باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 22 نومبر، 2019

نوجوانوں کا انجام (قسط نمبر بارہ)



اسلام آباد کے سو کاسا گیسٹ ہاوٗس کے کمرہ نمبر سولہ پر پاکستانی ایجنسی اور امریکہ سیکیورٹی سروس نے ملکر چھاپہ مارا۔ اس میں موجود نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ دو سال پہلے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں دھماکا کرنے والے رمزی یوسف تھے۔ 8 فروری 1995 کی شام کو ان کو انہیں نیویارک لے جانے کیلئے طیارے میں بٹھایا گیا۔ انہوں نے تفتیش کرنے والے برائن پار کو بتایا کہ ان کو لوگوں کے مرنے کا افسوس ہے البتہ دنیا میں تبدیلی دھماکوں سے ہی لائی جا سکتی ہے۔ پاکستانی تفتیشی ٹیم نے بعد میں دریافت کیا تھا کہ جس گیسٹ ہاوٗس میں رمزی یوسف رہتے رہے تھے، اس کو القاعدہ فنڈ کرتا تھا۔ یہ والی انفارمیشن پاکستان کی طرف سے ایف بی آئی کو دی گئی تھی۔

جہاز کے سفر میں یوسف نے پوچھا کہ کیا ان کو سزائے موت ہو جائے گی۔ اور کیا ان اس کے درمیان میں اتنا وقت مل جائے گا کہ وہ اپنے کارناموں پر کتاب لکھ سکیں۔

رمزی یوسف کا اوپن ٹرائل ہوا، ان کی تفتیش میں ان کے ماموں خالد شیخ محمد کا نام سامنے آیا جن کے فلپائن کے اپارٹمنٹ پر چھاپے سے صدر کلنٹن کو فلپائن کے دورے میں قتل کرنے، منیلا میں پوپ کو قتل کرنے، جہاز میں بم پھاڑنے اور جہاز ہائی جیک کر کے اس کو سی آئی اے کے دفتر پر مارنے کے پلان سامنے آئے۔ رمزی یوسف اپنے پروگرام کی تیاری میں درمیان میں تجرباتی طور پر دھماکہ کر کے ایک جاپانی کو بھی قتل کر چکے تھے۔ بڑے جہازوں میں بم نصب کرنے کے پروگرام پر کام کر رہے تھے۔ ان کو دورانِ پرواز گرانے کا پلان تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میر ایمل کاسی کو پکڑنے میں چار سال لگے۔ کاسی اس دوران پاکستان، افغانستان اور ایران کے بیچ سفر کرتے رہے۔ افغانستان اور پاکستان میں خاک چھانتی ٹیموں کو مئی 1997 میں کامیابی ہوئی جب ایک بلوچ نے کراچی کے امریکی قونصلیٹ میں جا کر ایمل کاسی کو پکڑوانے میں مدد کی پیشکش کی۔ کاسی کو پکڑوانے پر دو ملین ڈالر کا انعام مقرر تھا۔ اس نے بتایا کہ ایمل کاسی ایک بااثر بلوچ سردار کے ساتھ ہیں۔ وہ شخص انہیں ڈیرہ غازی خان بلا سکتا ہے جہاں سے ان کو پکڑا جا سکتا ہے۔

امریکی سیکیورٹی ایجنسی نے آئی ایس آئی سے تعاون کی درخواست کی۔ ڈیرہ غازی خان کے شالیمار ہوٹل میں اس بھیدی نے کانسی کے کمرے کا دروازہ 15 جون کی صبح چار بجے کھٹکھٹایا کہ فجر کی نماز پر چلتے ہیں۔ سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ایجنٹ انتظار کر رہے تھے۔ انہیں دبوچ لیا گیا۔ اندر سے نکلنے والے کے انگوٹھے کا نشان لے کر چیک کیا گیا۔ اس کے میچ ہو جانے پر ایمل کانسی کو چھ گاڑیوں کے قافلے میں ملتان ائیر پورٹ اور پھر امریکہ لے جایا گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمزی یوسف کے کیس کا فیصلہ سناتے وقت جج نے کہا، “رمزی یوسف، تم اسلامی عسکریت پسند ہونے کا دعویٰ کرتے ہو۔ جتنے لوگوں کو تم نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں بم کے ذریعے قتل کیا ہے یا نقصان پہنچایا ہے، تم ان میں سے ایک شخص کا نام بھی نہیں بتا سکتے جو تمہارے خلاف ہو۔ اور تمہیں اس کی پرواہ بھی نہیں تھی۔ تم صرف لاشیں دیکھنا چاہتے تھے۔ رمزی یوسف، تم اسلام کا نام لینے کے حقدار نہیں ہو۔ تمہارا خدا اللہ نہیں، تمہارا خدا موت ہے۔ تم مکالمہ نہیں کرنا چاہتے، قتل کرنا چاہتے ہو۔ موت اور تباہی کی عبادت کرتے ہو۔ تم یہ کام اللہ کے لئے نہیں کرتے، اپنی مسخ شدہ انا کی تسکین کیلئے کرتے ہو۔ تم دوسروں کو یقین دلانے کی کوشش کرو گے کہ تم ایک سپاہی ہو۔ لیکن آج تم اس کٹہرے میں بے گناہ لوگوں کو چھپ کر قتل کرنے کے الزام میں کھڑے ہو۔تم اس ملک میں اسلامی بنیادپرست کے بھیس میں آئے تھے لیکن اصل میں تمہیں نہ ہی اسلام کی اور نہ ہی مسلمانوں کی پرواہ تھی۔ تم اگر دعویٰ کرتے کہ تم اس ملک میں شیطان کا نمائدہ بن کر آئے تھے، تو ٹھیک ہوتا”۔ (یہ لفظی ترجمہ ہے)۔

رمزی یوسف کو عرقید کی سزا سنائی گئی، جس میں ضمانت نہیں ہو سکتی۔ یہ تمام قید انہیں تنہائی میں بھگتنا تھی۔ اس وقت کولاراڈو کی جیل میں وہ یہ سزا کاٹ رہے ہیں۔ جو ہتھکڑیاں ان کو ڈیرہ غازی خان میں پہنائی گئی تھیں، وہ واشنگٹن کے ایف بی آئی میوزیم میں نمائش پر ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایمل کاسی نے اپنے دفاع یہ کہا کہ وہ ذہنی مریض ہیں اور اس دفاع کیلئے ایک نیورولوجسٹ ڈاکٹر رچرڈ رسٹک کی مدد لی۔ دعویٰ یہ تھا کہ ان کے دماغ میں فرنٹل لوب میں ایک ٹشو نہ ہونے کی وجہ سے ایک خرابی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ اپنے کئے گئے عمل کے نتائج کو ٹھیک طرح جج نہیں کر پاتے۔ اس کے لئے وکیلِ صفائی کی طرفس سے عدالت میں ان کے دماغ کا ایم آر آئی پیش کیا گیا۔ مقدمے کے بعد جیوری نے میر ایمل کاسی کو قصوروار قرار دیا۔ ان کو 14 نومبر 2002 کو سزائے موت زہریلے انجیکشن کے ذریعے دی گئی۔ ان کی میت کوئٹہ بھیج دی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئٹہ کے ایوب سٹیڈیم میں ان کی نمازِ جنازہ میں دس ہزار سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔ اس میں سیاستدان، مذہبی راہنما، جج، قبائلی عمائدین، سرکاری اہلکاروں اور رشتہ داروں کے علاوہ پاکستانی فوج سے یہاں کے کور کمانڈر جنرل عبدالقادر بلوچ، بلوچستان کے گورنر، واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر اشرف جہانگیر قاضی بھی شامل تھے۔ ان کے سوگ میں کوئٹہ شہر دو روز بند رہا۔ ان کا جنازہ بلوچستان کی تاریخ کا شاید سب سے بڑا جنازہ تھا۔

قومی اسمبلی میں ان کے لئے فاتحہ پڑھی گئی، کچھ ممبرانِ اسمبلی نے ان کو اسلام کا ہیرو قرار دیا گیا۔ حافظ حسین احمد نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جس نے انہیں امریکہ کے حوالے کیا، انہیں خدا غارت کرے۔ ایمل کانسی کے قاتل خود جلد اس انجام تک پہنچیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میر ایمل کاسی پر پاکستان میں ہونے والا ردِ عمل باقی دنیا کے لئے ایک معمہ رہا۔ یہ عالمی میڈیا میں زیرِ بحث آتا رہا۔

ایمل کو اپنے جرم کے نو سال بعد سزا دی گئی تھی۔ اس دوران بہت کچھ بدل گیا تھا۔ اپنی روپوشی کے دوران جہاں یہ رہے تھے اور جن جگہوں پر رمزی یوسف نے تربیت پائی تھی، اس وقت اسی جگہ پر ایک آپریشن جاری تھا۔

اس کا پچھلا حصہ
https://waharaposts.blogspot.com/2019/11/blog-post_40.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں