باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 20 نومبر، 2019

دو نوجوان ۔ (قسط نمبر گیارہ)


دونوں میں بہت سی چیزیں مشترک تھیں لیکن دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ دونوں پاکستانیوں کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ بڑے اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ افغان سرحد کے قریب رہائش تھی۔ محنتی والدین کی اولاد تھے۔ دونوں کو ایسے مبلغین کی صحبت ملی تھی جو شدت سے امریکہ مخالف تھے۔ دونوں کو ان کے والدین نے انہیں امریکہ بھیجا تھا۔

فلسطین اسرائیل تنازعے کا بھی غصہ اور عراق امریکہ جنگ کا بھی۔ دونوں، الگ الگ، ایک ہی نتیجے پر پہنچے۔ اسکا بدلہ لینا ان کے لئے ضروری ہے۔ کیوں نہ چند لوگ ہی مار دیئے جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میر ایمل کاسی کی عمر اٹھائیس برس تھی۔ ان کے والد کے کوئٹہ کے قریب ہوٹل اور باغ تھے۔ والد کی دوسری بیوی سے واحد اولاد تھے۔ والدہ کا انتقال جب ہوا تھا تو ان کی عمر انیس برس تھی۔ بلوچستان یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز 1989 میں مکمل کیا تھا۔ پہلے جرمنی اور پھر امریکہ پہنچے۔ اکیلے گھر سے دور ورجینیا میں ان کا وقت سی این این پر خبریں سنتے گزرتا تھا۔ اپنے روم میٹ کو انہوں نے بتایا تھا کہ وہ کچھ بڑا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے سی آئی اے کے دفتر پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ان کی رہائش سے زیادہ دور نہیں تھا۔ ورجینیا کی ایک گن شاپ سے اے کے 47 رائفل اور گولیاں خریدیں اور ساتھ پاکستان واپسی کا ٹکٹ۔  گاڑی میں سی آئی اے کے دفتر تک پہنچے۔

یہ 25 جنوری 1993 کی سرد صبح تھی۔ کاسی نے اپنی گاڑی سڑک کے بائیں طرف کھڑی کی۔ اس سڑک سے روز کا گزر تھا، انہیں پتا تھا کہ بائیں لین والی گاڑیاں دفتر کو جاتی ہیں۔ ایک شخص اپنی فاکس ویگن گالف میں دفتر پہنچ رہا تھا۔ اس کو گاڑی کے شیشے سے گولی مار دی۔ پھر قریب آ کر اس کو تین مرتبہ مزید شوٹ کیا۔ جب اٹھائیس سالہ فرینک ڈارلنگ کو قتل کیا جا رہا تھا، ان کی بیوی اس وقت ان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھیں۔ اس کے بعد چار اور لوگ تھے جن کو گولیاں ماریں۔ ان میں سے ایک 66 سالہ ڈاکٹر تھے، جن کا انتقال ہو گیا۔ باقی تین زخمی ہوئے۔ اس سے فارغ ہو کر ایمل کاسی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر کچھ میل دور جا کر ایک پارک میں رکے۔ ڈیڑھ گھنٹہ وہاں رکنے کے بعد اپارٹمنٹ واپس آئے، رائفل صوفے کے نیچے رکھی۔ ایک ہوٹل چلے گئے۔ رات وہاں گزارنے کے بعد فلائٹ پکڑ کر پاکستان آ گئے اور غائب ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے نوجوان چوبیس سالہ عبدالباسط تھے، جو رمزی یوسف کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے والد انجینیر تھے جو کویت میں ملازمت کرتے رہے تھے۔ تمام عمر کویت میں رہنے والے یوسف عربی، بلوچی، اردو اور انگریزی زبانیں جانتے تھے۔ جب یہ ٹین ایجر تھے تو عبداللہ عظام کے پیغامات کویت کی مساجد، کیسٹ اور پمفلٹ کی صورت میں پھیل رہے تھے۔ پڑھنے کے لئے ان کو والد نے برطانیہ بھیجا جہاں سے انہوں نے الیکٹریکل انجینرنگ میں ڈگری لی۔ ان کے ماموں خالد شیخ محمد تھے جو افغان جہاد کا حصہ سیاف گروپ کی طرف سے تھے اور بعد میں گیارہ ستمبر کو جہاز اغوا کر کے عمارتوں سے ٹکرانے کے واقعے کے پلانر کے طور پر شہرت پائی۔

صدام حسین نے کویت پر 2 اگست 1990 کو حملہ کیا۔ یوسف کی فیملی کو بھاگ کر کوئٹہ آنا پڑا۔ والدین ان کی شادی کرنا چاہتے تھے۔ ان کی دلچسپی جہاد سے تھی۔ ان کے دو چچا افغان جہاد میں اپنی جان گنوا چکے تھے۔

ان کے ایک اور چچا نے انکو پشاور میں جہادی دنیا سے متعارف کروا دیا۔ یوسف نے خالدین کے نام سے چلنے والے ٹریننگ کیمپ میں چھ ماہ تربیت حاصل کی۔ یہ کیمپ عربوں کے لئے خاص تھا۔ یہاں پر ہتھیاروں کا استعمال، دھماکہ خیز مواد تیار کرنا اور فوجی حربے سیکھے۔ اس کیمپ میں پچاس سے ساٹھ لوگ تربیت حاصل کر رہے تھے، جس کے بعد انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں واپس جانا تھا۔ یوسف ایک ذہین طالبعلم تھے۔ ان کو اس کیمپ سے گریجویشن کے بعد اگلا تربیتی کیمپ مل گیا جو بم بنانے کا تھا۔ اس میں وہ کورس تھا جو پاکستانی انٹیلیجنس نے کسی اور مقصد کے لئے ڈیزائن کیا تھا۔ گوریلا جنگ میں سبوتاژ مشنز میں ٹائمنگ ڈیوائس اور پلاسٹک ایکسپلوسو جو سی آئی اے فراہم کرتا رہا تھا، یہاں پر اس کی تربیت دی جاتی تھی۔ اس کے کچھ عملی تجربات افغانستان میں کئے اور پھر واپس آ گئے۔

سمتبر 1992 کو یوسف جعلی عراقی پاسپورٹ پر نیویارک پہنچ گئے۔ یہ پاسپورٹ پشاور سے سو ڈالر کے عوض حاصل کیا تھا۔ ان کے ہمراہ احمد عجاج تھے، جن کے سامان میں بم بنانے کے لئے مواد بھی تھا اور مینوئل بھی۔ نیویارک میں انہوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا انتخاب کیا۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ بم کو کس طریقے سے بنایا جائے کہ ٹوئن ٹاورز میں سے ایک کی وسطی بیم تباہ ہو جائے اور 110 منزلہ عمارت دھڑام سے گر سکے۔ انہیں امید تھی کہ ایک ٹاور گرتے وقت دوسرے کو ساتھ لے کر گرے گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو ان کا خیال تھا کہ اڑھائی لاکھ اموات ہو سکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکہ پہنچ کر اس ڈھیلے ڈھالے نیٹ ورک کے اگلے کرداروں سے رابطہ کیا جو عمر عبدالرحمٰن کے پیروکار تھے۔ آنے سے پہلے ان سے رابطہ فون پر ہوا تھا۔

ایمل کاسی کے حملے کے ایک ماہ بعد 26 فروری 1993 کو رمزی یوسف اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ دو گاڑیوں کے اس قافلے میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی انڈرگراوٗنڈ پارکنگ میں پہنچے۔ اس گاڑی میں الیکٹرانک ٹائمر کے ساتھ بم نصب تھا۔ اس کو یہاں کھڑا کر کے دوسری گاڑی میں بیٹھے اور نکل گئے۔ جب دوپہر بارہ بج کر اٹھارہ منٹ پر بم پھٹا تو ساتھ کیفے ٹیریا میں ہونے والی ہلاکتوں کے علاوہ ایک ہزار لوگ زخمی ہوئے۔ چار سو ڈالر میں بننے والے اس بم نے پچاس کروڑ ڈالر کا نقصان کیا تھا۔ اس رات پی آئی اے کی فلائٹ میں سوار ہوئے، کراچی پہنچے اور غائب ہو گئے۔

رمزی یوسف نے نیویارک کے اخباروں کو خط بھجوایا۔ اس میں لکھا گیا تھا کہ یہ “لبریشن آرمی، پانچویں بٹالین” کی طرف سے ہے اور امریکہ سے تین سیاسی مطالبات کئے۔ “اسرائیل کو دی جانے والی مدد کا خاتمہ، اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنا اور مشرقِ وسطٰی کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنا”۔ اس میں مزید لکھا کہ لبریشن آرمی کے ڈیڑھ سو فوجی مزید حملوں کے لئے تیار ہیں اور وہ جان دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔

ایک دہشت گرد جس نے افغانستان میں تربیت پائی ہو، اس کے لئے یہ خط عجیب اس لئے تھا کہ مطالبات سیکولر تھے اور سیاسی تھے۔ کسی فلسطینی مارکسسٹ کے مطالبات بھی ایسے ہی ہوتے۔ رمزی یوسف کا تھیولوجی سے خاص تعلق نہیں تھا۔ وہ بڑے دھماکے اور تباہی دیکھنے کے شوقین تھے۔ افغانستان میں تربیت بھی اسی کی ہوئی تھی۔ بعد میں رمزی یوسف کا لکھا جو خط ان کے ساتھی سے ملا، اس میں ان کی فرسٹریشن جھلک رہی تھی،”بدقسمتی سے ہماری کیلکولیشن بہت ایکوریٹ نہیں تھیں۔ لیکن ہمارا وعدہ ہے کہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو اگلی بار ہم اس ٹاور کو گرا کر دکھائیں گے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دہشت گردی اس وقت تک دنیا کی ترجیحات میں بہت نیچے تھی۔ کسی بھی دوسرے جرم کی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک بحث یہ جاری تھی کہ سی آئی اے کا کردار کیا ہے؟ اس ایجنسی کا پہلا اور سب سے بڑا فوکس سوویت یونین رہا تھا۔ کہیں کوئی نیوکلئیر خطرہ تو نہیں؟ نئے جنگی ہتھیاروں کی کیا صورتحال ہے؟ اس طرح کے سوالات اب اہم نہیں رہے تھے۔ اس ادارے کا بجٹ سمٹ چکا تھا۔ ایجنٹ ریٹائر کئے جا رہے تھے۔ نئی دنیا میں اس کا کردار واضح نہیں تھا۔

مارچ 1993 میں ہونے والے آلڈرچ ایمز کے سکینڈل کی شہہ سرخیوں کے بعد ایجنسی کی اہلیت سوالیہ نشان تھی۔ ایجنسی کے اپنے اندر ایک شخص سوویت یونین سے ملا رہا تھا۔ انہیں ایجنٹوں کی نشاندہی تک کر کے دیتا رہا تھا۔ تیس سال تک اپنے ساتھ بیٹھے اس شخص سے ایجنسی بے خبر رہی تھی۔ کسی نے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا سرد جنگ ختم ہو جانے کے بعد ایسی نااہل ایجنسی کے ہونے جواز بھی ہے یا نہیں۔ 

اس پسِ منظر میں یہ دونوں کیس حل کرنے کا کام اس ایجنسی کے پاس آیا۔ نیم منظم، ڈھیلے ڈھالنے نیٹورک والے، ایسے کردار کسی کے لئے بھی ایک نیا چیلنج تھا۔ نئے کردار، نئے طریقہ کار، نئی  جنگیں، ان دو نوجوانوں کے یہ عمل نئی دنیا کے نئے مسائل تھے۔ یہ آنے والی ایک نئی لہر کا پیش خیمہ تھے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ والی تصویر رمزی یوسف ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے کئے گئے دھماکے کے بعد کی ہے۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں