باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 9 جنوری، 2020

بیمار چمپینزی سے عالمی وبا ۔ ایڈز کی کہانی



دنیا میں ساڑھے تین کروڑ افراد ایڈز کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ سات کروڑ افراد ایچ آئی وی کا شکار ہیں۔ یہ بیماری ہے کیا؟ کہاں سے آئی؟ کب اور کیسے اس کا پتا لگا؟

ایچ آئی وی ایک ریٹرووائرس ہے جو دفاعی خلیوں کو متاثر کرتا ہے خاص طور پر ان کو جو سی ڈی فور ٹی خلئے کہے جاتے ہیں۔ ریٹروائرس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسا وائرس ہے جو اپنے جیناتی مادے کے لئے آر این اے کو استعمال کرتا ہے۔ اور ایک بار یہ خلیے کو متاثر کر دے تو یہ ایک خاص انزائم کے ذریعے اس کا ڈی این اے تیار کر کے اپنے میزبان جینوم میں داخل کر دیتا ہے۔ یہ رات کی تاریکی میں نقب لگانے والے کسی چور کی طرح کا کام ہے۔ اور یہی ایک وجہ ہے جس باعث ایچ آئی وی کا علاج دریافت کرنا اتنا مشکل رہا ہے۔

جن سی ڈی فور ٹی خلیوں کو یہ متاثر کرتا ہے اور مار دیتا ہے، یہ خون کے سفید خلیوں کی قسم ہے۔ جب ان کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو یہ ایک پروٹین کا اخراج کرتے ہیں جن سے دفاعی نظام متحرک ہوتا ہے۔ ایچ آئی وی، سوائے تھوک کے، جسم کے باقی سیال مادوں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ (تھوک میں وہ اینٹی باڈیز اور جراثیم کُش پروٹین ہیں جن کی وجہ سے یہ یہاں نہیں رہ سکتا)۔

اس کی پہلی علامات فلُو کی طرح ہیں۔ بخار، سردرد، خراب گلا، پٹھوں اور جوڑوں میں درد۔ ایسا اس لئے کہ وائرس بہت سے خلیوں کو متاثر کر رہا ہے اور دفاعی نظام ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کچھ ہفتوں میں یہ علامات ختم ہو جاتی ہیں۔ اس وقت تک جسم میں وہ اینٹی باڈیز پیدا ہو چکی ہوتی ہیں جو وائرس کی آزادی پر لگام ڈالتی ہیں۔ اور اس کا شکار ہونے والا اپنے آپ کو نارمل محسوس کرتا ہے۔ کئی بار بہت لمبے عرصے تک۔ کئی دہائیوں تک بھی۔ اور پھر ایک دن۔۔۔۔


وائرس اس وقت تک بہت سے ٹی سیلز کا خاتمہ کر چکا ہوتا ہے اور جسم اب بیمار کر دینے والوں کے خلاف اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ ہر چیز خطرناک ہو جاتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کو ہم ایڈز کہتے ہیں۔ یہ دفاعی نظام کی ناکامی کا عارضہ ہے۔

اس کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب ٹی سیلز کی گنتی 200 خلیے فی مائیکرولٹر سے نیچے گر جائے۔ اس کی نارمل رینج 500 سے 1500 کے درمیان ہے۔ ایسے انفیکشن جن کے نارمل دفاعی نظام والا شخص محفوظ رہتا ہے، ایڈز کا شکار مریض کا دفاعی نظام ان سے نہیں لڑ پاتا۔ ان مریضوں کی موت کی بڑی وجہ ایسے انفیکشن ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سب کچھ آپ نے شاید سنا ہو گا لیکن تصور کیجئے کہ آپ کو اس کا کچھ بھی معلوم نہیں کہ یہ بیماری موجود بھی ہے۔ 1980 کی دہائی میں کسی کو بھی یہ بنیادی فیکٹ معلوم نہیں تھے۔ ڈاکٹروں کو صرف یہ پتا تھا کہ اچانک ہی کچھ نوجوان ایسے انفیکشن اور کینسر کا شکار ہو رہے ہیں جو بہت ہی نایاب ہیں اور ان سے یہ لوگ مر جاتے ہیں۔ اس پیٹرن کو سب سے پہلے لاس اینجلس میں ایک امیونولوجسٹ نے دریافت کیا۔ انہوں نے پانچ مریضوں کا ایک تسلسل دیکھا جن کی عمر بیس سے تیس برس تھی۔ پانچوں ہم جنس پرست مرد تھے اور سب کو نمونیا کی ایک ایسی قسم تھی جو بہت ہی کم ہوتی ہے۔ ان کے پھیپھڑوں میں فنگس اُگ رہی تھی۔ عام طور پر یہ بے فنگس بے ضرر ہوتی ہے اور پھیپھڑے کو متاثر نہیں کرتی لیکن ان پانچوں میں اس نے ایسا کر دیا تھا اور ان کو سانس لینے میں دشواری تھی۔ ان سب کے منہ میں چھالے بھی نکلے ہوئے تھے جو ییسٹ انفیکشن کی وجہ سے تھا اور سب کے خون میں ٹی سیلز کی کمی تھی۔ جون 1980 میں جب انہوں نے یہ مشاہدات شائع کئے، اس وقت تک دو مریض انتقال کر گئے تھے۔

اس سے ایک مہینے بعد نیویارک کے ایک جلد کے امراض کے ماہر نے ایسی ہی رپورٹ شائع کی۔ اس بعد ان کو کاپوسی سارکوما تھا۔ ایک نایاب کینسر جس میں جلد پر جامنی دھبے پڑھ جاتے ہیں۔ اگلے ڈھائی سال میں نیویارک اور لاس اینجلس میں 26 نوجوان افراد میں اس کینسر کی تشخیص ہو چکی تھی۔ کچھ کو وہ عجیب فنگل نمونیا بھی تھا اور آٹھ فوت ہو چکے تھے۔ اس وقت سائنسدانوں کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ کیا کوئی زہریلی شے ہے؟ کیا کوئی پیتھوجن ہے؟ اور اگر یہ انفیکشن ہے تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ پھیل کیسے رہی ہے؟ اس کا مطلب یہ کہ لوگوں کو یہ بھی نہیں بتایا جا سکتا تھا کہ اس کے لئے حفاظت کیا کی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چونکہ ابتدائی مریضوں میں ہم جنس افراد کی تعداد زیادہ تھی تو تاثر بنا کہ اس کا تعلق اس سے ہے۔ (اس بیماری کا پہلا نام “گرڈ” اسی وجہ سے رکھا گیا تھا)۔ اس کو گے کینسر یا گے طاعون بھی کہا گیا۔ لیکن یہ بیماری اور لوگوں میں نظر آنے لگی۔ ہیموفیلیاک میں ۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا خون ٹھیک طرح سے نہیں جمتا اور ان کو خون لگواتے رہنا پڑتا ہے۔ منشیات کا استعمال کرنے والوں میں ۔۔۔ جو سرنج استعمال کرتے ہیں۔ پھر خواتین میں، نوزائیدہ بچوں میں اور ہر طرح کے افراد میں۔

ہیٹی سے آنے والے بیس تارکینِ وطن اس کا شکار نظر آئے جن میں سے کوئی بھی ہم جنس پرست نہیں تھا۔ یہ اہم سراغ تھے جن سے سائنسدان اس بیماری کا مزاج جان سکتے تھے۔ اس بیماری کو نام ایڈز دیا گیا اور شک یہ ہوا کہ اس کا خون لگوانے سے تعلق ہے۔ کئی دوسری بیماریاں بھی ایسے پھیلتی تھیں جیسا کہ ہیپاٹائٹس بی۔

مارچ 1983 میں پہلی بار یہ وارننگ جاری کی گئی کہ خون کی منتقلی کے وقت احتیاط کی جائے اور لگ یہ رہا ہے کہ اس کا تعلق جنسی رجحان سے نہیں ہے۔ لیکن اس انفیکشن کا ایجنٹ کیا تھا؟ یہ ابھی نامعلوم تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرانس کے مالیکیولر بائیولوجسٹ لوک مونٹانئے کو وائرس پر شک ہوا۔ ہیموفلک کے لئے خون کی منتقلی کے دوران بیکٹیریا اور فنگس نہیں ملے تھے۔ وائرس اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کا پکڑا جانا بہت مشکل ہے۔ اپنے ایک کولیگ کے ساتھ انہوں نے ایڈز کے مریضوں کے خون کا مطالعہ کیا اور ایک ریٹرووائرس ڈھونڈ نکالا۔ تقریباً اسی وقت ہی امریکہ میں رابرٹ گالو نے بھی ایڈز کے مریضوں کے خون سے ایک ریٹرووائرس دریافت کیا تھا۔ دونوں نے اپنا کام مئی 1983 میں شائع کروایا۔ اس سے کچھ ہی عرصے بعد ایک اور ٹیم نے ایک اور ریٹرووائرس تلاش کر لیا۔ ان سب کو پہلے الگ نام دئے گئے۔ شروع میں واضح نہیں تھا کہ ان سب ٹیموں نے ایک ہی وائرس کا پتا لگایا ہے اور کیا یہ وائرس ہی اس بیماری کی وجہ ہے؟ اس کی تصدیق ہو جانے کے بعد 1986 میں ایڈز کی وجہ کو باقاعدہ نام دیا گیا۔ ایچ آئی وی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایچ آئی وی ایک مسئلہ تھا لیکن یہ آیا کہاں سے؟ کچھ محققین نے نوٹ کیا کہ میکاک بندر بھی ایڈز جیسی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک گروپ نے ان بیمار بندروں کے خون کے سیمپل جمع کئے اور 1985 میں انہیں ایک وائرس ملا جو ایچ آئی وی جیسا تھا۔ اس کو ایس آئی وی کا نام ملا۔ یہاں سے یہ خیال آیا کہ یہ بیماری کہیں بندروں سے انسانوں میں منتقل نہ ہوئی ہو۔ (تقریباً تمام مہلک بیماریاں انسانوں میں جانوروں سے ہی آئی ہیں)۔ اس پر کافی کام کرنے کے بعد یہ پتا لگا کہ انسانوں میں پایا جانے والا وائرس چمپینزی میں پائے جانے والے ایس آئی وی سے بہت ملتا جلتا ہے اور انسانوں تک پہنچنے کی یہ وجہ تھی۔ لیکن کیسے؟

زیادہ تر سائنسدان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اس کی وجہ شکار ہے۔ جانوروں سے انسانوں میں اس کی چھلانگ (اس کو سپِل اوور کہتے ہیں)، شکاریوں کا بندروں اور چمپینزی کو گوشت کی خاطر نشانہ بنانے کی وجہ سے ہوئی۔ اس کو کٹ ہنٹر ہائپوتھیسز کہا جاتا ہے۔ چمپیزی کو ذبح کرتے وقت اس کا خون شکاری کے ہاتھ پر لگے زخم کے ذریعے اس کے جسم میں داخل ہو گیا۔ اس وائرس نے شکاری کو متاثر کر دیا اور اس کے ذریعے آگے منتقل ہوا۔ اس دوران اس کی نسل در نسل ہونے والی تبدیلی سے یہ ویسے ایچ آئی وی کی شکل میں آیا، جیسا کہ آج جانا جاتا ہے۔

ایسے سپل اوور کئی بار ہوئے۔ ہمیں کیسے پتا ہے؟ کیونکہ وائرس کی میوٹیشن تیزی سے ہوتی ہے اور ہم اس وائرس کی کئی جینیاتی لائینیج کو شناخت کر چکے ہیں۔ ہر ایک الگ سپل اوور کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایچ آئی وی کی پھیلنے والی موجودہ وبا ایم کہلاتی ہے۔ چمپنیزی کے فضلے سے کیا جانے والا تجزیہ بتاتا ہے کہ یہ والا وائرس جنوب مغربی کیمرون میں کانگو کے قریب جنگلات سے آیا ہے۔

انسانوں کے سب سے پرانے خون کے سیمپل جن میں یہ انسانوں میں ملا، یہ 1959 اور 1960 کے ہیں۔ ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی سب سے پہلے انسانوں میں 1908 کے قریب منتقل ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی وائرس کو پھیلنے میں وقت لگتا ہے۔ 1920 کی دہائی میں یہ دریا کے ساتھ کانگو کے شہر کنشاسا تک آ چکا تھا جو اس وقت بلجیم کی کالونی تھا۔ یا تو جنسی تعلقات کی وجہ سے، یا پھر سرنج کی وجہ سے (اس وقت ڈسپوزیبل سرنج نہیں ہوا کرتی تھی)، یہ اس شہر کی آبادی میں منتقل ہوا۔

وقت کے ساتھ کنشاسا سے لوگ نکل کر دنیا کے دوسرے علاقوں تک پہنچے اور وائرس ساتھ لے گئے۔ چونکہ یہ تیزی سے تبدیل ہوتا ہے، اس لئے اس وقت ہم اس کے نو الگ سب گروپ بتا سکتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ وسطی افریقہ سے باقی دنیا تک پہنچنے میں اس نے کونسا راستہ لیا۔ سب ٹائپ سی جنوب میں گئی اور یہ انڈیا تک پہنچی۔ سب ٹائپ بی ہیٹی تک گئی اور پھر امریکہ آئی۔ ہیٹی سے ڈاکٹر، وکیل اور دوسرے ہنرمند کانگو میں 1960 میں کام کرنے آتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہیٹی اور کانگو، دونوں ممالک میں فرنچ بولی جاتی ہے۔  جب 1965 میں زائرے بنا تو ان کو نکال دیا گیا۔ یہ ایچ آئی وی کو اپنے ساتھ لے گئے۔

ہیٹی میں یہ تیزی سے پھیلی کیونکہ خون کا عطیہ لینے والا پلاسمافریسز سنٹر خون کو الگ نہیں رکھتا تھا بلکہ ایک گروپ کے خون کو مکس کر دیتا تھا۔ الگ ڈونرز سے آنے والے خون کو مکس ہونے سے اس وائرس کو زیادہ لوگوں میں ٹرانسفر ہونے کا موقع ملا۔ 1982 تک پورٹ آو پرنس میں یہ وبائی صورت اختیار کر گیا تھا۔

امریکہ میں اس کا داخلہ 1969 کے قریب ہوا اور یہ ہیٹی سے آنے والے صرف ایک شخص یا خون کی بوتل کے ذریعے پہنچا۔ دس سال تک اس کو کسی نے نوٹ نہیں کیا۔ اس وقت تک یہ پھیل چکا تھا۔ شمالی اور جنوبی امریکہ، یورپ اور ایشیا میں لوگ اس سے متاثر ہو چکے تھے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں