باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 2 فروری، 2020

مُردہ ہیرو

ہسپتال میں “ح” کو سرجری کے لئے آپریشن تھیٹر لے جایا جا رہا ہے۔ ان کی موت کچھ دیر پہلے ہی ہوئی تھی۔

ح کے جسم میں تقریباً سب کچھ ٹھیک معمول کے مطابق کام کر رہا ہے، سوائے دماغ کے۔ ان کو “دھڑکتے دل والا مردہ” کہا جاتا ہے۔ جب تک مصنوعی تنفس ایجاد نہیں ہوا تھا، ایسا ہونا ممکن نہیں تھا۔ جب تک دماغ کام نہ کرے، سانس نہیں آتا۔ لیکن مصنوعی تنفس والی مشین کے ساتھ لگا دے تو دل دھڑکتا رہے گا، اعضاء کام کرتے رہیں گے۔ کئی دنوں تک جسم کا نظام جاری رہے گا۔ آپ ان کی نبض محسوس کر سکتے ہیں۔ اگر بازو پر ہاتھ لگائیں گے تو وہ گرم لگے گا۔ ویسے ہی جیسا آپ کا اپنا بازو ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر اور نرس ح کو مریضہ کہتے ہیں۔ ان کا پری سرجری کارڈ بنایا گیا ہے۔ ح کی برین ڈیتھ ہو چکی ہے۔ وہ قانونی طور پر وفات پا چکی ہیں۔ لیکن اعضاء اور ٹشو زندہ ہیں۔ اس متضاد لگنے والی دو حقیقتوں کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس ایک نادر موقع ہے، جو کسی اور کے پاس نہیں۔ مر جانے کے بعد کچھ زندہ مریضوں کی زندگی بچانے کا۔

زندگی میں ان کی خواہش کے مطابق، اگلے چند گھنٹے میں ح اپنا جگر، دل اور گردے عطیہ کر دیں گی۔ ایک ایک کر کے سرجن آئیں گے، ان کے اعضاء نکال کر لے جائیں گے۔ وہ جلدی میں ہیں تا کہ یہ ان مریضوں کو دئے جا سکیں جن کو ان کی ضرورت ہے۔ ح کو اب ان کی مزید ضرورت نہیں رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس پروسیجر کو آرگن ریکوری کہا جاتا ہے۔ یہ آپریشن کیلے فورنیا میں ہو رہا ہے۔ ایک سرجن ایک دوسری ریاست یوٹاہ سے جہاز کے ذریعے یہاں پہنچنے والے ہیں۔ وہ ان کا دل لینے آئے ہیں۔ جبکہ گردے اور جگر اسی ہسپتال میں دو منزلیں نیچے مریضوں میں ٹرانسپلانٹ کر دئے جائیں گے۔ سان فرانسسکو میڈیکل سنٹر اعضاء کے ٹرانسپلانٹ کا بڑا مرکز ہے۔ بہت سے لوگ ویٹننگ لائن میں ہیں۔

جو لوگ مرنے کے بعد اعضاء کا عطیہ کرتے ہیں، ان میں سے ہر عضو کو نکالنا ایک مہارت والا کام ہے۔ اگر کسی کا انتقال کسی چھوٹے شہر میں غیرمتوقع طور پر ہو جائے تو تربیت یافتہ ڈاکٹر تیار ہوتے ہیں کہ وہ یہ سرجری وہاں کے ہسپتال میں جا کر کر سکیں۔ (ایسی افواہیں، جن میں لوگوں کے گردے ہوٹل میں نکال لئے جاتے ہیں، کچھ حقیقت نہیں رکھتیں)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کے سرجن ڈاکٹر اینڈی پوسلٹ ہیں۔ ان کا برقی اوزار ایک قلم کی طرح لگتا ہے۔ یہ جس طرح کاٹتا جاتا ہے، ویسی ہی شریانوں کو بھی پگھلا کر بند کرتا جاتا ہے۔ خون بہت کم نکلے گا۔ اس کو عمودی کاٹا گیا ہے۔ اندر آپ کو ہر عضو زندہ ہی لگ رہا ہے۔ جگر کی نبض بھی نظر آ رہی ہے۔ دل کی دھڑکن سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کسی جیتے جاگتے شخص کا دل ہو۔ اور یہ موت کے بارے میں صدیوں سے کنفیوژن کی عکاسی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب تک دماغی ایکٹیویٹی کی پیمائش نہیں کی جا سکتی تھی۔ دل کی دھڑکن کسی کی زندگی اور موت کا پیمانہ سمجھی جاتی تھی۔ اور اس کی تمیز کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوا کرتا تھا۔ انیسویں صدی کے وسط میں سٹیتھوسکوپ ایجاد ہوئے۔ اس سے پہلے ڈوبنے والوں، زہرخوانی کا شکار ہونے والوں اور سٹروک کے مریضوں کی ہلکی سی نبض کئی بار دھوکہ دے سکتی تھی۔ دل جسم کا سب سے متحرک عضو ہے۔ اس لئے اس خیال کی قبولیت میں طویل عرصہ لگا کہ دل تو بس ایک پمپ ہے۔ ہزاروں سال پرانے اس عقدے کی حل کرنے اور شاعروں کے اس رومانس پر مہر ثبت کرنے والے ولیم ہاروے تھے۔ ح کا دل دھڑک رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر  پوسلٹ نے شریانیں الگ کرنا شروع کیں اور اعضاء نکالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایک بار جسم سے الگ ہونے کے بعد دل کو دوسرے مریض میں لگانے کے لئے صرف چار سے چھ گھنٹے ہیں۔ گردے اٹھارہ سے چوبیس گھٹنوں کے لئے محفوظ کئے جا سکتے ہیں۔ چند منٹ بعد نرس نے آ بتایا کہ یوٹاہ سے آنے والے ڈاکٹر پہنچ چکے ہیں۔ اب دل نکالا جا سکتا ہے۔

یوٹاہ والے ڈاکٹر نے آ کر کپڑے تبدیل کئے، دستانے چڑھائے۔ انہوں نے یہ دل نکال لیا۔ نکالنے کے بعد بھی یہ ویسے ہی دھڑکتا رہتا ہے۔ پہلی بار دیکھنے والے کے لئے یہ ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے۔ اس کی اپنی بائیوالیکٹرک پاور سورس ہے جس کا تعلق دماغ سے نہیں۔ ایک سے دو منٹ بعد یہ آکسیجن نہ پہنچنے کی وجہ سے مدہم ہونے لگتا ہے اور رک جاتا ہے۔ جب یہ کسی دوسرے شخص کے سینے میں لگا دیا جائے گا اور اس کا خون اس میں بہنے لگے گا تو یہ واپس دھڑکنا شروع کر دے گا۔ یہ دل جس کو لگائے جانا ہے، وہاں کی ٹیم کو اطلاع پہنچ رہی ہے۔ مریض کو دل کی تبدیلی کے آپریشن کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے بعد جگر اور آخر میں گردے نکال لئے گئے۔ گردے نیلے پلاسٹک کے پیالے میں برف اور پرفیوژن لیکوئیڈ کے ساتھ رکھ دئے گئے۔ اضافی رگیں اور شریانیں بھی نکالی گئی ہیں تا کہ یہ ٹرانسپلانٹ میں معاون ہو سکیں۔  ح کی موت کو چار گھنٹے گزر چکے ہیں۔ آخری کام ریلیف سرجن نے کرنا ہے۔ جلد اور چربی کے جو ذرے الگ ہو چکے تھے، اس کو واپس مریضہ کے جسم میں ڈالا گیا۔ اس لئے کہ یہ عطیہ نہیں کئے گئے تھے۔ ڈاک نے اپنے دستانے والے ہاتھوں سے زخم بند کیا، ٹانکے لگائے اور سہلایا جیسے ح کو تسلی دے رہے ہوں۔

آپریشن مکمل ہو چکا۔ نرس نے ح کا جسم پانی سے صاف کیا اور ان کو کمبل سے ڈھک دیا۔ ان کے لئے صاف اور نیا کمبل نکالا گیا۔ نرس اور کوآرڈینیٹر نے ح کو اٹھا کر گورنی (پہیہ گاڑی) میں ڈالا۔ لفٹ میں لے جایا گیا اور گراوٗنڈفلور کا بٹن دبا دیا گیا۔ ح کو اب مردہ خانے لے جایا گیا۔ اس سرد کمرے میں پانچ اور مردے بھی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ح ان پانچوں سے مختلف نہیں لگ رہیں۔ لیکن وہ باقی سب سے مختلف ہیں۔ انہوں نے تین مریضوں کو شفایاب کرنے کے لئے اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ ان کو اپنے پیاروں کے ساتھ کچھ مزید وقت گزارنے کا انمول تحفہ دے دیا ہے۔ ح اور ان جیسے دوسرے ان مُردوں میں ہیرو ہیں۔

یہ اداس اور تکلیف دہ امر ہے کہ اس وقت اسی ہزار لوگ اعضاء کا عطیہ لینے کے لئے قطار میں ہیں۔ وقت پر عطیہ نہ مل سکنے کے سبب اس فہرست میں سے روزانہ سولہ لوگ وفات پا جاتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو زندگی میں اعضاء کو عطیہ کرنے کی وصیت کر چکے ہوتے ہیں، ان کے لواحقین میں سے بھی نصف سے زیادہ ایسے ہیں جو ایسا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ان انمول اعضاء کو کسی کی جان بچانے کے لئے استعمال کرنے کے بجائے مٹی تلے سڑنے یا جلا دئے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ہم خود اپنی اور اپنے عزیزوں کی زندگی کو بچانے کے لئے سرجن کے چاقو تلے جانا پسند کرتے ہیں لیکن کسی اجنبی کی جان بچانے کے لئے؟ ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ح کو ان کے لواحقین کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ ان کی آخری رسومات ادا کر کے ان کو دفن کر دیا جائے گا۔ ان کے سینے میں دل نہیں۔ لیکن کوئی بھی انہیں سنگدل نہیں کہہ سکتا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں