باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 14 جون، 2023

ضدی اقلیت (2)


ایک دعوت پر گفتگو چل رہی تھی۔ ایک نوجوان بھی اس میں شریک ہو گیا۔ اسے مشروب پیش کیا گیا جو شکنجبین تھی۔ لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ میزبان نے کہا کہ “فکر نہ کرو۔ یہاں پر سارے مشروبات کوشر ہیں”۔ میرے لئے یہ باعثِ تعجب تھا۔ اس وقت شکنجبین کے ڈبے کو دیکھا تو اس پر ایک چھوٹا سا نشان بنا تھا جس میں دائرے کے اندر U لکھا ہوا تھا۔ یہ کوشر مشروب کا نشان تھا۔ اس وقت مجھے علم ہوا کہ میں بھی عرصے سے کوشر مشروبات ہی پی رہا تھا، اگرچہ مجھے اس کا پہلے علم نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس وقت میں مجھے ایک عجیب خیال نے آن لیا۔ امریکہ میں صرف 0.3 فیصد آبادی اس بات کی پرواہ کرتی ہے کہ مشروبات کوشر (یہودیوں کی شرع کے مطابق تیار کردہ )ہوں لیکن زیادہ تر مشروبات پھر بھی کوشر ہوتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟ یہاں پر اصول سادہ ہے۔
“ایک کوشر کھانے والا یا حلال کھانے والا شخص کبھی بھی دوسری خوراک نہیں لے گا لیکن جسے اس کی پرواہ نہیں، اسے کوشر میں یا حلال خوراک سے کوئی مسئلہ نہیں”۔
یہاں پر ایک اقلیتی آبادی کا اصول تمام ملک کی خوراک پر اثرانداز ہوتا ہے۔
ایسی اقلیت کو ہم ثابت قدم کہہ لیتے ہیں اور اکثریت کو لچکدار اور لچک کی یہ مقدار گروہ کے انتخاب پر assymetric اثر ڈالتی ہے۔
نیوزی لینڈ سے برآمد ہونے والا ستر فیصد گوشت حلال ہوتا ہے۔ نیویارک کی ریڑھیوں سے ایسا گوشت تلاش کرنا جو حلال نہ ہو، دشوار کام ہے۔ برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں مرغ کا زیادہ تناسب حلال سرٹیفائیڈ ملتا ہے جبکہ مسلمانوں کا تناسب ان میں سے کسی جگہ پر بھی زیادہ نہیں۔۔۔۔
جینیاتی لحاظ سے تبدیل شدہ خوراک کے عام ہونے میں رکاوٹ بھی یہی اصول ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ اصول بہت سی اور جگہوں پر بھی نظر آتا ہے۔ فرانس کے فزسسٹ سرجے گلام نے اس کو سیاست اور سماجیات میں استعمال کیا۔ ان کے ماڈل انتخابات کے بارے میں دلچسپ بصیرت دیتے ہیں۔
سیاسی “ماہرین” اس سراب کا شکار ہوتے ہیں کہ اگر کسی انتہاپسند جماعت (خواہ دائیں یا بائیں بازو کی) کو دس فیصد آبادی کی حمایت حاصل ہے تو اس کا امیدوار دس فیصد ووٹ لے گا۔ لیکن یہ غلط ہے۔ یہ دس فیصد “ثابت قدم” ووٹ ہیں جو کسی بھی صورت میں اس امیدوار کو ووٹ دیں گے جبکہ “لچکدار” ووٹرز میں سے بھی انتہاپسند امیدوار ووٹ لے سکتا ہے (ویسے ہی جیسے حلال کی پرواہ نہ کرنے والے کو حلال سے مسئلہ نہیں)۔ اور ایسے ووٹرز کی وجہ سے انتہاپسند پارٹی کے ووٹ زیادہ ہو سکتے ہیں جو سیاسیات میں دلچسپ نتائج کی وجہ بنتے ہیں اور “ماہرین” کی پیشگوئیاں غلط ہو جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ریستوران مقبول کیوں ہو جاتے ہیں؟  شادی کے کھانوں میں قیمہ بھرے کریلے کبھی بھی کیوں نہیں رکھے جاتے؟ اس کی بھی یہی وجہ ہے۔
فاسٹ فوڈ کی مقبولیت کی وجہ یہ نہیں کہ یہ بہترین خوراک سمجھی جاتی ہے بلکہ یہ کہ یہ “ویٹو ایفکٹ” کا شکار نہیں ہوتے۔ پیزا یا مک ڈونلڈز کو مسترد کر دینے والے کم ہوتے ہیں۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر جرمنی میں ایک میٹنگ ہو رہی ہے اور کمرے میں کوئی ایک شخص ہے جسے جرمن نہیں آتی تو تمام میٹنگ انگریزی زبان میں ہو گی۔ خواہ تمام شرکاء میں سے کوئی بھی انگریزی میں رواں نہ ہو۔
کسی وقت میں یورپ میں اشرافیہ کی زبان فرانسیسی تھی جبکہ تجارت کرنے والے عام لوگ ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لئے انگریزی استعمال کر لیتے تھے۔ ان زبانوں کی لڑائی میں تجارت جیت گئی۔ فرانسیسی اپنی زبان کی “خوبصورتی” کی ترویج کرنے میں لگے رہے جبکہ جرمن میٹنگ روم کی مثال بتاتی ہے کہ عملی استعمال کی وجہ سے انگریزی نے اسے پچھاڑ دیا۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں