باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 21 نومبر، 2019

طالبان کی آمد (قسط نمبر تیرہ)

سوویت جا چکے تھے۔ کمیونسٹ حکومت گر چکی تھی۔ افغانستان بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو گیا تھا۔ حکمت یار اپنے بڑے ذخیرے سے سینکڑوں راکٹ کابل پر برسایا کرتے تھے۔ ہزاروں لوگ ان سے ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ پرانے مجاہد کمانڈر نئے اتحاد بناتے تھے، پھر ان کو بدل لیتے تھے۔ کابل کی شاہراہوں پر توپ خانے سے لڑائیاں لڑی جاتی تھیں۔ شہر لسانی اور نظریاتی دھڑوں میں بٹا ہوا تھا۔ شیعہ حکمت یار کے خلاف لڑتے تھے، پھر  سائیڈ بدل کر مسعود سے لڑنے لگتے تھے۔ سیاف کی فوج اپنے پرانے حلیف ربانی کے ساتھ ملکر شیعہ آبادی پر غضبناک حملہ کرتے۔ بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو قتل کیا جاتا۔ دوستم کے فوجی شہر کے باہر خواتین کی بے حرمتی کرتے۔ مسعود کے فوجی شہر کے شمال اور جنوب میں جھڑپوں میں لگے رہتے۔ شہر میں بجلی کا نظام 1993 میں ناکام ہو چکا تھا۔ سڑکیں بند ہو چکی تھیں، خوراک کی سپلائی گھٹ رہی تھی، بیماریاں پھیل رہی تھیں۔ اس سال کے آخر تک کابل شہر میں دس ہزار لوگ تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔


کابل سے باہر بھی افغانستان جرائم پیشہ گروہ، سڑکوں پر ناکے لگائے بھتہ خور اور لاقانونیت کا نام تھا۔ اس نے قندھار سے ایک نئی طاقت کو جنم دیا۔ اس نئی لیڈرشپ کی کوئی قبائلی شناخت نہیں تھی۔ یہ 1994 کے موسمِ گرما میں ابھری تھی۔ ان کو مقامی کاروباری لوگوں نے اڑھائی لاکھ ڈالر سے اس کو فنڈ کیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو یہاں پر دندناتی ملیشیا سے ہتھیار رکھوانا چاہتے تھے۔

حشمت غنی احمدزئی کا ٹرانسپورٹ اور مینوفیکچرنگ کا کاروبار تھا اور وہ سامان کو پاکستان اور سنٹرل ایشیا کے درمیان لے جایا کرتے تھے۔ یہ احمد زئی قبیلے کے لیڈر بھی تھے اور طالبان کے کئی لیڈروں سے واقف تھے۔ انہیں طالبان کا سادہ پلان بہت پسند آیا تھا۔ “مجاہدین کمانڈروں نے مل لوٹا ہے۔ جرائم عروج پر ہیں۔ کوئی محفوظ نہیں۔ ہم ملک کو اکٹھا کریں گے، بادشاہ کو واپس لائیں گے۔ ملک میں قومی یک جہتی ہو گی اور لویا جرگہ کے عمل سے ملک پھر ایک ہو جائے گا” احمدزئی نے ان کو پوری سپورٹ دے دی۔

طالبان کے ایک اور حامی کرزئی تھے۔ قندھار کے معزز اور بااثر لیڈر، جو پوپلزئی تھے۔ احمد شاہ درانی کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے۔ ان کی سپورٹ سے افغانوں کو سگنل گیا کہ یہ نئی ملیشیا وسیع بنیاد پر ملک کو اکٹھا کر سکتی ہے۔ امن قائم کر سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبدالاحد کرزئی خاندان کے سربراہ تھے۔ انہوں نے اور ان کے بیٹے حامد نے سوویت مزاحمت میں اپنا حصہ صبغت اللہ مجددی کے گروپ کی طرف سے لیا تھا۔ وہ گروپ میں کوآرڈینیٹر تھے اور دوسرے ممالک کے ساتھ اور دوسری گروہوں کے ساتھ بات چیت کا کام کرتے تھے۔ حامد ایک ایسے شخص تھے جو ہر ایک سے معاملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ مخالف لوگوں کو اکٹھے میز پر لا سکتے تھے۔ کابل کی حکومت میں ان کو نائب وزیرِ خارجہ بنایا گیا تھا۔

مسعود کی حکومت کے سیکورٹی چیف محمد فہیم سے ان کا تصادم ہوا تھا۔ فہیم کو اطلاع ملی تھی کہ حامد آئی ایس آئی کی طرف سے کام کر رہے ہیں۔ فہیم، جو مسعود کے قریبی اور ایک پنج شیری تھے، انہوں نے حامد کرزئی کو کابل میں ان کے گھر سے اٹھوا لیا۔ نائب وزیرِ خارجہ کو تفتیش کے لئے لے جایا گیا۔ کئی گھنٹوں بعد وہاں سے مار کھا کر، خراشیں جسم پر لئے اور خون آلود چہرے کے ساتھ نکلے تھے۔ بس پکڑ کر جلال آباد گئے۔ ایک رشتہ دار کے گھر ٹھہرے اور اگلے روز خیبر پاس پار کر کے پاکستان چلے گئے۔ وہ پھر سات سال تک کابل واپس نہیں آئے۔

جب طالبان کی اس تحریک کا سنا تو کرزئی ان میں سے کئی لوگوں کو جانتے تھے۔ انہوں نے اپنی طرف سے پچاس ہزار ڈالر اس نئی تنظیم کو عطیہ کئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد عمر، جنہوں نے عالمی معاملات پر گہرا اثر چھوڑا، ان کے پسِ منظر کا زیادہ معلوم نہیں۔ قندھار سے باہر نہیں گئے تھے۔ کبھی ہوائی جہاز پر نہیں بیٹھے تھے، کبھی کسی ہوٹل میں نہیں سوئے تھے، کبھی سیٹلائیٹ ٹیلیویژن نہیں دیکھا تھا۔ پشتو اور عربی لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے۔ سوویت جہاد میں مولوی یونس خالص کے دھڑے میں سب کمانڈر کے طور پر کام کیا تھا۔ 90 کی دہائی کے آغاز میں ایک چھوٹے گاوٗں سنگِ سر میں امام مسجد تھے۔ 75 خاندانوں پر مشتمل یہ گاوٗں قندھار سے بیس میل دور تھا۔ ایک مخیر تاجر حاجی بشیر نے یہاں مدرسہ بنوایا تھا۔ وہاں پر پڑھایا کرتے تھے۔

ان کو طالبان کا سربراہ اس لئے چنا گیا تھا کہ ان کو ذاتی پاور سے دلچسپی نہیں لگتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ “طالبان سادہ نوجوان ہیں جو زمین پر خدا کا قانون نافذ کریں گے اور اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ طالبان لڑیں گے جب تک کہ کوئی ان سے لڑنے والا باقی نہ بچے اور صرف اسلام کا طریقہ رائج ہو گا”۔

جب طالبان قندھار سے 1994 سے اٹھے تو یہ ایک ایسا گروپ تھا جس کے ذریعے ہر کوئی اپنی اپنی خواہشات کو پورا ہوتے دیکھتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے تھے۔ بے نظیر بھٹو واپس وزیرِاعظم منتخب ہوئی تھیں۔ ملک میں غربت تھی، خواندگی کی شرح کم تھی، قدرتی وسائل نہیں تھے لیکن ملک میں مضبوط بزنس کلاس تھی، بین الاقوامی بندرگاہ تھیں اور ملک میں برآمدات بڑھ رہی تھیں۔ ملک کے مشرق میں انڈیا اور پرانا تنازعہ تو ویسا ہی تھا۔ البتہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد نئے مواقع مغرب اور شمال میں نظر آ رہے تھے۔ وسطی ایشیا میں نئی آزاد ہونے والی ریاستوں سے تعلقات بنائے جا سکتے ہیں؟ کیا یورپ اور ایشیا کی تجارت کے درمیان ایک نیا سلک روٹ بن سکتا ہے؟ پاکستان سے ٹی وی اور واشنگ مشین ٹرکوں پر لدے وسطی ایشیا جائیں۔ کپاس اور تیل پاکستان آئے۔

لیکن جب نقشہ دیکھیں تو درمیان میں افغانستان آتا تھا۔ بدامنی اور وار لارڈز سے بھرا ہوا۔ احمد شاہ مسعود کی حکومت پر اعتماد نہیں تھا۔ اس کو انڈیا نواز سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان اب کیا کرے؟ اس میں ایک انٹر ایجنسی گروپ بنایا گیا۔

وزیرِ اعظم، وزیرِ داخلہ نصیر اللہ بابر، عسکری قیادت کی میٹنگ میں کئی ممکنات پر غور ہوا۔ نصیراللہ بابر نے سوال کیا کہ ہمیں کابل ہی کیوں چاہیے؟ جنوبی راستے سے بھی وسطی ایشیا پہنچا جا سکتا ہے۔ ہرات اور قندھار سے گزرا جا سکتا ہے۔ یہاں سڑکیں، ٹیلی فون لائینیں اور انفراسٹرکچر بنایا جا سکتا ہے۔ کابل اور شمالی علاقے کے دردِ سر سے بچ جائیں گے۔ اس آئیڈیا پر سب نے اتفاق کر لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سپن بولدک میں مسعود کا ایک کمانڈر وفاداری بدل کر ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ طالبان کو دے چکا تھا۔ یہ سترہ سرنگوں میں موجود ذخیرہ تھا جو سعودی عرب اور پاکستان سے آنے والے ہتھیاروں کے لئے تھا اور یہاں پر دسیوں ہزار فوجیوں کو مسلح کرنے کے ہتھیار تھے۔

طالبان نے اکتوبر کے وسط میں اس کو حاصل کر لیا۔ مقامی مدرسوں میں لوگوں کو ساتھ ملانے کے لئے اعلانات کر رہے تھے۔ قندھار میں ملا نقیب اللہ کی پھیلائی دہشت کئی سال سے بلا روک ٹوک جاری تھی۔ طالبان نے صرف چوبیس گھنٹے میں اس شہر پر قبضہ کر لیا۔ نقیب اللہ اور ان کے اتحادی مقابلہ کئے بغیر ہی نکل گئے۔

نومبر کے وسط تک طالبان کی چھ ممبر شوریٰ نہ صرف قندھار پر بلکہ ائیر پورٹ پر بھی قابض تھی جہاں سے ان کے پاس چھ مگ 21 لڑاکا طیارے اور چار ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر بھی ہاتھ لگ چکے تھے۔ ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بھی اب ان کے اسلحے کا حصہ تھیں۔ غیرطالبان ملیشیا سے ہتھیار لے لئے گئے۔ راستے کھل گئے۔

کیا یہ نیا گروپ پاکستان کے لئے تجارتی راستے کھول سکے گا؟ نئی امید تھی، نئی پیچیدگیاں بھی۔ ایک پیچیدگی حکمت یار تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گلبدین حکمت یار کے ساتھ پاکستان کی پرانی دوستی تھی۔ ان کے ٹریننگ کیمپس سے تربیت دے کر مشرقی ہمسائے میں بھیجنے کا پلان بھی جاری تھا۔ اگر طالبان کو سپورٹ کرتے ہیں تو اس سب کا کیا بنے گا؟ پاکستانی ایجنسی کے لوگ جو حکمت یار سے دیرینہ روابط رکھتے تھے، وہ اس تبدیلی سے جھجک رہے تھے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جاوید اشرف قاضی نے طالبان کو راولپنڈی آنے کی دعوت دی۔ اس میں ملا عمر تو نہیں آئے لیکن سنئیر طالبان کا ایک وفد اس دعوت پر راولپنڈی پہنچ گیا۔

قاضی کہتے ہیں کہ “ایسے لگتا تھا کہ انہوں نے کبھی شہر بھی نہیں دیکھا۔ دنیا کا بھی کچھ نہیں پتا تھا۔ خیالات بھی میری سمجھ سے باہر تھے لیکن ان کی نیت ٹھیک لگ رہی تھی”۔

اس کے بعد پاکستان نے حکمت یار سمیت باقی تمام افغان گروپس پر سے ہاتھ اٹھانے کا فیصلہ لے لیا۔ اب افغانستان میں ان کا نیا گھوڑا طالبان تھا۔ طالبان کو پاکستان سے لاجسٹیکل سپورٹ چاہیے تھی۔ ایندھن چاہیے تھا۔ اتنی فرمائش پر کیا اعتراض ہونا تھا۔ وسطی ایشیا کا بڑا پرائز مل سکتا تھا۔ طالبان کا کہنا تھا کہ وہ باقی تمام لیڈروں کو لٹکا دیں گے، کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بات بڑھتی گئی۔ پہلے ایندھن، پھر مشینری، پھر اسلحہ، پھر پیسے۔ یہ آگے بڑھتا گیا۔ یہ ایک بلینک چیک میں بدل گیا۔ کیش، عسکری ساز و سامان، ٹریننگ کے ساتھ پھر پاکستان نے انجانے میں اس نئے گروپ کے مخالف ہر ایک کی دشمنی بھی خرید لی۔ ان کی بھی جس لئے یہ شروع کیا گیا تھا۔ وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کا تنازعہ اسی گروپ کی وجہ سے ہوا۔ پاکستان اس دلدل میں آہستہ آہستہ دھنستا گیا۔ 1995 کی بہار تک پاکستان سے خفیہ طور پر جانے والی امداد کا سلسلہ مستقبل بنیاد پر کھل گیا تھا۔ پاکستانی افسر افغانستان میں تھے۔ سابق کمیونسٹ لیڈر تنئی کے کمیونسٹ افسروں نے ان کے ٹینک مرمت کر کے آپریٹ کرنے شروع کر دئے تھے۔ مشرقی افغانستان میں طاقتور لیڈر جلال الدین حقانی نے اپنی سپورٹ طالبان کے حق میں کر دی۔ پاکستانی مدارس سے طلباء نے ان کو جوائن کرنا شروع کر دیا۔ جب ہرات پر قبضہ کر لیا گیا تو جنوبی افغانستان طالبان کے پاس آ چکا تھا۔

اب کابل کی باری تھی۔ اگرچہ اس سب کو کبھی کابل پر قبضے کیلئے شروع ہی نہیں کیا گیا تھا۔ طالبان کا مقصد پاکستان کے سفارتی مسائل کی باریکیوں کی پرواہ کرنا کبھی رہا ہی نہیں۔  فرنچ سکالر اولیور رائے کے مطابق، طالبان دوسرے افغان دھڑوں سے مختلف تھے۔ وہ جو کہہ رہے تھے، ان کا واقعی وہی مطلب تھا۔ ان کا مقصد افغان لیڈروں کو لٹکانا تھا۔ پاکستانی افغان سیل میں ان کی کاز سے ہمدردوں کی کمی نہیں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے پاس ایک چیز کی کمی تھی اور وہ فنڈ تھے۔ نیوکلئیر معاملے پر امریکہ پہلے ہی امداد بند کر چکا تھا۔ ملک قرضے تلے دبا تھا۔ اگرچہ دفاع ایک بڑا خرچہ تھا لیکن ایک اور ملک میں جنگ کو اپنی جیب سے سپورٹ کرنا خاصا مہنگا کام ہے۔ اس کیلئے سعودی عرب سے مدد لی گئی۔ سعودی عرب کو اعتماد میں لیا گیا کہ حکمت یار کی چھٹی کروا دی گئی ہے۔ سعودی عرب کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ حکمت یار نے عراق جنگ میں سعودی عرب کی مخالفت کی تھی۔ احمد بادیب اور ترکی الفیصل خود قندھار آئے۔ اس نئے گروپ کی تشہہیر پاکستان نے کی۔ یہاں پر بدحال افغانیوں کیلئے اور واپس آنے والے مہاجرین کے لئے فنڈ مانگے گئے۔ سعودی خیراتی اداروں اور مذہبی امور کی وزارت کے فنڈز کو بھی یہاں پر لانے کی درخواست کی گئی۔ معاملات طے پا گئے۔

ترکی الفیصل کہتے ہیں، “ یہ مجھے اخوان کی طرح لگے تھے۔ جنونی اور ان پڑھ۔ البتہ مجھے امید تھی کہ وقت کے ساتھ یہ میچور ہو جائیں گے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کابل پر فتح بہت جلد ہوئی تھی۔ طالبان نے جلال آباد شوریٰ پر سرپرائز حملہ کیا تھا۔ اس کے لئے طالبان اور کابل کے بیچ آنے والے کمانڈروں کی وفاداریاں تبدیل کروائی گئیں۔ مسعود اور حکمت یار نے اتحاد بنا لیا تھا۔ حکمت یار کو پتا لگ چکا تھا کہ آئی ایس آئی ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ چکی ہے۔ لیکن یہ کارآمد نہیں رہا۔ طالبان کابل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ لیکن حکمت یار کو خود پتا نہیں تھا کہ ان کے کئی کمانڈرز وفاداری بدل چکے ہیں۔ یہ پھندا 25 ستمبر کو بند ہو گیا۔ کابل کے مشرق میں سروبی پر حکمت یار کے مقامی کمانڈر نے فوج ہٹا لی اور طالبان نئے جاپانی پک اپ ٹرک پر طاقتور مشین گنوں سے مسلح کابل کے شمال تک پہنچ گئے۔ 26 ستمبر کو مسعود نے جنرل کونسل میٹنگ میں کابل چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ راتوں رات کابل سے عسکری ساز و سامان لے کر پنج شیر وادی میں واپس چلے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے روز کابل طالبان کے قبضے میں تھا۔ نجیب اللہ مجاہدین کے کابل میں قبضے کے بعد سے اپریل 1992 سے ہاوٗس ایرسٹ میں تھے۔ ربانی اور مسعود نے نہ ان پر مقدمہ چلایا تھا اور نہ ہی ان کو باہر جانے دیا تھا۔ وہ اپنی قید کے دن ٹی وی دیکھتے، ورزش کرتے گزار رہے تھے۔ وہ “دی گریٹ گیم” کے عنوان سے لکھی کتاب کا ترجمہ انگریزی سے پشتو میں کر رہے تھے۔ یہ کتاب روس اور برطانیہ کی انیسویں صدی میں یہاں جنگ کی تاریخ پر تھی۔ انہوں نے اس ترجمہ کرتے ہوئے ایک مہمان کو بتایا تھا، “افغان بار بار یہ غلطی دہراتے آئے ہیں۔ یہ دوسروں کی کھیلیں اپنے ملک میں کھیلتے رہے ہیں”۔

طالبان نجیب اللہ کے گھر میں 27 ستمبر کو گھسے، اس وقت ان کے بھائی ان سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ کچھ گھنٹوں بعد جب ان کا جسم چوک پر لٹکا تھا تو اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ مکوں، پتھروں اور ڈنڈوں کی وجہ سے ایک سست اور تکلیف دہ موت مرے تھے۔ افغانستان کے سابقہ صدر جنہوں نے اپنا کیرئیر خفیہ پولیس کے ٹارچر چیمبر سے شروع کیا تھا، جب انہیں شہر کے بیچ میں ان کو لٹکایا گیا تھا، وہ گلے میں رسی ڈالنے وقت زندہ نہیں تھے۔

کابل کے ریڈیو کا نام بدل شریعت کی آواز ہو گیا۔ ریڈیو اناوٗنسر نے کہا کہ ٹوتھ پیسٹ چھوڑ دی جائے، مسواک کی جائے۔ سگریٹ، بنٹے، موسیقی، پتنگ بازی، ٹیلی ویژن، کبوتر بازی منع ہو گئے۔ اخبار میں سودا لپیٹ کر دینے پر پابندی لگ گئی۔ “امریکی طرز کی حجامت” بھی ممنوعات کی فہرست میں آ گئی۔

خواتین کو غائب ہو جانے کو کہا گیا۔ پہلے روز ہی اعلان کر دیا گیا کہ کوئی بھی خاتون جو ملازمت کر رہی ہے، گھر بیٹھیں۔ چہرہ دکھانا ممنوع ہو گیا۔ کابل یونیورسٹی میں آٹھ ہزار طالبات یونیورسٹی سے نکال دی گئیں۔ سکول ٹیچرز ملازمت سے برخواست کر دی گئیں۔  دسیوں ہزار سرکاری ملازمت کرنے والی خواتین بے روزگار کر دی گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھ ہفتے بعد طالبان نے ایک فہرست جاری کی جس میں وہ قواعد درج تھے جن پر مذہبی پولیس نے عمل کروانا تھا۔ اس میں پہلے نمبر پر لکھا تھا کہ کوئی ٹیکسی ڈرائیور کسی ایسی خاتون کیلئے نہیں رکے گا جو مکمل طور پر برقعے سے نہ ڈھکی ہو۔ نمبر بارہ میں لکھا تھا کہ اگر کوئی خاتون نہر یا دریا پر کپڑے دھوتی پائی گئی تو اس کو گھر چھوڑ آیا جائے گا اور اس کے شوہر کو سخت سزا دی جائے گی۔ پندرہ نمبر میں ان درزیوں کے لئے سزا کی وعید تھی جن کی دکان پر فیشن میگیزین پایا گیا۔

کابل اب ایک نئے طرز کی حکومت کے کنٹرول میں تھا۔ یہ قبضہ اگلے پانچ سال رہا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں