چھین لیں، برائیاں ہیں۔ زرعی انقلاب ہو یا صنعتی، ان بڑی تبدیلیوں نے ان برائیوں کو ختم کرنے میں مدد کی ہے۔ سیارے کے ارتقا کو ذمہ داری سے آگے گائیڈ کرنا خود ان برائیوں کو ختم کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔

اقدار کا یہ بنیادی فرق عالمی معاہدوں اور عملی اقدام میں بھی رکاوٹ بن رہا ہے لیکن ان دونوں اقدار کے درمیان ایک بڑا تنازعہ اس وقت جینیاتی انجیرنگ کی ریگولیشن کا ہے۔ نیچرلسٹ قدر رکھنے والوں کے مطابق جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خوراک ہو یا کوئی بھی جینیاتی انجینرنگ کا پراجیکٹ، برا اس لئے ہے کہ یہ قدرتی نظام میں خلل ڈالتا ہے۔ جبکہ اس کے مخالفین کے خیال میں جینیاتی انجینرنگ سے حاصل ہونے والے فوائد غربت اور بھوک کو ختم کر سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ ٹُول بھی دے سکتے ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھنے کو بھی قابو کر سکیں۔

انسان نے اپنی لاعلمی سے ماحول کو خود اپنے لئے اور اس پورے بائئیوسفئیر کو نقصان پہنچایا ہے اور یہ جاری ہے۔ مجموعی رویے میں تبدیلی کرنے کی ضرورت فوری اور انتہائی ضروری ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ لیکن اس کا ایک اور رخ بھی ہے۔ اس کے لئے برطانیہ کے جزیرے کی مثال دیکھی جا سکتی ہے۔ انسان کی آمد سے پہلے یہ بہت بڑی بورنگ جگہ تھی۔ بغیر تنوع کے بالکل یکساں جنگل۔ آج کا برطانیہ زبردست خوبصورتی اور متنوع ایکولوجی رکھتا ہے۔ یہ سب انسانوں کی بنائی ہوئی ہے۔ اس میں جنگل بھی ہے، چراگاہیں بھی، میدان بھی، بیابان بھی، کھیت اور کھلیان بھی۔ اس میں پودوں اور جانوروں کا پہلے سے بہت زیادہ تنوع موجود ہے، جو انسان کی آمد سے قبل نہ تھا۔ اور پھر صرف ایک ہزار سال پہلے انسان یہاں پر خرگوشوں کو لے کر آئے جنہوں نے اس زمین کا نقشہ ہی بدل دیا۔ انہوں نے وہ جگہیں کھولیں جہاں پھولدار پودوں نے قبضہ جمایا۔ برطانیہ میں جگہ زیادہ نہیں ہے لیکن جنگلی پھول اور پرندے، تتلیاں، ہر طرح کا لینڈسکیپ اور ساتھ ہی بہت سے انسان۔ الگ جزیرے میں ان میں سے کچھ بھی نہ ہوتا۔ جسے برطانیہ پر آج قدرتی سمجھا جاتا ہے، وہ اتنا قدرتی نہیں۔ کیا برطانیہ انسانوں سے پہلے بہتر تھا یا ان کے بعد؟ اس کی جانچ کا کوئی معروضی پیمانہ نہیں۔

اس گندھے ہوئے قدرتی نظام میں شہد کی مکھی کی سپیشلائزیشن زرِ گل بکھیرنا ہے۔ ہاتھی کی گوڈی کر کے زمین زرخیز کرنا اور بیج بکھیرنا، شیر اور شارک کی انواع کی تعداد قابو میں رکھنا، درخت کی شمسی توانائی کو کیمیائی توانائی میں بدلنا۔ (ان کو ایکسٹنڈڈ فینو ٹائپ کہا جاتا ہے)۔ اس میں انسان کی سپیشلائزشن عقل ہے۔ اس بائیوسفئیر کی تشکیل میں ہر ایک کا اپنا بڑا حصہ رہا ہے۔ عقل کی صلاحیت سے دو الگ چیزیں پھوٹتی ہیں۔ علم اور انتخاب۔ بائیوسفئیر پر انسان کا تیزی سے بڑھنا اثر، ان دونوں کی اہمیت بھی تیزی سے بڑھا رہا ہے۔ کسی کی اقدار کچھ بھی ہوں، اس پر اختلاف شاید کسی کو نہیں ہو گا۔

نوٹ: ساتھ لگی تصویر میں برطانوی جزائر سے۔ اس منظر میں تمام انواع (نباتات کی کم از کم چار الگ انواع ہیں) یہاں پر انسان کی متعارف کردہ ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں