باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 19 نومبر، 2019

اتحاد ۔ پرانے اور نئے (قسط نمبر نو)



کئی طرح کی چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ بات کھل کر سامنے آ گئی۔ 7 مارچ 1990 کو افغان فضائیہ کے طیارے اڑے اور اپنے ہی صدارتی محل پر بمباری کی۔ نجیب اللہ کو انہی کے دفتر میں مار دینے کا منصوبہ تھا۔ یہ افغان حکومت کے وزیرِ دفاع شاہ نواز تنئی کے وفادار پائلٹ تھے۔ تنئی کے وفادار فوجی شہر کے شمال کی طرف بڑھنے لگے۔ ان کا پلان شہر کا راستہ باہر انتظار کرنے والی ملیشیا کیلئے کھول دینے کا تھا۔ گلبدین حکمت یار کی یہ ملشیا لشکرِایثار تھی جو پاکستان کی طرف سے تیزی سے آئی تھی۔ اس پلان کی تیاری پچھلے کئی مہینوں میں پسِ پردہ ہوئی تھی۔

شاہ نواز تنئی ہارڈ لائن کمیونسٹ تھے۔ افغان خلقی (کممیونسٹ پارٹی) کے ایک گروہ کی قیادت کرتے تھے۔ شاہ نواز تنئی وہ جنرل تھے، جو کمیونسٹ دور کے ان کئی ظالمانہ حربوں کے ذمہ دار سمجھے جاتے تھے جنہوں نے افغان بغاوت کو ہوا دی تھی۔ یہی وہ جنرل تھے جنہوں نے اسماعیل خان کے سوویت فوجیوں کو قتل کرنے کے جواب میں اپنے ہی ملک کے شہر ہرات میں افغان جنگ سے پہلے مارچ 1979 میں کارپٹ بمباری کر کے شہر میں بڑی تباہی مچائی تھی۔ یہ وہ جنرل تھے جن کی نجیب اللہ سے کشیدگی اس بات پر ہوئی تھی کہ یہ نجیب اللہ کو صلح جو سمجھتے تھے۔ دوسری طرف حکمت یار وہ مجاہد تھے جو معتدل مزاج مجاہدین کو کمیونسٹوں سے زیادہ بڑا خطرہ سمجھتے تھے۔ ان کا آپس میں اتحاد ایک بڑا ہی عجیب اور غیرمتوقع اتحاد تھا۔ حکمت یار نے اعلان کیا کہ وہ اور تنئی مل کر ایک نئی انقلابی کونسل بنا چکے ہیں۔

یہ بغاوت کامیاب نہیں ہوئی۔ امید کے خلاف یہ جلد ہی کچلی گئی۔ حکومت کے وفادار فوجیوں نے باغیوں کا قلع قمع کر دیا۔ شکست دیکھ کر بہت سے باغی فوجی پیچھے ہٹ گئے۔ شہر کا راستہ نہ کھل سکا۔ لشکرِایثار انتظار کرتا رہ گیا۔ تنئی پاکستان آ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکتوبر 1990 کو سی آئی اے سٹیشن کے افغان نیٹورک نے ایک الارم رپورٹ کیا۔ سات سو پاکستانی ٹرک، چالیس ہزار دور تک مار کرنے والے راکٹ لئے پشاور سے نکلے تھے۔ یہاں پر حکمت یار کا پلان کابل پر آرٹلری کے ذریعے بڑا حملہ کرنے کا تھا۔ یہ اس جنگ کا سب سے بڑا آپریشن ہوتا۔ 6 اکتوبر کو ٹامسن پشاور میں دس افغان کمانڈرز سے ملے۔ ان میں مسعود اور عبدالحق بھی تھے۔ امین وردک نے کہا کہ جو کابل میں پلان کیا گیا ہے، وہ جلال آباد سے کہیں بدتر ہو گا۔ بھاری جانی نقصان لوگوں کو مجاہدین کے خلاف کر دے گا۔ موت کی اس بارش سے دو سے تین لاکھ اموات متوقع ہیں۔ ساتھ ہی یہ کہ کامیابی کی صورت میں بھی کوئی کمانڈر یک طرفہ کارروائی سے نکلنے والا یہ حل قبول نہیں کرے گا۔ رابرٹ اوکلے نے آئی ایس آئی کے چیف درانی سے ملاقات کی۔ ٹرک واپس ہو گئے۔ “تنئی دوئم” کے نام سے یہ حملہ کابل پر نہیں ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی وہ وقت تھا جب سعودی عرب سے ایک اور نجی ملیشیا نے جنوبی یمن میں کارروائیاں کیں۔ ان نئے مجاہدین میں سے کچھ یمنی حکومت نے گرفتار کر لئے۔ یمن نے سعودی عرب کو شکایت کی۔ نام اسامہ بن لادن کا بتایا گیا۔

یمن کے اس واقعے پر سرزنش کے علاوہ اسامہ کی ناراضگی کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ 1990 کی خزاں میں عراق نے کویت پر حملہ کیا تھا۔ اسامہ کو امریکی فوج کو بلانے پر اعتراض تھا۔ انہوں نے شاہ فہد سے ملنے کی خواہش کی تھی کہ نئے جہاد کے لئے اپنا پلان پیش کر سکیں۔ ان کی ملاقات وزیرِ دفاع پرنس سلطان سے کروا دی گئی تھی۔ اسامہ نے ساٹھ صفحات پر لکھی گئی ایک تجویز دی تھی کہ وہ صدام حسین کے خلاف گوریلا جنگ کریں گے۔ ان کے پاس یہ کرنے کے لئے ساٹھ ہزار کی فوج بھی موجود ہے اور ہتھیار بھی۔ پرنس سلطان نے کہا کہ وہ ان کے جذبے کی قدر کرتے ہیں لیکن یہ افغانستان نہیں۔ عراقی فوج کے پاس چار ہزار ٹینک ہیں۔ کویت میں غار اور پہاڑ نہیں۔ اگر ایک کیمیائی ہتھیاروں والا میزائل ان پر پھینک دیا گیا تو وہ کیا کریں گے۔ اسامہ نے کہا کہ وہ اپنے ایمان کی طاقت سے لڑیں گے۔ ملاقات ختم ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عراق جنگ کی وجہ سے سعودی عرب کو ایک اور غیرمتوقع مخالفت کا سامنا ان افغان کمانڈرز کی طرف سے کرنا پڑا جن کی وہ برسوں سے مدد کرتا آیا تھا۔ افغان عبوری حکومت کے وزیرِ اعظم سیاف، جو سعودی عرب کے پسندیدہ مجاہد کمانڈر رہے تھے، پشاور میں سعودی عرب کے خلاف عوامی تقاریر کر رہے تھے۔ سعودی عرب نے احمد بادیب کو پشاور بھیجا۔ بادیب سیدھے اس میٹنگ میں پہنچے جہاں پر سیاف کہہ رہے تھے کہ سعودی عرب کیسے اسلام کے ساتھ غداری کر رہا ہے۔ بادیب کہتے ہیں کہ یہ سن کر میرا دماغ گھوم گیا۔ میں نے کہا کہ “تم ہمیں اسلام سکھاوٗ گے؟ تم عراق کے خلاف ہماری حفاظت کرنے آوٗ گے؟ تمہارا تو نام بھی ہم نے ٹھیک کروایا تھا۔ (ان کا نام پہلے عبدالرسول تھا، جس کو سعودی عرب کے کہنے پر عبدالرب رسول کیا تھا)۔ ہم نہ مدد کرتے تو دنیا میں کوئی افغان اسلامی ری پبلک کو بھی نہ جانتا۔ جہنم میں جاوٴ تم، تمہارا خاندان اور افغان”۔

سرد جنگ کے بندھے دھاگوں والا جہادی اتحاد بکھر رہا تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں