باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 17 نومبر، 2019

واپسی (قسط نمبر سات)



اگست 1987 میں سوویت طیارے ایس یو 25  کو پاکستانی سرحد کے قریب مار گرایا گیا۔ پائلٹ نے جہاز کو گرنے سے پہلے ہی چھوڑ دیا تھا۔ مقامی لوگوں نے پائلٹ کو پاکستان فوج کے حوالے کر دیا۔ روایت کے مطابق پائلٹ کو سوویت فوج چھوڑ دینے کی امریکہ چلے جانے کی پیشکش کی گئی۔ پائلٹ نے انکار کر دیا۔ اس جنگی قیدی کو سوویت یونین لوٹا دیا گیا۔ جنگ کے اس مرحلے پر کچھ کوئی نیا واقعہ کسی کے مفاد میں نہ تھا۔ کچھ سال بعد اس پائلٹ نے روسی صدر بورس یلسن کے خلاف بغاوت کرنی تھی۔ روس کے مستقبل میں صدر بننے والے الیگزینڈر رٹسکوئی ایک ہفتہ پاکستان میں جنگی قیدی میں رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جینوا میں 14 اپریل 1988 کو معاہدہ کیا گیا۔ پاکستان، افغانستان، سوویت یونین اور امریکہ نے اس پر دستخط کئے۔ سوویت یونین کا انخلا طے ہو گیا تھا۔ اس سے ایک مہینے بعد بارہ ہزار سوویت فوجیوں کے اپنے ساز و سامان کے ساتھ نکل جانے سے انخلا کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ اس بدلتے سوویت یونین میں اب آندرے ساخاروف جیسے لوگ بھی اسمبلی میں تقریر کر سکتے تھے۔ فزکس کے ماہر سائنسدان اور انسانی حقوق کے ایکٹوسٹ نے اس موقع پر کہا، “افغانستان کی جنگ ایک جرم تھا۔ اس کو جرم کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس نے دس لاکھ افغانوں کی جان لی۔ پوری قوم کے اوپر تباہی مسلط کی گئی تھی۔ یہ بھیانک گناہ ہم سب کے کاندھوں پر ہے۔ ہمیں اس شرم کا مقابلہ کرنا ہے۔ اپنے ضمیر کا سامنا کرنا، اس داغ کو دھونا، ہماری قیادت کا امتحان ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا سوویت واقعی جا رہے ہیں؟ ان کے جانے کے بعد کیا ہو گا؟ یہ وہ سوال تھے جن کا جواب تلاش کرنے ایڈمنڈ مک ولیمز کو جنوری 1988 میں افغانستان بھیجا گیا تھا۔ عام تاثر تھا کہ نجیب اللہ کی حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی لیکن مک ولیمز نے ایک اور پہلو دیکھا تھا۔ افغان فوج اور کابل کی شہری آبادی میں بے چینی تھی۔ اس کی وجہ حکمت یار تھے۔ یہاں پر لوگ جتنے بھی غربت اور مسائل کا شکار تھے، کئی طرح کی آزادیاں ان کو حاصل تھیں۔ سرکاری  ملازمتیں موجود تھیں۔ دسیوں ہزار خواتین دفاتر میں کام کرتی تھیں۔ کابل ایک عام شہر تھا۔ اسلامسٹ اگر آ گئے تو زندگی کیسی ہو گی؟ لوگ نجیب اللہ سے نفرت کرتے تھے لیکن حکمت یار سے خوف کھاتے تھے۔

نجیب اللہ کیا سیاسی چالیں چلتے ہیں؟ کس کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوتے ہیں؟ سوویت یونین مدد کیسے جاری رکھتا ہے؟ یہ ابھی نامعلوم تھا۔

جب یہ سوال ریگن کے قومی سلامتی کے مشیر نے کالن پاول نے سی آئی اے کے سربراہ سے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا اندازہ یہ ہے کہ سوویت انخلا مکمل ہونے سے پہلے ہی ڈھیر ہو جائے گی۔ نئی حکومت اسلامی بنیادپرستوں کی ہو گی لیکن ایران جتنی شدت پسند نہیں۔ اس کا مغربی ممالک کے ساتھ کیا رویہ ہوتا ہے، اس کا نہیں کہا جا سکتا۔

البتہ امریکہ کے لئے افغانستان ترجیحات میں خاصا نیچے جا چکا تھا، سرد جنگ کے اس مرحلے پر نیوکلئیر اور عالمی سیاسی توازن جیسے معاملات اہم تھے۔ افغان سیاست کو پاکستان کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ ہتھیاروں کی افغانستان آمد کے پروگرام پر فرق نہیں پڑا تھا۔ اس کا بجٹ پہلے سے منظور شدہ تھا۔ یہ جاری تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستانی صدر اپنی ترجیحات کا صاف اعلان کر چکے تھے۔ “اس جنگ میں سب سے زیادہ کردار پاکستان نے ادا کیا ہے۔ خطرات سے لڑا ہے۔ افغانستان میں دوست حکومت قائم ہونا اب پاکستان کا حق ہے۔  یہاں پر اب انڈیا اور روس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ نئی حکومت اسلامی ہو گی۔ اسلامی نشاةِ ثانیہ کا حصہ ہو گی۔ کسی روز یہ سوویت مسلمانوں تک پھیلے گی”۔

پاکستان میں نئے انٹیلیجنس سربراہ حمید گل تھے۔ وہ اسی پالیسی پر کام کر رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایڈورڈ مک ولیمز مہینوں تک قندھار سے لے کر پاکستان کے قبائلی علاقوں تک کوئٹہ سے کابل تک پھرتے رہے۔ افغان کمانڈروں سے لے کر کاندھے پر قالین اٹھائے سرحد پار کرنے والوں تک وہ ہر ایک سے بات کرتے رہے۔ چمن میں پیڑ کے نیچے چوکڑی مار کر قہوہ پیتے ہوئے اور پشاور میں گھنٹوں افغان لیڈروں سے باتیں کرتے ہوئے ان کو ایک بات مسلسل سننے کو مل رہی تھی۔ پاکستان نے جس گھوڑے پر شرط لگائی تھی، وہ ہر ایک میں ہی نامقبول تھا۔ گلبدین حکمت یار کی شہرت مافیا کے ڈون جیسی تھی۔

پشاور کے یونیورسٹی ٹاوٗن میں سید باہوالدین مجروح کو موٹرسائیکل سوار گولیاں مار گئے تھے۔ یہ شاعر اور فلسفی ظاہر شاہ کی واپسی کے لئے بات چیت کر رہے تھے۔ احمد شاہ مسعود کے سوتیلے بھائی جب پشاور قونصلیٹ میں ویزہ اپلائی کر کے واپس جا رہے تھے تو نامعلوم افراد کا نشانہ بن گئے تھے۔ ٹھیک یا غلط، لیکن احمد شاہ مسعود اس کو برسوں تک آئی ایس آئی کے افغان سیل کا کام کہتے رہے۔ کوئٹہ میں بھی مک ولیمز کو یہی کچھ سننے میں ملا۔

مک ولیمز نے اسلام آباد سفارتخانے پہنچ کر اٹھائیس پیراگراف پر مبنی رپورٹ لکھ کر بھیجی اس کا ٹائٹل “آئی ایس آئی، گلبدین اور افغان حقِ خود ارادیت” تھا۔ یہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، نیشنل سیکورٹی کونسل اور چند کانگریس ممبران کو بھیجی گئی تھی۔
“افغانوں میں اس وقت فرسٹریشن بڑھ رہی ہے اور یہ اس وقت دشمنی میں بدلنے کو ہے۔ اور اس میں ہر نظریے اور پس منظر کے لوگ شامل ہیں۔ یہ پاکستانی حکومت اور امریکی حکومت کے خلاف ہے۔ اس کی شدت زیادہ ہے اور میں نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ زیادہ تر لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان سب کوششوں کے پیچھے پاکستان کا ایک مخصوص گروپ ہے۔ اس میں یقیناً مبالغہ آرائی ہو گی لیکن یہ احساس گہرا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ایک کالونی کی طرح برتاوٗ کیا جا رہا ہے اور اس پر ایک خاص گروپ مسلط کرنے تیاری ہے۔ تاثر یہ ہے کہ اس سکیم کو درِ پردہ امریکہ کی حمایت حاصل ہے”۔

مک ولیمز کے پیغام کو توجہ نہیں ملی (تفصیل نیچے لنک سے)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جنیوا معاہدے کے مطابق 15 فروری 1988 کو بورس گرووموف ترمذ کا پل پار کرنے والے آخری سوویت فوجی تھے۔ عالمی میڈیا اس خبر کو کور کر رہا تھا۔ انہوں نے ٹینک پر یہ پل پار کیا۔ ٹینک روک کر اس سے نکلے۔ ازبکستان میں ان کے بیٹے گلابی پھولوں کا دستہ ہاتھ میں پکڑے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے سرحد پار کرتے ہی سوویت افغان جنگ باضابطہ طور پر ختم ہو گئی۔


افغانستان میں جنگ جاری رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد میں سٹیشن چیف بئیرڈن کا تیسری منزل پر دفتر سوویت سفارتخانے سے نظر آتا تھا۔ ان کی عجیب عادت تھی کہ وہ کبھی اس کی بتی نہیں بجھاتے تھے۔ سفارتی ملاقاتوں میں اپنے سوویت ہم منصب سے مذاق میں کہا کرتے تھے کہ وہ ان کو ہرانے کے لئے بڑی محنت کر رہے ہیں۔ اس روز انہوں نے ہیڈ آفس بڑا ہی مختصر پیغام بھیجا، “ہم جیت گئے”۔ اس روز انہوں نے پہلی مرتبہ نکلتے ہوئے اپنے دفتر کی بتی بجھا دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی رات سوویت وزیرِ خارجہ اپنی خفیہ ایجنسی کے چیف کے ساتھ کابل پہنچے۔ افغان صدر نجیب اللہ اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ڈنر کیا۔ نجیب مجاہدین کا حملہ روکنے کی تیاری اور اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ احمد شاہ مسعود کو وزیرِ دفاع بنانے کی پیش کش کی تھی جو مسترد کر دی گئی تھی۔ انہوں نے پیغام بھیجا تھا کہ یہ وزارت خالی رہے گی اور جب بھی مسعود کا ذہن بنے، بتا سکتے ہیں۔ سپیشل گارڈ فورس کی تنخواہ بڑھا دی گئی تھی۔ شمالی گیس کے ذخائر کے دفاع کا کام نجی ملیشیا کو دیا گیا تھا۔ انہوں نے سوویت یونین سے آنے والوں کو بتایا کہ جو کر سکتے ہیں، وہ کر رہے ہیں۔

کے جی بی بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی جو سی آئی اے کا تھا۔ سوویت یونین کی فوج کے بغیر نجیب زیادہ عرصہ نہیں ٹک پائیں گے۔ اس رات اس کھانے پر شیورناڈزے نے نجیب کو پیش کش کی۔ اگر وہ کابل چھوڑنا چاہیں تو ماسکو میں نیا گھر ان کا منتظر ہو گا۔ نجیب کی بیوی نے جواب دیا، “ہم بھاگ کر لوگوں کی نظروں میں گرنے کے بجائے اپنے گھر کی دہلیز پر قتل کئے جانے کو ترجیح دیں گے۔ ہم اپنے لوگوں کے ساتھ ہی یہیں پر ہے۔ پھر چاہے اچھا ہو، یا برا”۔

ان کے ساتھ اچھا نہیں ہونا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے تین برسوں تک سوویت اور امریکی مدد یہاں جاری رہی۔ سوویت یونین ختم ہو گیا۔ اس سے نکلنے والا روس مشکل وقت سے نکلنے کے بعد اب دنیا میں ایک بڑی پاور ہے۔ سرحد پار کرنے والے آخری سوویت فوجی بورس گروموف بعد میں دو مرتبہ انتخاب جیت کر گورنر رہے۔ نجیب اللہ سب کی توقع سے زیادہ اقتدار میں رہے۔ افغانستان میں امن اس کے بعد کبھی نہیں آ سکا۔

ایڈمنڈ مک ولیمز اور دیگر تفصیلات پڑھنے کیلئے
https://erenow.net/ww/ghost-wars-the-secret-history-of-the-cia-Afghanistan-and-bin-Laden/10.php

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں