باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

ہفتہ، 23 نومبر، 2019

خرطوم سے جلال آباد ۔ اسامہ بن لادن (قسط نمبر چودہ)

اسامہ بن لادن دوسرے عرب رضاکاروں کی طرف افغان جنگ میں حصہ لیتے رہے لیکن گمنام رہے۔ جب سوویت یونین واپس جا رہا تھا، اس وقت سوویت سپیشل فورس کے ایک یونٹ کے ساتھ جاجی کی جھڑپ میں زندہ بچ گئے تھے جب بچنے کا امکان بہت کم تھا۔ سیاست میں کہا جاتا ہے کہ جو مارتا نہیں، وہ مشہور کر دیتا ہے۔ چرچل نے بھی اسی طرح شہرت پائی تھی۔ اسامہ بن لادن کا قصہ بھی یہاں سے شروع ہوا۔

میڈیا استعمال کرنا اسامہ کی مہارت رہی۔ ان کو اس کا علم تھا کہ توجہ کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس جھڑپ کی وجہ سے ملنے والی شہرت کو انہوں نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ پچاس منٹ کی ویڈیو، جس میں انہیں گھڑ سواری کرتے، ہتھیار دیکھتے، گولی چلاتے، ساتھیوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے دکھایا گیا، یہ اسی معرکے کے بعد بنائی۔ یہ ان کے مداحوں میں بڑی مقبول رہی، اگچہ اس میں وہ کچھ ایسا نہیں کر رہے تھے جو کسی بھی دوسرے کمانڈر کا روزمرہ کا معمول نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسامہ بن لادن جدہ میں تھے تو ان کو بتایا گیا کہ ان کو سعودی عرب سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ یہ 1991 تھا اور ان کے ساتھ یہ عزت و احترام سے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ واپس نہیں سعودی عرب نہیں آئے۔ انکی اگلی منزل سوڈان کا شہر خرطوم تھا۔

خرطوم اس وقت جلاوطن ریڈیکل عناصر کا گڑھ بن چکا تھا۔ سفید اور نیلے دریائے نیل کے سنگم پر خرطوم کبھی ایک خوبصورت شہر تھا جو شکستہ حال ہو چکا تھا۔ سڑکوں میں گڑھے، غربت میں ڈوبی آبادی، لمبی لوڈ شیڈنگ۔ دہائیوں کی خانہ جنگی، مہنگائی اور پرتشدد طریقے سے جانے والی حکومتیں، انقلابی۔ یہ اب ایک خستہ حال شہر تھا۔ صرف اسلامی انتہا پسند ہی نہیں، سیکولر ریڈکل بھی یہاں پر تھے۔ وینزویلا سے تعلق رکھنے والے بدنامِ زمانہ دہشت گرد کارلوس دی جیکل کا مسکن بھی خرطوم تھا۔

پاکستان وقتاً فوقتاً اپنے ملک میں انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کر دیتا تھا۔ اسامہ نے پاکستان سے 480 جہادی بھی خرطوم بلوا لئے۔ بن لادن کوئی زیرِ زمین رہنے والے مجرم کی طرح کے نہیں، ایک نرم مزاج، عالمانہ طبیعت رکھنے والے بزنس مین یا لیکچرر کی طرح تھے۔ سوڈان میں انہوں نے اپنے بزنس پر وقت لگایا۔ سب سے پہلے خرطوم کے شمال میں زرعی زمین خریدی۔ سوڈان کی بندرگاہ کے قریب نمک کی کان خریدی۔ مک نمر روڈ سٹریٹ پر ان کے کاروبار کا ہیڈکوارٹر تھا۔ الحجرہ کنسٹرکشن اور ڈویلپمنٹ کمپنی تھی۔ اس کے بعد یہاں کے پوش علاقے ریاض سٹی میں عمارت خریدی۔ امپورٹ ایکسپورٹ کی ڈیل سوڈانی جرنلوں اور سرکاری اہلکاروں کی مدد سے کرتے۔ سوڈان سے مکئی، سورج مکھی، گوند اور دوسری زرعی پیداوار برآمد کرتے۔ ان کے کاروبار کی زرعی ذیلی شاخ نے خرطوم میں اور مشرقی سوڈان میں سینکڑوں ایکڑ زمین خریدی۔ صدر کے بیٹوں کے ساتھ گھڑسواری کرتے۔ تعمیراتی پراجیکٹس کی نگرانی کرنے حکومتی عہدیداران کے ساتھ جایا کرتے۔ کچھ پارٹنرز کے ساتھ ملکر ایک سوڈانی بینک میں پچاس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔



خرطوم میں ان کی حفاظت پر جدید اسلحے سے لیس گارڈ ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ایک تین منزلہ گھر کے باہر عرب افغان گارڈ پہرہ دیتے تھے۔ ہر جمعرات کو نمازِ مغرب کے بعد ایک لیکچر دیا کرتے۔ موضوع سیاست اور جہاد ہوا کرتا۔ ان پر ایک قاتلانہ حملہ چار عرب مجاہدین نے 1994 میں کیا تھا جو الٹرا ریڈیکل تکفیری گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ جہاں اسامہ درس دیا کرتے تھے، وہاں پر انہوں نے گولیاں چلائیں تھیں۔ کئی نمازیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان میں سے تین کو اسامہ کے گارڈ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ ایک پکڑا گیا تھا، جس کو بعد میں سزائے موت دے دی گئی۔

اس قاتلانہ حملے نے اسامہ کے قدآور شخصیت ہونے کی توثیق کر دی تھی۔ پشاور میں جہاد کے دوران وہ عبداللہ عظام کے سائے میں رہے تھے۔ سعودی عرب میں وہ سینکڑوں امیر لوگوں میں سے بس ایک تھے۔ خرطوم میں وہ اپنی مال و دولت کی وجہ سے منفرد نظر آتے تھے۔ اس طرح کے لیڈر خوف کے ذریعے اپنے گروپ پر کنٹرول رکھتے ہیں، اسامہ کا طریقہ ایسا نہیں تھا۔ جب ان کی تنظیم کا ایک شخص دسیوں ہزار ڈالر کی رقم کا غبن کرتے پکڑا گیا تھا تو اسے گولی نہیں، لیکچر ملا تھا۔ اسے یہ رقم قسطوں میں پوری واپس کرنی پڑی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسامہ کا ایک نشانہ سعودی عرب تھا۔ سینکڑوں اینٹی سعودی عرب پمفلٹ شائع کئے۔ ہر ایک میں ان کی تصویر نمایاں ہوتی تھی۔ انہوں نے ریاست کو السعود خاندان کی ناجائز جاگیر کہا۔ ایک آئیڈیا شائع کیا کہ گریٹ یمن اور گریٹ حجاز کے نام سے دو ممالک بنائے جائیں، جس میں اس جزیرہ نما کو تقسیم کر دیا جائے۔

سعودی عرب نے ان سے صلح کرنے کی کوشش کی۔ 1970 سے 1994 تک اسامہ بن لادن کی فیملی بزنس سے ہونے والی اوسط آمدنی ایک ملین ڈالر سالانہ سے زیادہ رہی تھی۔ واپس جا کر آرام سے رہا جا سکتا تھا۔ مصالحت کے لئے نو بار خرطوم لوگ بھیجے گئے۔ ایک بار ان کی والدہ آئیں تھیں۔ اسامہ ضدی تھے۔ آخر کار 1994 میں ان کی سعودی شہریت منسوخ کر دی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نئی طرز کے حملے دنیا میں بڑھ رہے تھے۔ کئی پرسرار طریقوں سے ہونے والے واقعات۔ خود کش حملہ آوروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ شمالی افریقہ، مصر، سوڈان اس کا گڑھ تھے۔ اگست 1994 میں تین نقاب پوش افراد نے مراکش ہوٹل میں ہسپانوی سیاحوں کو قتل کر دیا۔ حملہ کرنے والے اور ان کے ہینڈلر افغانستان سے تربیت یافتہ تھے۔ پیرس کی میٹرو میں ہونے والی بمبار حملے کرنے والے الجیرین افغانستان سے تربیت پا کر آئے تھے۔ دسمبر 1994 کو الجیریا سے تعلق رکھنے والے چار افراد نے ائیر فرانس کا طیارہ اغوا کیا۔ وہ اس کو پیرس لے جا کر آئفل ٹاور سے ٹکرانا چاہتے تھے۔ فرانسیسی انتظامیہ نے دھوکے سے ایندھن کی کمی کا بہانہ کر کے اس کو مارسے میں اتروا لیا تھا۔ چاروں کو گولیاں مار دی گئی تھیں۔ مارچ میں بلجیم کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک نیٹ ورک توڑا تھا۔ فلپائن میں منڈناوٗ کے جزیرے میں گوریلا فوجیوں نے آئپل شہر میں فساد برپا کر دیا تھا۔ 63 لوگ مار دئے گئے تھے، چار بینک لوٹ لئے تھے، 53 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ افغان کیمپ سے آئے تھے۔ 26 جون 1995 کو مصری گوریلا عسکریت پسند، جن کے پاس سوڈان کے پاسپورٹ تھے، ایتھیوپیا کے دورے کے دوران مصری صدر حسنی مبارک کو قتل کرنے کی کوشش میں ناکام ہوئے۔ 13 نومبر 1995 کو ریاض میں گاڑی میں رکھے گئے بم نے سعودی عرب کے دارالحکومت میں تین منزلہ عمارت کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ مرنے والے انتالیس لوگوں میں  پانچ امریکی تھے۔ اس سے ایک ہفتے بعد اسلام آباد میں مصری سفارتخانے میں خودکش حملہ کیا گیا تھا۔

یہ اور اس طرح کے واقعات کو ایک ہی سلسلے کی کڑی کے طور پر دیکھنا پہلی بار 1995 کے وسط میں شروع کیا گیا۔ یہ رمزی یوسف کو پکڑنے اور اس دوران ملنے والی معلومات کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ایف بی آئی میں ایک تجزیہ کار نے ایک خفیہ درجہ بندی والی رپورٹ لکھی جس کا عنوان، “رمزی یوسف، دہشت گردوں کی نئی نسل” تھا۔ اس میں لکھا گیا کہ یہ محض اتفاق نہیں کہ یہ سوویت یونین کے جانے کے بعد شروع ہوا ہے۔ دہشت گردوں کی نئی نسل کو عالمی نیٹ ورک سے فنڈنگ مل رہی ہے، تربیت ہو رہی ہے اور ان کے پاس رہنے کی محفوظ جگہ ہے۔ ایسے کیمپ ہیں جہاں ہم خیال لوگ ملتے ہیں اور نئے لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ نئی نسل کے یہ دہشت گرد روایتی نہیں۔ ان کو کسی ریاست کی حمایت حاصل نہیں۔ یہ کسی کی پراکسی نہیں۔ یہ خود مختار اور مقامی ہیں۔ خیراتی اداروں کے نام پر قائم کردہ فنڈ لوگوں سے خیرات کے نام پر پیسے اکٹھے کر کہ اس کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کی کوئی ہائیرارکی نہیں”۔

اس نیٹ ورک میں مالی معاونت کرنے والوں میں ایک نام اسامہ بن لادن کا تھا جو بار بار نظر آنے لگا تھا۔ ابھی تک یہ فائنینس کرنے والے کے طور پر تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوڈان کی حکومت پر دباوٗ بڑھنے لگا۔ ان کے ملک پر اب دنیا کا پریشر آ رہا تھا کہ وہ اپنے مہمان کے بارے میں کچھ کریں۔ سوڈانی صدر عمر البشیر جب 1996 کو حج کرنے گئے تو انہوں نے ولی عہد شاہ عبداللہ سے ملاقات کی۔ انہیں اسامہ بن لادن کو واپس لوٹانے کی پیش کش کی۔ شرط یہ رکھی کہ گارنٹی دی جائے کہ ان پر کوئی مقدمہ نہ چلایا جائے۔ ترکی الفیصل بتاتے ہیں کہ ولی عہد نے یہ شرط ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ سعودی عرب میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ ایسی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ سوڈانی اہلکار کے مطابق سعودی حکومت کی طرف سے سوڈانی صدر کو کہا گیا کہ اگر وہ اسامہ کو پناہ دئے رکھتے ہیں تو دونوں ممالک کے تعلق ٹھیک نہیں ہو سکتے۔

سوڈان میں امریکہ نے اپنا سفارتخانہ مارچ 1996 کو بند کر دیا۔ وجہ دہشت گردوں کی وجہ سے ملک میں بڑھتے سیکورٹی خدشات کو بتایا گیا۔ شک تھا کہ خرطوم ایمبیسی ایک ریڈ ٹارگٹ ہے جس پر کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بندش سوڈانی حکومت کے لئے دھچکا تھی۔ یہ ایک پیغام تھا کہ سوڈان ایک غیرمحفوظ جگہ ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر عمر البشیر نے اسامہ کو پیغام بھجوایا کہ وہ کوشش کریں کہ رہنے کیلئے کوئی اور جگہ ڈھونڈ لیں۔ اسامہ کو ان کے ساتھی محمد المصری بھی کہہ رہے تھے کہ سوڈانی حکومت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ کہیں یہ کسی روز ان کا سودا سعودیوں سے نہ کر دے۔ اسامہ نے یہ فیصلہ لے لیا۔ ان کا نیا گھر افغانستان تھا۔ انہوں نے ایک جہاز چارٹر کروایا۔ اس کے دو چکر لگے جس میں اسامہ، ان کی تینوں بیویاں اور بچے، گھر کا ساز و سامان اور قریبی ساتھی خرطوم سے جلال آباد منتقل ہو گئے۔ جلال آباد میں رہنے کیلئے انہوں نے اس گھر کا انتخاب کیا جو کبھی افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے زیرِ استعمال رہا تھا۔ یہیں پر ان کی اپنی والدہ عالیہ غنیم سے آخر بار ملاقات ہوئی جب وہ انہیں ایک بار پھر منا کر سعودی عرب واپس لے جانے کے لئے قائل کرنے آئیں۔

جلال آباد اس وقت پشتون قبائلی سرداروں کے قبضے میں تھا۔ حاجی قدیر یہاں کے مئیر تھے جن کا تعلق مولوی یونس خالص کے دھڑے سے تھا۔ اسامہ کے تعلقات افغان جنگ کے زمانے سے ان سے تھے اور اسکے بعد سے رابطے میں تھے۔ اس گروپ نے اپنا فاصلہ طالبان، حکمت یار اور مسعود سے رکھا ہوا تھا۔ اس وقت تک طالبان قندھار سے امن قائم کرنے والے لوگوں سے طاقت حاصل کرنے والی سیاسی اور ملٹری فورس میں تبدیل ہو چکے تھے۔ اسامہ کی ابھی ان سے دوستی نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے انہوں نے جلال آباد کا انتخاب کیا تھا۔ یہ دوستی ہوتے زیادہ دیر نہیں لگی۔ ان کا پہلا تعمیراتی پراجیکٹ قندھار میں تھا۔ انهیں عالمی توجہ کا مرکز بنتے دیر نہیں لگی۔ سوڈان سے جانے کے بعد سعودی حکومت کے خلاف مہم اور دنیا میں کارروائیوں میں کمی نہیں آئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مئی 1998 کو سعودی شہزادہ ترکی نے قندھار ائیر پورٹ پر لینڈ کیا۔ وہ یہ پیشکش لے کر آئے تھے کہ اسامہ کو ان کے حوالے کر دیا جائے۔ وہ احمد شاہ مسعود اور دوسروں کے خلاف طالبان کی مدد کریں گے۔ ملا عمر نے اس کے لئے علماء کی کمیٹی بنانے کا کہا کہ اس بارے وہ فیصلہ کرے گی۔ جولائی میں یاددہانی کے لئے پھر پیغام بھیجا گیا۔ سعودی طالبان کے جواب کے انتظار میں تھے کہ القاعدہ نے ایک بڑا وار کر دیا۔ اس سے اسامہ نے اپنی شہرت نظریاتی اور مالیاتی معاونت کرنے والے سے بڑھا کر دہشت گرد حملوں کے آپریٹر کی حیثیت سے منوا لی۔ اس کے بعد اسامہ دنیا میں مطلوب نمبر ایک شخص بن گئے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس حملے کو پلان کرنے والوں نے افغانستان میں تربیت حاصل کی تھی۔ ودیع الحاج کا تعلق لبنان سے تھا۔ محمد اودے کا جنوب مشرقی ایشیا سے، خلفان محمد کا تنزانیہ سے، خالد الفواز کا سعودی عرب سے۔اس ملٹی نیشنل ٹیم کی ملاقات افغانستان میں ہوئی تھی۔ ( اس وقت یہ چاروں عمرقید بھگت رہے ہیں)۔ کئی دوسرے شرکاء افغانستان میں حصہ لے کر افریقہ واپس گئے تھے اور کئی برس سے وہاں رہ رہے تھے۔

افریقہ کے دو دارالحکومتوں میں 7 اگست 1998 کو صبح ساڑھے دس بجے دو خود کش ٹیمیں اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ نیروبی میں دھماکہ خیز مواد سے لدا ہوا ٹرک امریکی سفارت خانے کے گیٹ کے قریب پہنچا۔ اس میں سے ایک شخص اترا، گیٹ پر گارڈز کی طرف گرینیڈ پھینکے اور بھاگ گیا۔ جب ٹرک میں دھماکہ ہوا تو اس نے سفارت خانے کی عمارت ہلا کر رکھ دی، فرنیچر کھڑکیوں سے باہر جا گرا۔ لوگ اپنی میز پر بیٹھے ہلاک ہو گئے۔ ساتھ آفندی بلڈنگ مہندم ہو گئی۔ اس میں افریقی طلباء اندر ہی مارے گئے۔

اس سے نو منٹ کے بعد تنزانیہ کے شہر دارالسلام میں ایک دوسرا ٹرک پارکنگ ایریا تک پہنچ کر پھٹ گیا۔ عمارت اور ٹرک کے درمیان پانی کا ٹینکر کھڑا تھا جو ہوا میں بیس فٹ اونچا اچھل گیا لیکن اس نے دھماکے کے اثرات سے بچا لیا۔ نیروبی میں 213 لوگ ہلاک ہوئے تھے، جن میں بارہ امریکی تھے۔ باقی تمام افریقی۔ تنزانیہ میں 11 افراد ہلاک ہوئے۔ تمام افریقی تھے۔ اس کے علاوہ چار ہزار لوگ زخمی ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہزادہ ترکی ستمبر میں پھر قندھار گئے۔ ان کے ساتھ پاکستانی ایجنسی سے ایک پشتون مترجم تھا۔ ترکی کا خیال تھا کہ ملا عمر پچھلے ماہ ہونے والے واقعے سے سبق پکڑ چکے ہوں گے اور آسانی سے بات طے ہو جائے گی۔ چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے ترکی نے کہا، “میں آپ کے جواب کا بڑی دیر سے انتظار کر رہا ہوں۔ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ اسامہ کو ہمارے حوالے کر دیں گے”۔

ملا عمر غصے میں بھرے بیٹھے تھے۔ “تم لوگ ایسا کیوں کر رہے ہو؟ تم اس بہادر مردِ مجاہد کو کیوں تنگ کر رہے ہو”۔ پاکستانی افسر کے لئے اس کے بعد بولے گئے فقروں کا ترجمہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ شہزادہ ترکی کو سنائی گئی صلواتوں کا ترجمہ کیسے کریں۔ ملا عمر نے پھر کہا، “تم لوگ ہمارے ساتھ کیوں نہیں مل جاتے۔ ہم ان کافروں سے تہماری زمین آزاد کروائیں گے”۔

شہزادہ ترکی غصے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ “بس، بہت ہو گیا۔ جو تم آج کر رہے ہو، یہ عظیم نقصان کا باعث بنے گا۔ تمہارے اپنے لئے اور تمہاری تنظیم کے لئے ہی نہیں۔ افغانستان کے لئے بھی”۔

چند روز بعد سعودی عرب نے اپنا سفیر کابل سے واپس بلا لیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں