باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 18 جنوری، 2021

سوڈوسائنس ۔ اڑن طشتریاں (۱۳)


انتالیس لوگوں کے ایک گروپ نے کیلے فورنیا میں 26 مارچ 1997 کو باجماعت خود کشی کر لی۔ خواب آور گولیاں نگل لیں، سر پر پلاسٹک بیگ چڑھا لئے تھے کہ سانس نہ آئے۔ سب سیاہ قمیض، پتلون اور سیاہ نائیکے کے جوتوں میں ملبوس تھے۔ بہت طریقے سے کی گئی خودکشی کو کرنے والا گروپ اڑن طشتریوں کی بنیاد پر بنے مذاہب میں “جنت کا دروازہ” نامی گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس گروپ کے دو مزید ممبران نے اس اجتماعی خود کشی کے بعد خودکشی کا کام سرانجام دیا۔
فرانسیسی فلسفی البرٹ کامیو سے منسوب مشہور فقرہ ہے کہ  چونکہ زندگی بے معنی ہے تو واحد سنجیدہ فلسفانہ پوزیشن خودکشی ہے۔ ہم سب ہی ایسا کیوں نہیں کر لیتے۔ اس کے بہت سے جواب دئے جا سکتے ہیں۔ ایک کامن سینس کا جواب یہ ہے کہ آخر جلدی کیا ہے؟ کبھی نہ کبھی تو پہنچ ہی جائیں گے۔ لیکن اس روز اکیس سال سے بہتر سال عمر کے ان لوگوں کے پاس اس کا کچھ اور ہی جواب تھا۔ ان کے خیال میں، وہ اس دنیا کو ترک کر کے ایک اور ڈائمنشن میں جا رہے تھے۔ وہ اس کے قائل تھے کہ اس وقت زمین کے قریب آنے والے ہیلے بوپ دمدار ستارے کے ساتھ ایک اڑن طشتری تھی جو انہیں اس ڈائمنشن میں لے جائی گی۔ اس گروپ کیلئے ذہین خلائی مخلوق ان کے عقائد کا معاملہ تھا۔ اور ایک ریڈیو کے پروگرام “آرٹ بیل ریڈیو شو” نے ان کے اس وہم کو اپنی سنسنی خیز خبر پھیلانے کے لئے ہوا دی۔
یہ گروپ انتہائی سخت اصولوں پر چلتا تھا جس میں سوال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اور تجزیاتی سوچ کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ اس گروپ کے سربراہ ایپل وہائٹ نے کسی طرح دوسروں کو قائل کر لیا تھا کہ وہ خود انسانی جسم میں خلائی مخلوق ہیں۔ پیرانارمل، آسٹرولوجی اور دوسرے اوہام ان کے عقائد کا حصہ تھے۔ ٹی وی پر پیرانارمل دیکھا کرتے تھے۔
انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ اس ٹریجڈی کے پیچھے کئی فیکٹر تھے جن میں سے ایک کریٹیکل سوچ نہ ہونا تھا۔ انہوں نے ویڈیوز بنوائیں جس میں ممبران کہہ رہے تھے۔ “مجھے بے چینی سے انتظار ہے۔ میں بہت خوش ہوں”، “ہم سب یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس دنیا سے باہر اور کیا کچھ ہے”۔
ہماری جذباتی ضروریات، منطق اور کامن سینس کا سوئچ بجھا دئے جانا ۔۔۔ سوڈوسائنس کی تاریخ اس طرح کے بہت سے افسوسناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ حتیٰ کہ اڑن طشتریاں بھی مار دیتی ہیں۔ اپنی کسی لیزر گن سے نہیں بلکہ نارمل اور ذہین انسانوں کے اندھے ایمان کی وجہ سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظاہر ہے کہ اڑن طشتریوں پر عقیدہ رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ خود کشی کرنے لگیں۔ لیکن بیک وقت کریٹیکل سوچ کا کم ہونا اور جذباتی لحاظ سے غیرمطمئن ہونا اس طرح کے گروہوں میں عام ہے۔ اڑن طشتری ایسا موضوع ہے جس پر وسیع لٹریچر مل جائے گا۔ لیکن ہم اس بارے میں کچھ دعووں کا جائزہ لیں گے جو ہمیں سوڈوسائنس کی نیچر سے آگاہ کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یو ایف اولوجی کے شائقین کا کہنا ہے کہ اڑن طشتریوں کے بارے میں تمام واقعات کی وضاحت نہیں کی جا سکی۔ اور یہ بالکل درست بات ہے۔ لیکن اس کا مطلب خلائی مخلوق کی خلائی گاڑی کا ثابت ہونا نہیں۔ سائنس کا انکار کرنے کا دفاع کیلئے یہ تکنیک ہر تحریک استعمال کرتی ہے۔ اگر کسی چیز کی وضاحت نہیں کی جا سکی تو اس کا مطلب میری پسندیدہ وضاحت کا درست ثابت ہونا نہیں۔ میری پسندیدہ وضاحت کو شواہد کی سپورٹ درکار ہے۔
آرگومنٹ کے اس طریقے کو اگر پلے سے باندھ لیں تو آپ بہت سے غلط خیالات سے بچ سکیں گے۔ نہ صرف سوڈوسائنس میں بلکہ سیاست سے لے کر روزمرہ زندگی میں یہ عام طریقہ ہے۔ منطقی مغالطوں میں یہ سب سے عام ہے۔ اگر میری پاس جادو کی چھڑی ہوتی جس سے انسانی مغالطوں میں سے ایک کو ختم کیا جا سکتا تو وہ یہ والا ہوتا۔ لیکن چونکہ میں جادو کی چھڑی پر یقین نہیں رکھتا، اس لئے مجھے تحریریں لکھنا پڑتیں ہیں۔ :(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بارہ اگست 1986 کو رات دس بجے کینیڈا سے لے کر امریکہ کے جنوب تک بہت سے لوگوں نے آسمان پر کچھ دیکھا۔ یہ کیا تھا؟ کسی کو اس کا علم نہیں تھا۔ اس واقعے کو اڑن طشتریاں دیکھنے کا سب سے بڑا واقعہ کہا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اس روز کچھ تو آسمان پر ہوا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اسی روز کینٹکی میں کئی لوگوں کو ایک دھماکہ بھی سنائی دیا۔
جو ہوا تھا، اس کا جلد ہی معلوم ہو گیا۔ چونکہ بڑی تعداد میں لوگوں نے دیکھا تھا تو دلچسپی بھی زیادہ تھی۔ یہ ایک جاپانی راکٹ تھا جس کو لانچ کیا گیا تھا۔ اس کا ٹھیک ڈیٹا NORAD نے جاری بھی کر دیا۔ اور وہ دھماکا؟ یہ کینٹکی میں آتش بازی کے ایک ڈھیر میں ہوا تھا۔ یہ اس علاقے میں غیرمعمولی واقعہ نہیں تھا۔
اس سے ہمیں تین سبق ملتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب ہزاروں لوگ بتا رہے تھے کہ آسمان پر کچھ تھا تو وہ یقیناً درست بتا رہے تھے۔ کیا تھا؟ وہ الگ معاملہ ہے۔ دوسرا یہ کہ کینٹکی میں ہونے والا دھماکہ اگرچہ اس سے بالکل الگ واقعہ تھا اور اس وقت کے قریب قریب ہوا لیکن ایک اور بڑا منطقی مغالطہ “چونکہ یہ اس کے بعد ہوا، اس لئے یہ اس وجہ سے ہوا” کی بنیاد پر تعلق طے کر لینے کا ہے۔ تیسرا یہ کہ یہاں پر اصل کاز تک پہنچنا آسان اس لئے تھا کہ شاہدین کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے معاملے کی تفتیش پر توجہ زیادہ دی گئی۔ اور ہم جلد اصل بات تک پہنچ گئے۔
لیکن ظاہر ہے کہ لازمی نہیں کہ تمام واقعات کا جواب فوری دستیاب ہو (یا کبھی بھی دستیاب ہو)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار کچھ پرانے غیرحل شدہ مسائل بھی اتفاق سے حل ہو جاتے ہیں۔ بارہ ستمبر 1952 کو مسز کیتھلین میری اپنے چھ بچوں کے ساتھ ایک تفریح پر گئیں جہاں پر ان کے ٹین ایج بچوں نے فٹ بال کھیلتے ہوئے تیز روشنی کو پہاڑی کے پیچھے جا کر غائب ہوتے دیکھا۔ قریب سرخ روشنی بھی ٹمٹما رہی تھی۔ وہ پہاڑی پر گئے تو ایک ٹارچ مارنے پر گول چہرے پر سرخ آنکھیں نظر آئیں جو بلندی پر تھیں اور یہ چہرہ دائیں اور بائیں گھوم رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ چہرے پر جھریاں پڑی تھیں۔ سرسراتی سے آواز اور پھر وہ گروپ کی طرف بڑھا۔ کسی نے اس کے پنجے بھی دیکھے۔ سترہ سالہ لیمن نے چیخ ماری، ٹارچ کر گئی اور سب وہاں سے بھاگ گئے۔ ایک صحافی کو اس جگہ پر ٹائروں کے نشان ملے۔ روشنی کو اس علاقے کے کئی لوگوں نے دیکھا تھا۔
اس سے کئی دہائیوں بعد جو نکل نے اس کی تفتیش کا فیصلہ کیا۔ وہاں پر گئے اور لوگوں سے ملاقات کی جو زندہ تھے۔ نکل کے ذہن مںں ایسا کوئی شک نہیں تھا کہ وہ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی ہوشیار تفتیش سے کہانی کا سراغ مل گیا۔ یہ کہانی اس زمین کی ہی تھی۔  پہلی چیز جو واضح تھی کہ دکھائی دی جانے والی روشنی گزرنے والا ایک بڑا شہابیہ تھا۔ بوڑھے جونی لوکارڈ (جو عینی شاہد تھے) کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے ہم نے بھی یہی سمجھا تھا۔ میری لینڈ اکیڈمی آف سائنس نے اس روز اس بڑے شہابیے کی تصدیق بھی کر دی تھی۔ بچوں کو جو سرخ ٹمٹاتی روشنی نظر آئی تھی وہ ہوائی جہاز کے لئے الرٹ بیکن تھا جو قریب ہی تھا۔ پہیوں کے نشان اس فیملی کے اپنے ٹرک کے تھے (لیمن نے بتایا کہ یہ بات وہ خود بھی اس صحافی کو بتا چکے تھے)۔ پہیوں نے نشان واحد فزیکل ایویڈنس تھا۔
یہ سب ٹھیک لگتا ہے لیکن وہ سرخ آنکھیں؟
جو نکل نے اس کا معقول اندازہ لگایا کہ اس روز مسز نکل اور بچوں نے جو دیکھا تھا، وہ ایک “الو” تھا۔ عینی شاہدین نے جس طرح اسے بتایا تھا، اس کی سب سے زیادہ مماثلت الو سے ہی تھی۔ اس علاقے میں الو پائے بھی جاتے ہیں۔ اور کسی نے بھی چہرے سے نیچے کے بارے میں کسی چیز کا نہیں بتایا تھا۔۔ الو کا سر نامانوس لوگوں کے لئے پرسرارا ہے اور جب یہ خطرہ محسوس کرے تو اس کے سرسراتی ہوئی آواز اور چیخ خوفناک ہے۔ اگر انسانوں کا ایک گروپ ٹارچ کے ساتھ اس کی طرف بڑھ رہا ہو تو اس نے خطرہ محسوس کیا ہو گا۔
سیاحوں کا یہ گروپ جس نے جنگل میں الو پہلے نہیں دیکھا تھا، ان کے لئے یہ سب نیا تھا اور اس وقت کی کیفیت میں خوفناک رہا ہو گا۔  جو نکل کے مطابق، “اگر وہ الو کی طرح لگ رہا تھا، الو کی طرح حرکت کر رہا تھا اور الو کی طرح آواز نکال رہا تھا، تو زیادہ گمان اسی بات کے بارے میں کیا جا سکتا ہے کہ وہ الو تھا”۔
جو نکل کی اس واقعے کی وضاحت اچھی ہے۔ یہ ہمیں کئی چیزوں کا بتاتا ہے۔ اول تو یہ کہ بہت سے پرسرار واقعات کی وضاحت آسان کام نہیں۔ لازمی نہیں کہ ان کے عینی شاہدین جھوٹ بول رہے ہوں۔ اور لازمی نہیں کہ ان کی وضاحت دی بھی جا سکے۔ فلیٹ وڈ کے اس واقعے کی معقول وضاحت کئی دہائیوں بعد ملی۔
دوسرا یہ کہ کچھ لوگ کہیں گے کہ جو نکل کی دی گئی وضاحت پر کیوں اعتبار کیا جائے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ واقعی خلائی مخلوق ہو۔  یہ اچھا اعتراض ہے اور بدقسمتی سے کسی بھی قسم کی تفتیش کی یہی نیچر ہے۔ جرم کی فورینسک ہو، سائنس اور پیرانارمل کی تفتیش۔ جو کام کیا جا سکتا ہے، وہ صرف اتنا کہ دستیاب ڈیٹا کے مطابق ہم مختلف وضاحتیں ترتیب دے سکیں۔ ان میں سے بہترین کونسی ہو گی؟ یہ سوال فلسفیوں کو بہت پریشان کرتا رہا ہے اور اس کا آسان جواب نہیں۔ اچھی وضاحت کا ایک معیار یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں کم سے کم مفروضات لئے گئے ہوں۔ (اس کو اوکم کا استرا کہتے ہیں)۔
۱۔ ایک الو کی طرح کی چیز کے دیکھے جانے کی وضاحت الو ہو گی۔
۲۔ اس روز ایک خلائی مخلوق فلیٹ وڈز کی اس پہاڑی پر اتری اور پھر غائب ہو گئی۔ اس کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی۔
ممکن تو دونوں ہیں۔ آپ کس پر شرط لگانے کو تیار ہیں؟  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسری مثال زیادہ دلچسپ ہے۔ اور اس میں سبق متشککین کے لئے ہے۔ اس لئے نہیں کہ یہ “اصل” اڑن طشتری تھی (اس اصطلاح کا جو بھی مطلب ہے) لیکن یہ سکھاتا ہے کہ کریٹیکل سوچ کا مطلب کیا ہے۔ پانچ مارچ 2004 کو میکسیکو کی حکومت کا ایک جاسوس طیارہ منشیات کی سمگلنگ پر نظر رکھنے کے لئے پرواز کر رہا تھا۔ اس کے عملے نے لگ بھگ گیارہ ایسے آبجیکٹ دریافت کئے جو صرف انفراریڈ سے نظر آ رہے تھے۔ اب، ہمارے پاس ایک قابلِ اعتبار حکومتی ذریعے کی ویڈیو موجود تھی۔ یہ تربیت یافت عملے نے لی تھی۔ اس کی کوئی وضاحت موجود نہیں تھی۔ اس روز کامپیچ کے آسمان پر کیا تھا؟ کیا یہ خلائی مخلوق کی طشتریوں کا پکا ثبوت نہیں تھا؟
بدقسمتی سے کچی پکی وضاحتی بیانیوں کے بھرمار لگنے لگے۔
مقامی آسٹرونومر ہوزے ہیرین نے کہا یہ کہ شہابیے کے ٹکڑے تھے۔ نیشل یونیورسٹی کے جولیو ہیریرا کا کہنا تھا کہ یہ فضا میں برقی فلئیر تھے۔ رفال ناوارو کے مطابق یہ پلازما توانائی کے سپارک تھے۔ موریلس آسٹرونومی سوسائٹی کے مطابق یہ موسمیاتی غبارے تھے۔ ان سب الگ الگ وضاحتوں میں صرف ایک چیز مشترک تھی۔ یہ سب غلط تھیں۔ اور اس رائے کو قائم کرنے کے پیچھے کچھ خاص شواہد نہیں تھے۔
اور یہ ہمیں حد سے زیادہ متشکک ہونے کے ایک نقصان سے آگاہ کرتا ہے۔ اگر احتیاط نہ کی جائے تو یہ پوزیشن ایک متکبر مسترد کرنے والے میں بدل سکتی ہے جس سے کوئی نیا خیال چپک نہیں سکتا۔ یہ پوزیشن بھی کریٹیکل سوچ میں اتنی ہی رکاوٹ ہے جتنی کسی حد سے زیادہ یقین رکھنے والے کی۔ نہ ہی اس سے سائنس کو کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی پبلک کو۔ کچی پکی وضاحتیں اپنا اعتبار ختم کرنے کا ہی طریقہ بنتی ہیں۔
یہاں پر کیا تھا؟ جیسا کہ بعد میں رچرڈ شیفر کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ تیل کے کنووں کے گروپ سے اٹھنے والے شعلے تھے۔ اس روز موسم خراب تھا۔ جہاز میں بیٹھے شخص کیلئے یہ غیرمانوس فنامینا تھا اور اسے خراب موسم میں پوزیشن کو ٹھیک معلوم کرنے میں غلطی ہوئی تھی۔ نہیں، یہ اڑن طشتری کی روشنی نہیں تھی۔ لیکن بالفرض ہمیں اس کی وضاحت کا نہ بھی علم ہوتا کہ یہ کیا تھا، تو پھر؟ تب بھی یہ خلائی مخلوق کی موجودگی کے شواہد نہ ہوتے۔
اور یہ ہمیں ایک بہت مشکل جواب کی اہمیت سے آگاہ کرتا ہے۔ ایسا جواب جو ہم نہ ہی دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی سننا چاہتے ہیں۔ یہ “معلوم نہیں” کا جواب ہے۔ ان کا سننے والوں کے لئے قابلِ قبول ہونا اور دینے والوں کے لئے اس کو تسلیم کرنا ۔۔۔ یہ دونوں آسان نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت سی چیزیں ہمیں معلوم نہیں۔ اگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہمیں پسند نہیں، تو یہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے۔
اگر آپ کسی سوال کا جواب دے رہے ہیں اور اس جس چیز کا علم نہیں، وہاں “معلوم نہیں” کہہ دینا ہی واحد مناسب طریقہ ہے۔
اگر آپ کسی سوال کا جواب سن رہے ہیں تو جب کوئی “معلوم نہیں” کہے تو اس جواب کو قبول کر لینا غلط خیالات سے محفوظ رکھے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کائنات میں ہمارے سوا ذہین مخلوق موجود ہے؟ ہمارے پاس اس سوال کا اندازہ لگانے کیلئے بھی طریقہ موجود نہیں۔ ابھی تک اس کے ہونے کی بہترین دلیل “ہونی تو چاہیے” ہی ہے اور نہ ہونے کی دلیل بھی اس سے بہتر نہیں۔ لیکن اس کے ہونے کی آس ہماری نفسیات کا حصہ ہے۔ تاہم “اُن” کی زمین کی آمد کے بارے میں کہانیاں کئی ہیں لیکن شواہد صفر ہیں۔
کیا میری خواہش ہے کہ ایک روز مینارِ پاکستان پر اڑن طشتری اترے اور اس سے نکلنے والی مخلوق ہم سے رابطہ کرنا چاہے؟ ضرور۔ کیا میرا خیال ہے کہ ایسا کبھی ہو گا؟ نہیں۔ لیکن ایک اچھا متجسس امکانات کے دروازے تو ہمیشہ کھلے رکھتا ہے۔  
اور ہاں، اگر آپ اڑن طشتریوں کے بہت زیادہ شائق ہیں اور بتائیں کہ "وہ فضا میں روشنی کا گولا یا پھر وہ امریکی فضائیہ کی ویڈیوز یا پھر وہ ۔۔۔۔ ؟؟”
نہیں، خلائی مخلوق کی موجودگی کے لئے اس سے کچھ خاصے بہتر شواہد درکار ہیں۔  
اور اگر آپ پوچھیں کہ “تو پھر یہ کیا تھا؟” تو میرا جواب ہے کہ “معلوم نہیں”۔  کیا آپ یہ جواب قبول کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔        
یو ایف اولوجی ایک مثال ہے جو “معلوم نہیں” کے خلا میں کام کرتی ہے۔ اور یہی سوڈوسائنس کے کھیلنے کا میدان ہے۔
اڑن طشتریوں پر اعتقاد کی وجہ سے “جنت کا دروازہ” نامی گروپ کی خود کشیاں افسوسناک ہیں لیکن سوڈوسائنس ایڈز کے علاج کے انکار سے لے کر ویکسین کی مخالفت، آسیب اتارنے والے عاملوں سے لے کر متبادل علاج کے طریقوں تک بہت بڑی تعداد میں جانیں نگل چکی ہے۔ پیراسائیکلوجی، علمِ نجوم، لا آف اٹریکشن سمیت قسم قسم کے بے سروپا خیالات کا عام ہونا صرف ان پیشوں سے منسلک شعبدہ بازوں کے لئے ہی اچھی خبر ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   
ہو سکتا ہے کہ کوئی پوچھے کہ کاہن، ٹیلی پیتھی، ٹیلی کائناسس، آسیب، اڑن طشتری، نجومی، فال، جوتشی، پانی سے چلنے والی گاڑیاں ۔۔۔  آخر سائنس میں ان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟
یہ توازن اتنا آسان نہیں۔ سائنس محدود وسائل سے کی جاتی ہے۔ عملی طور پر یونیورسٹیاں یا سائنسدان ان موضوعات پر کتنا وقت لگا سکتے ہیں۔ کونسا دعویٰ کتنا اہم ہے۔ (یا پھر ان کو کتنی بار غلط ثابت کیا جائے؟)
یہ تو خیر سائنسدانوں کا مسئلہ ہے۔ سائنس کی بنیادی تفہیم حاصل کر کے کم از کم ہم خود کو غلط خیالات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔  
(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں