باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 18 فروری، 2020

انسانی جینوم کا پراجیکٹ ۔ جین (18)

سائنس اور ٹیکنالوجی کی تاریخ میں ہونے والے بریک تھرو دو اقسام کے رہے ہیں۔ ایک سکیل کا شفٹ جہاں پر سائز اور سکیل کو بڑھا کر کامیابی حاصل کی گئی۔ چاند پر جانے والا راکٹ چاند کی طرف رخ کر کے عمودی پرواز کرنے والا جیٹ طیارہ تھا۔ اور دوسرا تصور کا شفٹ جو کسی انقلابی تصور اور آئیڈیا سے ممکن ہوا۔ سکیل کے شفٹ تصور کا شفٹ ممکن کرتے ہیں اور نئے تصورات سکیل کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ یہ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتا ہے۔

خورد بین نے بصری دنیا سے نیچے کی دنیا کو کھولا۔ خلیے تک پہنچایا۔ خلیے کی اندرونی اناٹومی اور فزیولوجی پر سوال کھڑے کئے اور پھر ان کی تلاش میں مزید طاقتور خوردبین کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ بنائی گئیں کہ وہ خلیے کے اندر کی دنیا کا کھوج لگائیں۔ جینیات میں اس طرح کا شفٹ 1970 اور 1980 کی دہائی میں آیا۔ جین کی کلوننگ، اس کو تقسیم کرنا، جینیاتی انجینیرنگ، جین ریگولیشن میں تبدیلی، جین کو میپ کرنا۔ سینکڑوں جینز کو الگ کیا گیا اور ان کو کلون کیا گیا۔ لیکن کسی جاندار کی جینز کا مکمل کیٹالاگ تیار کرنا؟ اس کی ٹیکنالوجی تو موجود تھی لیکن اس کام کو کرنا؟ یہ ایک بہت ہی بڑا پراجیکٹ ہوتا۔ 1977 میں فریڈ سینگر نے فائی ایکس وائرس کا جینوم سیکونس کیا۔ اس میں 5,386 بیس پئیر تھے۔ یہ اس وقت کی جین سیکونس کرنے کی صلاحیت کی حد تھی۔ انسانی جینوم تین ارب سے زیادہ بیس پئیر پر مشتمل ہے۔ پونے چھ لاکھ گنا زیادہ!! اس سے اگلی دہائیوں میں ان ٹیکنالوجیز میں آنے والی سکیل کی شفٹ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہنٹگٹن بیماری کی جین کا پتا لگتا ہوئے پچیس برس لگے تھے۔ چھاتی کے کینسر کا سبب بننے والی پہلی جین BRCA1 کی شناخت 1994 میں ہوئی تھی۔ عام خیال اب یہ بننے لگا تھا کہ سنگل جین جینیٹکس زیادہ دور تک نہیں لے جا سکے گی۔ جیمز واٹسن اب اس خیال کی وکالت کر رہے تھے کہ ایک بار پورے انسانی جینوم کو سیکوئنس کیا جائے۔ پہلے سے لے کر آخری نیوکلئیوٹائیڈز کو۔ تین ارب بیسز کا نقشہ جس میں سب کچھ ہو۔ اور پھر ہر دریافت اس نقشے پر نوٹ کی طرح لگائی جائے۔ ایک نارمل نقشے میں سے ایبنارمل کو ڈھونڈا جا سکے۔ “ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے اس کو جغرافیہ کی طرح پڑھا جا سکے گا”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بیماری اور ایک جین کا طریقہ مونوجینیٹک بیماریوں کے لئے تو ٹھیک تھا لیکن ایسی بیماریوں کی تعداد بہت کم ہے۔ جینیاتی بیماریوں کا سبب جینوم میں بکھری کئی جینز کا آپس میں ملکر ہونے والا انٹرایکشن ہوتا ہے۔ چھاتی کے سرطان میں مبتلا ایک ہی خاتون کے دو الگ مقامات سے لئے گئے سیمپل کا بہت مختلف میوٹیشن رکھنا ممکن ہے۔ کینسر کو سمجھنے کے لئے پورے جینوم کو سمجھنا ضروری ہے، نہ کہ انفرادی جین کو۔ اور کسی کینسر جینیسسٹ کے لئے یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک نارمل کا نقشہ سامنے نہ ہو۔

شیزوفرینیا، وراثتی بیماریاں، جرم پر مائل ہونا، ذہنی مرض، ذہانت، اخلاقی کرپشن، نشہ کرنے کا رجحان، صبر، تشدد؟ کیا اس کو جینوم سے نکالا جا سکتا ہے؟ ہومو سپییئن کی مالیکیولر بائیولوجی؟

گلبرٹ نے تخمینہ لگایا تھا کہ اس پراجیکٹ پر تین ارب ڈالر خرچ آئے گا۔ یہ بہت بڑا خرچ ہے۔ کیا اس سے نکلنے والا نتیجہ اتنا اہم ہے کہ یہ خرچ کیا جائے؟ اپالو پروگرام پر چار لاکھ افراد نے کام کیا تھا اور سو ارب ڈالر خرچ کئے گئے تھے۔ ہم چاند تک پہنچ گئے۔ کیا اپنے اندر بھی پہنچنا چاہیں گے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہ پس منظر تھا جس میں ہونے والے مباحث اور امریکی پارلیمنٹ میں ہونے والے سوال جواب کے بعد اس کی منظوری دے دی گئی۔ قومی ادارہ صحت کو پراجیکٹ کی لیڈ ایجنسی بنایا گیا، توانائی کے ادارے کا کردار رکھا گیا۔ واٹسن اس کے سربراہ بنے۔ بعد میں اس میں برطانیہ، فرانس، چین، جاپان اور جرمنی کے سائنسدانوں نے اس پراجیکٹ میں شمولیت اختیار کی۔

جنوری 1989 کو بارہ لوگوں کی ایڈوائزری کونسل کی ادارہ صحت کے کانفرنس روم میں ملاقات ہوئی۔ “آج ہم انسانی بائیولوجی کے اہم ترین کام کا آغاز کر رہے ہیں۔ کچھ بھی ہو، یہ ایک بڑا ایڈونچر ہے۔ ایک انمول اور کبھی نہ ختم ہونے والی سعی۔ اور جب ہم اپنا کام ختم کر لیں گے تو کوئی اور اٹھے گا اور کہے گا۔ چلو، اب ہم اپنا کام شروع کرتے ہیں”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس پراجیکٹ کو پہلا سرپرائز جین نے نہیں بلکہ ایک نیوروبائیولوجسٹ نے دیا۔ کریگ وینٹر کی شہرت ناممکن کاموں میں چھلانگ لگا دینے کی تھی۔ انہوں نے جین سیکوئنس کرنے کا ایک شارٹ کٹ ڈھونڈا تھا جو جین کے حصے بخرے کر کے اس میں سے کے ایکٹو حصے کو سیکوئنس کرنے کا تھا، اور وہ اس طریقے سے ایک اور پراجیکٹ میں دماغ سے متعلق کچھ جین پڑھنا چاہتے تھے اور اس کا پیٹنٹ کروانا چاہتے تھے۔ لمبے تنازعے کے بعد وینٹر نے ادارہ صحت کو 1992 میں چھوڑ کر اپنی تنظیم بنا لی جو انسٹی ٹیوٹ فار جینوم ریسرچ تھی۔ اس ادارے نے 1995 میں نمونیا کے بیکٹیریا کا جینوم معلوم کر لیا۔ یہ ادارہ اب جینوم پراجیکٹ کے مقابل تھا۔ اس شارٹ کٹ والے طریقے سے جینوم پراجیکٹ کے کئی سائنسدان متفق نہیں تھے۔ نقادوں کے مطابق اس سے غلطی رہ جانے کا اور کچھ چھٹ جانے کا احتمال تھا۔ اتنے اہم پراجیکٹ میں یہ رسک نہیں لیا جا سکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جینوم پراجیکٹ میں جاری کئی طرح جھگڑوں کے سبب واٹسن نے 1993 میں پراجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کی جگہ فرانسس کولنز آ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر جینوم پراجیکٹ کو کولنز نہ ملتے تو ان کو کولنز ایجاد کرنے کی ضرورت پڑ جاتی۔ جینیات کے بہت ہی قابل سائنسدان جنہوں نے سسٹک فائبروسس کی جین کلون کی تھی، کٹر مذہبی، محتاط، بات کرنے میں اور پیغام پہنچانے میں ہوشیار، تحمل مزاج اور ایک اہل منتظم۔ یہ چیلنج گویا انہی کے لئے بنا تھا۔

جینوم پراجیکٹ میں ایک کام کیچوے پر کیا جا رہا تھا۔ وورم جینوم پراجیکٹ پر کامیابی دسمبر 1998 کو ہو گئی۔ یہ پہلا کثیر خلوی جاندار تھا جس کا جینوم پڑھا گیا تھا۔ اسکا منہ، آنت، پٹھے ہوتے ہیں۔ اعصابی نظام اور چھوٹا سا دماغ بھی ہوتا ہے۔ یہ چھو سکتا ہے، محسوس کر سکتا ہے، حرکت کر سکتا ہے۔ زہریلی چیز  محسوس کر کے سر پرے ہٹا لیتا ہے۔ دوسرے کیچووں سے میل ملاپ رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ خوراک کی کمی پر بے چینی بھی محسوس کرتا ہو اور ساتھی مل جانے پر خوشی کی کوئی لہر بھی۔ اس کے 18,891 جین تھے۔ اس میں سے 36 فیصد ویسے پروٹین بناتے تھے جو انسانوں جیسے ہوتے ہیں۔ دس ہزار جین ایسے تھے جن کی انسانوں سے مشابہت نہیں تھی۔ اس کے صرف دس فیصد ایسے جین تھے جن کی مشابہت بیکٹیریا کے جین سے تھی۔ باقی نوے فیصد کا تعلق جسم بنانے سے تھا جو بیکٹیریا میں نہیں۔ یہ یک خلوی سے کثیر خلوی کی طرف سفر کے دوران ہونے والی ارتقائی جدتوں کے برسٹ کا نشان تھا۔

انسانی جینوم کی طرح ایک کیچوے کی جین بھی کئی فنکشن کرتی تھی اور ایک فنکشن کئی جینز مل کر کرتی تھیں۔ دس ہزار نئی پروٹینز اور دس ہزار نئے فنکشنز کی دریافت ہی اسی پراجیکٹ کی اہمیت اجاگر کرتے تھیں لیکن سب سے زیادہ حیران کن چیز وہ جینز تھیں جو کوئی پروٹین نہیں بناتی تھیں بلکہ آر این اے پیغامات بنانے والی نان کوڈنگ جینز تھیں۔ یہ جینوم میں بکھری پڑی تھیں لیکن کچھ جگہیں پر زیادہ۔ کچھ کا فنکشن معلوم تھا جیسا کہ رائبوسوم (جو پروٹین بنانے کے کام آتا ہے)۔ کچھ مائیکرو آر این اے تھا جو بہت ہی خاص طریقے سے کچھ جینز کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ کئی کا فنکنش اور اہمیت نامعلوم تھی۔

جس چیز کو اس نے سب سے نمایاں طریقے سے اجاگر کیا، وہ یہ کہ اہمیت ایک جین کی نہیں، بلکہ پورے جینوم کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی جینوم پراجیکٹ اب ایک چوتھائی کام مکمل کر چکا تھا۔ کروموزوم 22 کو مکمل پڑھا جا چکا تھا۔ اس کی کنفرمیشن کی جا رہی تھی۔

جبکہ دوسری طرف وینٹر نے اپنا نیا ادارہ سیلرا کے نام سے بنا لیا تھا۔ مقابلہ جاری تھا۔ سیلرا نے اپنا بڑا اعلان 17 ستمبر 1999 کو کیا۔ کیچوے کے جینوم کے نو ماہ بعد اعلان کیا کہ وہ اپنی تکنیک سے فروٹ فلائی کا جینوم مکمل کر چکے ہیں اور یہ پورا کام صرف گیارہ ماہ میں ہوا ہے اور انسانی ڈی این اے کی سیکونسنگ شروع کر دی ہے۔ یہ کام اندازے سے زیادہ آسان لگ رہا ہے۔ مارچ 2000 کو “سائنس” کے سپیشل رسالے میں مکھی کا جینوم شائع کر دیا گیا۔ وینٹیر کے شاٹ گن طریقے کے نقاد بھی اس ڈیٹا کی کوالٹی اور گہرائی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

انسانوں میں جو 289 جینز کی شناخت ہو چکی تھی۔ اس مکھی میں ان میں سے 177 موجود تھیں۔ ہیموفیلیا یا سکل سیل انیمیا کی جین نہیں تھی (مکھی میں سرخ خون نہیں ہوتا) لیکن وہ جینز جو بڑی آنت کے کینسر، ٹے سیکس بیماری، چھاتی کے سرطان، الزائمر، پارکنسن، ذیابیطس، ڈسٹروفی میں ملوث تھیں، وہ مکھی میں بھی تھیں۔

چار ٹانگوں، دو پروں اور ارتقا میں کروڑوں سال کے فرق کے باوجود انسان اور مکھی کئی جینیاتی نیٹ ورک اور کور پاتھ وے شئیر کرتے تھے۔

ایک اور بڑی حیرت انگیز دریافت اس کے جینوم کا سائز تھا۔ مکھیوں کے بائیولوجسٹس کی توقع کے برخلاف مکھی میں صرف 13,601 جینز تھیں۔ کیچوے سے پانچ ہزار کم۔ صرف تیرہ ہزار جینز سے ایک جاندار بن گیا تھا جو ساتھی تلاش کرتا تھا، بوڑھا ہوتا تھا، اگلی نسل پیدا کرتا تھا، مشروب پیتا تھا، سونگھ سکتا تھا، دیکھ سکتا تھا، چھو سکتا تھا اور پکے ہوئے پھلوں کی خواہش رکھتا تھا۔ “پیچیدگی کا تعلق جینز کی تعداد سے نہیں۔ تنظیم سے ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں انسانوں میں بھی اسی قسم کا جینوم ملے گا۔ ایک جہاز تختوں سے نہیں، ان کی تنظیم سے بنتا ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیومن جینوم پراجیکٹ پر کام رفتار پکڑ رہا تھا۔ سینگر نے تین سال میں ایک قسم کے وائرس کا جینوم مکمل کیا تھا۔ اتنا کام اب پچیس سیکنڈ میں ہو جاتا تھا۔ سیلرا اور ہیومن جینوم پراجیکٹ دونوں میں کانٹے دار مقابلہ تھا۔  مئی 2000 کو ان کے درمیان معاملہ طے کروانے کے لئے صدر بل کلنٹن نے پیٹرینو کو کہا۔ کولنز اور وینٹر کے درمیان ملاقاتوں میں کچھ مفاہمت ہو گئی۔ ایک مشترکہ اعلان کرنے کی تاریخ طے کر لی گئی۔

بل کلنٹن، ٹونی بلئیر، واٹسن، وینٹر کھے علاوہ ان پراجیکٹ پر کام کرنے والے اہم لوگوں نے یہ اعلان 26 جون 2000 کو ملکر کیا، “آج ہم پہلا سروے ختم ہونے کا جشن منا رہے ہیں۔ ہم ایک نقشہ تیار کر لینے کے قریب ہیں۔ بلاشبہ یہ انسانی تاریخ کا اہم ترین نقشہ ہو گا”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیومن جینوم پراجیکٹ نے 15 فروری 2001 کو “نیچر” جبکہ سیلرا نے 16 فروری کو “سائنس” میں اپنے پیپر شائع کر دئے۔ اس قدر بڑے جو پورے جریدے کے سائز کے تھے۔

نیچر نے اس کا آغاز ان الفاظ سے کیا تھا،

“بیسویں صدی کا آغاز مینڈیل کے وراثتی قوانین سے ہوا تھا جو فطرت کو سمجھنے کی سائنسی تلاش کا ایندھن بنے۔ بیسویں صدی کی سائنسی ترقی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دور میں اس کی خلیاتی بنیاد سمجھی گئی، دوسری میں مالیکیولر بنیاد اور ڈی این اے۔ تیسرے نے اس کی انفارمیشن کی بنیاد جو جینیاتی کوڈ تھا۔ اس سے ہم نے معلوم کیا کہ اس کا بائیولوجیکل مکینزم کیا ہے۔ جاندار کیسے بنتے ہیں۔ ڈی این اے ری کمبی نیشن اور کلوننگ ہوئی اور سیکیونسنگ۔ اب ہم چوتھے دور کے آغاز پر کھڑے ہیں جو جینومکس کا دور ہے۔ جانداروں کے پورے جینوم کا تجزیہ جس میں انسان بھی شامل ہیں۔ فلسفے میں ایک پرانا مخمصہ ہے کہ کیا ایک ذہین مشین کبھی اپنے انسٹرکشن مینوئل کو سمجھ سکتی ہے؟ انسانوں کے لئے ۔۔۔ یہ مینوئل تو اب مکمل ہے۔ اس کو پڑھ کر اس سے معنی نکالنا اور اس کو سمجھ لینا اب ایک الگ چیلنج ہے”۔

(جاری ہے)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں