باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 20 نومبر، 2019

کابل ۔ فتح کا دن (قسط نمبر دس)

اپنے تاریخ اور جغرافیہ کے قیدی مشرقِ وسطیٰ کے دو ہمسائے ایران اور عراق ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے ہیں۔ اپنے ماضی کے قرض چکانے، سرحد کے جھگڑے نمٹانے کیلئے یہ ایک دوسرے میں اپنی پیدائش کے وقت سے ہی لڑتے آئے ہیں۔ ایک دوسرے کے ملک میں مداخلت کرتے رہے ہیں۔ خوزستان اور شط العرب نے ان کے درمیان امن نہیں آنے دیا۔ 1979 میں ایران میں انقلاب آیا۔ تنازعات نے شدت اختیار کی اور ان کے درمیان ایک بڑی جنگ 1980 میں چھڑ گئی۔ آٹھ سال بعد جب یہ جنگ ختم ہوئی تو پانچ لاکھ افراد اس میں مارے جا چکے تھے۔ اس جنگ پر دونوں ممالک کا آنے والا خرچ دس کھرب ڈالر سے زیادہ تھا۔ جنگ بے نتیجہ رہی تھی۔

ایران عراق جنگ میں خلیجی ممالک نے عراق کو سپورٹ کیا تھا۔ بصرہ کی بندرگاہ بند ہو جانے کے بعد عراق کویت کی بندرگاہ استعمال کرتا رہا تھا۔ کویت عراق مثالی دوستی جنگ ختم ہونے کے بعد مشکل میں پڑ گئی تھی۔ عراق کویت کا چودہ ارب ڈالر کا مقروض ہو چکا تھا۔ اس پر تنازعہ چھڑ گیا۔ عراق کا موٗقف تھا کہ اس نے کویت کا دفاع کیا ہے ورنہ یہ ایران کے قبضے میں چلا جاتا۔ یہ اس کی اپنی جنگ تھی، کویت قرضہ معاف کرے۔ کویت نے انکار کر دیا۔ دوسرا بڑا مسئلہ تیل کی ڈرلنگ کا اور رومیلہ آئل فیلڈ پر تھا۔ اس کے علاوہ عراق کویت کو ڈرلنگ کم کرنے پر زور دے رہا تھا۔ عراق کے مطابق اس کی زیادہ ڈرلنگ کی وجہ سے تیل کی قیمت کم ہونے سے عراق نقصان اٹھا رہا تھا۔ عراق اور کویت کا ایک پرانا سرحدی تنازعہ بھی تھا۔ 1913 میں بننے والی سرحد کی مارکنگ واضح نہیں تھی۔ آخرکار، 2 اگست 1990 کو عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا۔ اس میں دو روز لگے۔ صدام حسین نے کویت کو اپنا انیسواں صوبہ بنانے کا اعلان کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سات ماہ بعد عراقی فوج شکست کھا کر واپس جا رہی تھی۔ 15 مارچ 1991 کو کویتی امیر واپس اپنے ملک میں آ گئے۔ عراق کا جنگی سازوسامان اتحادی فورسز کے پاس تھا۔ سوال یہ تھا کہ اس کا کرنا کیا ہے۔ اس کا جواب "افغانستان" تھا۔

عراق جنگ ختم ہونے کے بعد عراقی فوج سے بہت سا اسلحہ ضبط کیا گیا۔۔ ٹی 51 اور ٹی 72 ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، توپیں، گولہ بارود ۔۔ یہ کویت سے کراچی بھیجا جاتا اور یہاں سے افغانستان کے پکتیا صوبے پہنچتا۔ جلال الدین حقانی، حکمت یار اور عرب مجاہدین عراق فوج کے اسلحے سے لیس ہو گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب سعودی عرب اور امریکہ دونوں ان گروپس سے کنارہ کش ہونا چاہتے تھے، پاکستان کیلئے کوئی اور آپشن نہیں تھی۔

سعودی عرب کا ایک اور پروگرام جو 1979 میں مسجد الحرام کے قبضے کے بعد لئے جانےوالے اقدامات سے شروع ہوا تھا، اس کے نتیجے میں قائم کردہ فنڈ یہاں پہنچ رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نئی مدد اور ہتھیاروں سے لیس مارچ 1991 میں مجاہدین نے خوست کا علاقہ فتح کر لیا۔ اس فتح پر آئی ایس آئی چیف درانی اور قاضی حسین احمد سرحد پار کر کے خوست گئے اور جلسے میں فاتحانہ تقریر کی۔ نجیب اللہ کی فوج کو دی جانے والی یہ پہلی شکست تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوویت یونین میں گورباچوف کا تخت 19 اگست 1991 کو الٹا دی گیا۔ چند ہفتوں میں کمیونسٹ پارٹی ختم ہو گئی۔ سٹالن کی دہشت سے قائم کردہ ریاست اب تحلیل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ 13 ستمبر کو امریکہ نے فیصلہ کیا کہ اس کے ساتھ ہی وہ اپنا اس خطے میں لگایا جانے والا بجٹ ختم کر رہا ہے۔ 25 دسمبر 1991 کو سوویت یونین کی تحلیل کے بعد افغانستان کو ملنے والی تمام سوویت امداد ختم ہو گئی۔ 31 دسمبر 1991 کو امریکہ باقاعدہ طور پر افغانستان سے الگ ہو گیا۔

بارہ سال پہلے پولٹ بیورو نے افغانستان میں کمیونزم کے دفاع کے لئے فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بارہ سال پہلے برژینسکی نے کارٹر سے کمینونزم کے خلاف آپریشن کے لئے فنڈ منظور کروایا تھا۔ بارہ سال بعد ان دونوں سپر پاورز نے افغانستان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ افغان جنگ جاری تھی۔

افغانستان سے سینکڑوں ٹن ہیروئن اب کراچی کی طرف جایا کرتی تھی جہاں سے یہ دنیا بھر میں پھیلا کرتی۔ اس کی پیداوار کولمبیا اور برما سے بھی زیادہ ہو چکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نجیب اللہ کو مستقبل سامنے نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے ٹی وی پر تقریر کی کہ وہ حکومت چھوڑنے کو تیار ہیں۔ ان کی جگہ پر اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں جو بھی حکومت بنا لی جائے، وہ اقتدار اس کو منتقل کر دیں گے۔ ان کی استعفیٰ دینے کی یہ پیش کش سنی ان سنی ہو گئی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپریل 1992 میں کابل کے جنوب میں گلبدین حکمت یار کی افواج چارسیاب کے علاقے میں تھیں۔ قبضے کی تیاری مکمل تھی۔ کمیونسٹ حکومت شکستہ حال تھی۔ ایک دھڑا حکمت یار کے آگے ہتھیار ڈالنے کو تیار تھا، دوسرا مسعود کے آگے۔ صحافی بھی چارسیاب میں پہنچ چکے تھے۔ ایک پرانی جنگ ختم ہونے کو تھی۔ اگلا روز مجاہدین کی فتح کا دن تھا۔

اس سے پہلے پشاور میں معاملات طے کرنے کی کوشش ہوئی تھی۔ حکمت یار اور مسعود کی مفاہمت کروانے کیلئے کوشش کی گئی تھی۔ آدھا گھنٹا جاری رہنے والی کال میں مسعود نے کہا تھا کہ "انجنئیر صاحب، کابل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ہم سب کئی سال ایک ہی دشمن سے لڑے ہیں۔ کیوں نہ اس میں اکٹھے ملکر داخل ہوں؟" لیکن حکمت یار کا یہ پلان نہیں تھا۔ انہوں نے بہت عرصہ اس کا انتظار کیا تھا۔ محنت کی تھی۔ فتح سامنے تھی۔ اب اس آخری مرحلے میں وہ کسی اور کو اس میں شریک کیوں کرنے کی کوئی تُک نہیں تھی۔ وہ کابل کی وزارتِ داخلہ سے پہلے ہی ہتھیار ڈلوانے کا طے کر چکے تھے۔

اس رات حکمت یار نے عشاء کی نماز پڑھائی تو سورہ النصر کی تلاوت کی۔ بس اب ایک جیتی ہوئی جنگ کی آخری کارروائی مکمل کرنی تھی۔ عرب صحافی لکھتے ہیں، "ایک خوشی کا سا سماں تھا۔ حکمت یار جوش میں تھے۔ ہر کوئی خوش تھا۔ صبح کی تیاری تھی۔ میرا کیمرہ ریڈی تھا۔ کل ایک فاتح ٹیم کے ساتھ کابل میں داخل ہونا تھا۔ افغان سونے سے پہلے اپنے وائرلیس بند کر دیتے ہیں۔ ہم سب سو گئے۔ اگلی صبح اٹھے تو فجر کی نماز حکت یار نے بہت لمبی پڑھائی۔ دیر تک دعا مانگتے رہے۔ جیسے ایک لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد منزل سامنے ہو۔ وائرلیس آن کیا۔ بری خبروں کا سیلاب تھا"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسعود کو اندازہ ہو چکا تھا کہ حکمت یار مفاہمت کا ارادہ نہیں رکھتے۔ مسعود نے وار پہلے ہی کر دیا تھا۔ کابل ائیرپورٹ پر ان کے آگے کمیونسٹ پارٹی کے گروپ نے ہتھیار ڈال دئے تھے۔ عبدالرشید دوستم، جنہوں نے حال میں ہی مسعود کے ساتھ اتحاد بنایا تھا، کی ازبک افواج ائیرپورٹ پر ٹرانسپورٹ طیاروں کے ذریعے لینڈ کر چکی تھیں۔ کابل کی اہم عمارتوں پر ایک ایک کر کے قبضہ کر لیا گیا تھا۔ حکمت یار نے جلدی جلدی کچھ عمارتوں پر قبضہ کیا لیکن مسعود کی پوزیشن بہت بہتر تھی۔ حکمت یار کی قبضہ کی گئی عمارتوں کے گرد بھی گھیرا ڈال لیا گیا۔

کابل کی شاہراہوں پر جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ نجیب کی وفادار افواج ابھی مقابلہ کر رہی تھیں۔ صدارتی محل کے میدان میں آگ لگی تھی۔ نجیب نے بھاگ کر اقوامِ متحدہ کے دفتر میں پناہ لی۔ نجیب صدر نہیں رہے تھے۔ قید میں تھے۔ کابل فتح ہو گیا۔ خود حکمت یار کو چارسیاب سے نکلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمال سے مسعود ٹینک پر سوار فاتحانہ انداز میں کابل داخل ہوئے۔ اس رات سینکڑوں مجاہدین نے ہوائی فائرنگ کر کے خوشی منائی۔ جلد ہی ان بندوقوں کا رخ افغانوں پر ہو گیا۔  پنجشیری فورس اور دوستم کی ملیشیا نے حکمت یار کے آدمیوں کو ایک ایک کر کے نکال دیا۔ شدید غصے اور مایوسی میں حکمت یار نے اندھا دھند کابل پر میزائل برسانا شروع کر دئے۔ انہیں اگلے کچھ روز میں ہی جنوب کی طرف فرار ہونا پڑا۔ یحییٰ مسعود کے مطابق، "حکمت یار اور ان کے حامیوں کی جلال آباد، تنئی بغاوت، دوسری بغاوت کے بعد کابل میں ہونے والی یہ چوتھی شرمناک شکست تھی۔ شطرنج کھیلنے والوں کو انہی کے اپنے کھیل میں شاہ مات ہو گئی"۔  

 کابل کی یہ فتح ایک پچھلی بدترین جنگ کا آخری دن تھا۔ کابل کی یہ فتح ایک اگلی بدترین جنگ کا پہلا دن تھا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان میں 1992 تک ذاتی ہتھیاروں کی تعداد پاکستان اور انڈیا میں کُل ملا کر ہتھیاروں سے زیادہ تھی۔ سوویت یونین سے آنے والے اسلحے کی مالیت 36 سے 48 ارب ڈالر کے درمیان تھی۔ 6 ارب سے 12 ارب ڈالر کے ہتھیار امریکہ اور سعودی عرب کی طرف سے آئے تھے۔ اس وقت کابل میں پانچ لاکھ افراد اقوامِ متحدہ کی بھیجی امداد پر گزارہ کر رہے تھے۔ دیہاتوں میں کئی ملین افغان غذائی قلت کا شکار تھے۔ جنگ، تشدد، بدامنی جاری تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کابل رہنے کیلئے خطرناک جگہ بن چکی تھی۔ افغانستان میں سفیر ٹامسن نے آخری جاتے وقت آخری مراسلہ 18 دسمبر 1992 کو لکھا کہ افغانستان کو اس طرح بالکل چھوڑ دینا ایک غلطی ہے۔ امریکہ کا کابل سفارت خانہ اگلے نو سال بند رہا۔ یہ 2001 کے آخر میں دوبارہ کھلا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کابل کی فتح کے اس دن کو ہر سال 28 اپریل کو “سالروز پیروزی مجاهدین” (مجاہدین کی فتح کا دن) کے طور پر افغانستان میں منایا جاتا ہے۔ تاریخ کے اس واقعے کو یاد کرنے کیلئے کہ ستائیس برس پہلے اس روز کابل فتح ہوا تھا، 28 اپریل کو افغانستان میں عام تعطیل ہوتی ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں