باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 18 نومبر، 2019

نئی جنگ، نئے باب، نئے محاذ (قسط نمبر آٹھ)



عام خیال یہی تھا کہ سوویت فوج کے لوٹ جانے کے ساتھ ہی نجیب اللہ کی حکومت گر جائے گی لیکن ہفتے گزرے اور گزرتے گئے۔ نجیب اللہ نے کابل کے گرد دفاعی حصار مضبوط کر لیا تھا۔ نجیب اللہ نے بیس ہزار مجاہدین کو اپنی پے رول پر لے لیا تھا۔

سوویت افواج انخلا کے بعد کچھ زیادہ نہیں بدلا تھا۔ سوویت یونین، جو خود اپنے آخری دموں پر تھا، ماہانہ تیس کروڑ ڈالر کی امداد نجیب حکومت کو دے رہا تھا۔ ازبکستان سے طیارے آٹا، دیگر خوراک اور اسلحہ لے کر آتے تھے۔ سی آئی اے کی براہِ راست پے رول پر چالیس افغان کمانڈر تھے۔ جنگ کا ہدف سوویت بے دخلی سے بدل کر “افغانوں کے لئے حقِ خود ارادیت” میں بدل گیا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب اپنی پسند کی حکومت کیلئے کوشاں تھے۔ مجاہدین کیلئے نشانہ افغان حکومت ویسے ہی تھی۔ سب ویسے ہی چل رہا تھا۔

فروری 1989 کو راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں افغان مجاہدین کا اجلاس بڑی جلدی میں بلایا گیا۔ اس “شوریٰ” کو نئی حکومت کا انتخاب کرنے کے لئے اکٹھا کیا گیا تھا۔ اس خوف سے کہ حکمت یار یا مسعود زیادہ طاقت نہ حاصل کر لیں، ان نمائندوں نے کمزور لیڈروں کا انٹخاب کیا۔ کاغذ پر نئی حکومت تیار تھی۔ اب ان کو حکمرانی کے لئے ایک عدد ملک کی ضرورت تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں ایک تبدیلی سویلین حکومت کے آنے سے آ گئی تھی۔ پریس کو کچھ آزادی ملی تھی۔ فیصلہ سازی کے لئے تردد بڑھ گیا تھا۔ پاکستان کی حکومت اور انٹیلیجنس کا افغان سیل چلانے والوں کے آپس میں تعلقات مثالی نہیں تھے۔ ایک دوسرے پر شدید بداعتمادی تھی۔

پاکستان انٹیلیجنس چیف حمید گل نے ایک پلان پیش کیا۔ یہ افغانستان کی مشرقی شہر جلال آباد پر قبضے کا تھا۔ یہ شہر پشاور سے زیادہ دور نہیں تھا۔ حمید گل کا کہنا تھا کہ ایک بار مجاہدین اس کو فتح کر لیں تو نئی حکومت افغانستان کے اندر بنا کر کابل کی طرف پیشقدمی کی جا سکتی ہے۔ آئی ایس آئی اور سی آئی اے کیلئے سپلائی کے ٹرک آپریٹ کرنا بھی بہت آسان ہو جائے گا۔

اسلام آباد میں 6 مارچ کو افغانستان کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے میٹنگ ہوئی۔ اس میں امریکہ کے رابرٹ اوکلے، پاکستان کے سول اور فوجی عہدیداران تھے۔ اس میں کوئی افغان نہیں تھا۔ سوال یہ تھا کہ فروری میں جو حکومت بنائی گئی تھی، کیا اس کو تسلیم کر لیا جائے؟ وزیرِ خارجہ صاحبزادہ یعقوب کا کہنا تھا کہ انہیں پہلے کچھ دکھانا ہو گا۔ یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ محض پشاور میں مرسڈیز اور افغانستان میں گولیاں چلانے والے لوگ نہیں بلکہ حکومت چلانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ اس میٹنگ میں حمید گل نے جلال آباد کا پلان بتایا اور یہ کہ انہوں نے پانچ سے سات ہزار مجاہدین کا بندوبست کر لیا ہے جو شہر کے قریب ہی ہیں۔ ان کو روایتی جنگ کی تربیت دی گئی ہے۔ (مجاہدین کا اس سے پہلے تجربہ صرف گوریلا جنگ میں تھا)۔ حمید گل نے کہا کہ اگر تھوڑے بہت خون خرابے کی اجازت دے دی جائے تو جلال آباد کی فتح میں  ایک ہفتہ بھی نہیں لگے گا اور ان کو پوری امید ہے کہ یہ چوبیس گھنٹے میں ہو جائے گا۔ حمید گل کا کہنا تھا کہ مارکسسٹ کافروں کے خلاف جنگ بندی کبھی بھی نہیں ہو سکتی۔ دارالحرب ختم کر کے اس کو دارالامن بنانا ضروری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیصلہ ہو گیا۔ پشاور میں سروبی روڈ کے علاقے سے درجن بھر افغان کمانڈرز کو بلایا گیا۔ پگڑیوں والے کمانڈر، نیلی جینز والے سی آئی اے کے ایجنٹ اور شلوار قمیض میں پاکستانی آفیسر سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے افغان حکومت کے کانووائے تباہ کرنے کے پلان بنانے لگے۔ ان تمام کمانڈرز کو واپسی کے وقت نئی ٹویوٹا ڈبل کیبن دی گئیں جو اس حملے میں استعمال ہونی تھیں۔ سی آئی اے نے جاپان سے کراچی چند سو ایسی گاڑیاں کچھ ماہ قبل منگوائی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حملہ پلان کے مطابق بالکل نہیں رہا۔ ایک ہفتہ گزرا، دو اور تین۔ حمید گل اتنے ہی پراعتماد تھے کہ جلال آباد پر قبضہ بس کسی بھی روز کی بات ہے۔ جلال آباد سے آنے والے سکڈ میزائل، افغان فضائیہ کی بمباری اور نوجوان افغان فوجیوں کی مشین گنوں سے فائرنگ میں مجاہدین کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔ مئی تک اس میں ہلاک ہونے والوں تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی تھی۔ جلال آباد اور ائرپورٹ نجیب حکومت کے پاس ہی تھے۔ سی آئی اے کا سروبی سڑک بند کرنے کا پلان ناکام ہو گیا تھا۔ نجیب اللہ کا اپنے لئے گئے اقدامات پر اعتماد بڑھ رہا تھا۔ اب وہ انٹرنیشنل پریس کے سامنے بڑے اعتماد سے بات کرتے تھے۔ اس جنگ میں ننگرہار سے بے گھر ہو جانے والے مہاجرین کی ایک نئی لہر پاکستان پہنچنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جلال آباد کے اس حملے نے مسعود اور عبدالحق جیسے کمانڈروں کے ساتھ پاکستانی خفیہ ایجنسی کے تعلقات کشیدہ کر دئے اور مجاہدین کے آپس میں اختلافات میں اضافہ کیا۔ ان کو اس حملے کے بارے میں بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ مسعود کے مطابق نہ صرف اس کی پلاننگ غلط کی گئی تھی بلکہ یہ یک طرفہ افغان پالیسی کا ایک مظاہرہ تھا۔ افغان جہاد کو پچھلے برسوں میں ڈائریکٹ کرنے والے بریگیڈیر یوسف کے مطابق، “جلال آباد وہ جگہ تھی جہاں افغان جہاد دم توڑ گیا تھا”۔ اس ناکامی کے  نتیجے میں حمید گل کو اپنی پوزیشن سے برطرف کر دیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف، مجاہدین کی آپس میں سول وار کی شدت بڑھ رہی تھی۔ 9 جولائی 1989 کو حکمت یار نے کامیابی سے مسعود کی پارٹی پر حملہ کر کے سینئیر کمانڈرز سمیت تیس افراد کو مار دیا تھا۔ جوابی وار میں سینکڑوں لوگ نشانہ بنے تھے۔

پشاور کے جہادی حلقوں میں ایک اور بحث چھڑ گئی تھی۔ مسعود اور حکمت یار میں فرق شخصیات کا تھا، نظریات کا نہیں۔ دونوں نجیب اللہ کو ہٹانا دینی فریضہ سمجھتے تھے۔ سید قطب سے درآمد کی گئی آئیڈیولوجی کا ایک اہم جزو تکفیر تھا۔ جو مسلمان سیدھے راستے سے ہٹ گیا، اس کو کافر قرار دے کر اس کا خون حلال کر دینا۔ خواہ وہ کتنا ہی اپنے آپ کو اسلام کے پردے میں ڈھانپنے کی کوشش کیوں نہ کرے، ایسا شخص حکمران نہیں رہ سکتا تھا۔ پشاور میں سب کا اتفاق تھا کہ نجیب اللہ ایک ایسا ہی حکمران ہے۔ نئی بحث یہ تھی کہ کیا صرف افغانستان؟ کیا صرف نجیب اللہ؟

جلاوطن مصری ریڈیکل الظواہری حسنی مبارک کو ایسا ہی دشمن قرار دے چکے تھے۔ کئی لوگ اس وقت کی پاکستانی وزیرِ اعظم کو بھی ایسا ہی حکمران کہتے تھے۔ کچھ اردن کے شاہ کے بارے میں، کچھ شام کے سربراہ کے بارے میں۔

تکفیر کی اس بحث کے ایک مخالف پشاور کے اس گروپ کے سب سے بااثر لیڈر  فلسطین سے تعلق رکھنے والے عبداللہ عظام تھے۔ وہ تبدیلی کے روایتی طریقے پر یقین رکھتے تھے۔ دوسرا یہ کہ ان کا کہنا تھا کہ فوکس افغانستان پر رہنا چاہیے۔ ابھی یہی بالکل نامکمل پڑا ہے تو مصر اور پاکستان میں جنگ کی باتیں کرنا بے کار ہے۔

عبداللہ عظام کے ایک شاگرد کو ان سے اختلاف تھا۔ اپنے اس ہونہار شاگرد کو وہ ہی یہاں پر لائے تھے۔ یہ شاگرد اسامہ بن لادن تھے۔ عظام نے اپنے داماد کو ایک روز بتایا کہ “میں اسامہ کے بارے میں پریشان ہوں۔ یہ شریف آدمی ایسے انتہاپسندوں کی باتوں میں آ جاتا ہے جن کو افغان کاز سے دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے فکر ہے کہ اگر یہ ان کے ساتھ رہے گا تو اس کا مستقبل کیا ہو گا؟”

عبداللہ عظام کو شاید اپنے مستقبل کی فکر کرنے کی زیادہ ضرورت تھی۔ عبداللہ عظام 24 نومبر 1989 کو نمازِ جمعہ کی امامت کروانے پشاور کی مسجد صبائے لیل جا رہے تھے کہ دروازے کے قریب اپنے دو بیٹوں سمیت بم کا نشانہ بن گئے۔ یہ کس نے کیا؟ یہ حل نہیں ہو سکا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی تنظیم کی قیادت لینے میں اسامہ بن لادن نے عبداللہ بن عظام کے داماد کو شکست دی۔ اس تنظیم کا ریکروٹنگ اور سپورٹ نیٹ ورک ان کے ہاتھ آ گیا۔ اپنی نئی بنائی تنظیم القاعدہ کے ساتھ اس کو ملا لیا۔

اسامہ بن لادن کے ارادے افغانستان سے زیادہ کے تھے۔ انہوں نے فیصلہ لیا تھا کہ کرپٹ حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ انہوں نے افغانستان میں اپنا وقت کم کر دیا۔ ان کے ذہن میں اب نئے دشمن تھے۔

افغانستان کی جنگ کا پودا پھل پھول رہا تھا۔ اس نے نئی سرحدیں پار کرنا تھیں۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں