باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 29 مارچ، 2021

کشمیر ۔ شہزادوں کی مجلس (۲۱)


مسلم لیگ کا موقف زیادہ سے زیادہ حصے کو پاکستان کا علاقہ بنانے کا تھا۔ زیادہ سے زیادہ میں غیرمنقسم پنجاب (جس میں امرتسر بھی تھا)، غیرمنقسم بنگال (جس میں کلکتہ بھی تھا)، شمال مغربی سرحدی صوبہ، بلوچستان اور سندھ تھے۔ کچھ نے اس سے بھی زیادہ کی خواہش کی تھی، جس میں آسام  کے علاوہ پاکستان کے دو حصوں کو آپس میں ملانے کی راہداری بھی تھی جس میں مغل سلطنت کا دارلحکومت دہلی، سابق نوابی ریاست اودھ، مسلم اکثریت کی نوابی ریاست رامپور اور شیرشاہ سوری کا دارالحکومت پٹنہ بھی تھا۔ (اس دعوے کو مزاحاً “جناحستان” کہا گیا تھا)۔
دوسری طرف کانگریس کی خواہش مسلم لیگ سے برعکس تھی۔ اولین ترجیح غیرمنقسم انڈیا رہی لیکن 1947 کی ابتدا تک کانگریس نے اس بات کو قبول کر لیا گیا تھا کہ تقسیم ناگزیر ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ علاقہ انڈیا کے پاس رکھنے کی کوشش تھی۔ اس میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے علاوہ جموں و کشمیر، تراونکور اور حیدرآباد کی ریاستیں حاصل کرنا تھا۔ 1947 کے آغاز تک برٹش نے مقامی راجوں پر واضح کر دیا تھا کہ ان کی ذاتی راج دہانیاں باقی نہیں رہنے والی۔ وہ انڈیا یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ ملنے کا طے کر لیں۔
پاکستان کے لئے ان ریاستوں میں بڑی ترجیحات بہاولپور، جموں و کشمیر اور قلات تھیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سے دور ریاستوں میں سے جوناگڑھ، حیدرآباد اور بھوپال کو ملانے کی کوشش کی گئی۔ برودا، اندور اور تراونکور سے بھی رابطہ کیا گیا۔ “کون بڑی قیمت لگانے کو تیار ہے؟” بہت سی ریاستوں کے حکمرانوں کے لئے یہ اہم معیار تھا۔ اس میں ایک مثال جودھپور کی تھی۔ یہ ہندوستان کے وسط میں واقع بھاری ہندو اکثریت کی ریاست تھی جس کے نواب ہندو تھے لیکن الحاق کے بارے میں نواب دونوں طرف سے اچھی آفر لینے کے لئے بات کرتے رہے۔ بالآخر، شدید دباوٗ اور فراخدلانہ قیمت لگائے جانے کے بعد انڈیا سے الحاق کا اعلان آزادی سے صرف ایک ہفتہ پہلے کیا۔     
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شطرنج کی بساط پر پڑے ان مہروں میں کشمیر کی ریاست اہم تھی۔ اگرچہ معاملہ پوری ریاست کا تھا لیکن اس میں سے اہمیت مشہور وادی کشمیر کی رہی ہے جہاں کے رہائشیوں میں 93 فیصد مسلمان تھے۔
دوسری طرف اس ریاست کے مشرقی علاقوں کی آبادی زیادہ تر پروانڈیا تھی۔ اس میں جموں کے چار اضلاع اور لداخ ڈسٹرکٹ شامل تھے۔
ایک ممکنہ حل کشمیر کی پنجاب اور بنگال کی طرز پر تقسیم کئے جانے کا ہو سکتا تھا۔ پنجاب اور بنگال میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ لیکن کسی کی طرف سے بھی 1947 میں ایسی کوئی تجویز نہیں آئی۔ وجہ کیا تھی؟ اس لئے کہ تقسیمِ ہند کے طے کردہ اصولوں کے مطابق یہ واضح تھا کہ فیصلہ مہاراجہ نے کرنا ہے۔ پاکستان کی طرف سے مہاراجہ سے رابطے نہیں کئے گے تھے اور ہری سنگھ اس بارے میں ہچکچا رہے تھے۔ مہاراجوں کو اپنے ساتھ ملانے کے طریقے دھمکی، لالچ، بہلانا پھسلانا، دھونس استعمال کئے جاتے تھے۔ انڈیا اس بارے میں پہل کم از کم ایک سال قبل کر چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برِصغیر چھوڑنے سے تین ہفتے قبل 25 جولائی 1947 کو لارڈ ماوٗنٹ بیٹن نے مقامی حکمرانوں کی اسمبلی چیمبر آف پرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ جانے کے بعد صرف دو ریاستوں سے تعلق رکھے گا۔ انڈیا اور پاکستان۔ کسی بھی اور ریاست سے نہیں۔ نواب اپنا جغرافیہ دیکھ کر اور اپنے لوگوں کی خواہشات کے مطابق خود فیصلہ کر لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وقت قیامِ پاکستان ہوا تو حقیقت یہ ہے کہ بہت سے انڈین ایسے تھے جن کا خیال تھا کہ یہ آزاد ریاست زیادہ عرصہ قائم نہیں رہے گی اور جلد واپس انڈیا میں جذب کر لی جائے گی۔ ایسی کسی توقع کے خلاف پاکستان بہت جلد ایک طاقتور ریاست بن کر ابھرا۔ اس کے اپنے دو حصوں کا بعد میں الگ ہو جانا تو شاید ناگزیر تھا لیکن اس معاملے کو چھوڑ کر، پاکستان بڑے نامساعد حالات اور مشکلات کا بہترین طریقے سے سامنا کرتا رہا ہے۔ آج سات دہائیاں گزر جانے کے بعد شاید ہی کوئی ہو جسے اس میں شک ہو کہ یہ ملک بہت طویل عرصہ باقی نہیں رہے گا۔ آزادی کے بعد بھارت میں بھی بہت جلد اس حققیت کو قبول کر لیا گیا تھا۔ ماسوائے، چند ایک انتہاپسند رائٹ ونگ ہندووٗں کے، “اکھنڈ بھارت” سنجیدہ تصور کبھی بھی نہیں رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ریاستوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ لینا تھا۔ تراونکور، حیدرآباد اور کشمیر کے حکمرانوں کی اپنی شخصی ریاستیں برقرار رکھنے کی سب سے زیادہ خواہش تھی۔ ترانکور کے حکمران نے جلد حقیقت کا ادراک جلد کر کے معاہدہ کر لیا۔ جوناگڑھ (اور اسکی ذیلی ریاست مناوادر)، حیدرآباد اور جموں و کشمیر کا معاملہ یومِ آزادی تک طے نہیں ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا اور پاکستان، دونوں کی طرف سے ریاستوں کا حاصل کرنا سیاسی داوٗپیچ والا کام تھا جس میں کسی باربط موقف یا اخلاقی برتری کا دعوٰی کوئی نہیں کر سکتا۔ کسی بھی سیاسی معاملے کی طرح اس میں دہرے معیاروں کی بھرمار تھی۔
جوناگڑھ میں مسلمان نواب نے ہندو اکثریت کی ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کر دیا۔ پاکستان نے فوراً قبول کر لیا۔  یہی صورتحال جموں و کشمیر میں اس سے برعکس تھی، جہاں پاکستان کا اعتراض مقامی آبادی سے رائے لئے بغیر کیا جانے والا فیصلہ تھا۔ دوسری طرف انڈیا نے نواب کے الحاق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اسے ناقابلِ قبول قرار دیا۔ جبکہ پاکستان نے ایسا ہی جموں و کشمیر کے الحاق کے بارے میں کیا۔ تیسرا یہ کہ انڈیا نے جوناگڑھ پر فوج کشی کی۔ پاکستان نے جموں و کشمیر میں یہی کیا۔ چوتھا یہ کہ انڈیا نے لوگوں کی رائے کے لئے استصوابِ رائے کروایا۔ اسی کا وعدہ جموں و کشمیر میں کیا لیکن وہاں یہ نہیں کروایا گیا۔ پانچواں یہ کہ جوناگڑھ کے نواب سے باغیوں کی عبوری کونسل انڈیا میں بنی۔ ویسی ہی مہاراجہ سے بغاوت کرنے والوں کی آزاد کشمیر میں بنی۔
حیدر آباد میں نواب نے آزاد رہنے کی کوشش کی۔ گوا کی بندرگاہ کو پرتگال سے خریدنے کی کوشش کی تاکہ انڈیا پر انحصار توڑا جا سکے۔ نومبر 1947 کو سٹینڈسٹل ایگریمنٹ (جوں کا توں رہنے کا معاہدہ) کیا۔ ستمبر 1948 میں ریاست میں نظام کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت کے بعد فوج کشی کر کے ریاست پر قبضہ کر لیا۔ یہاں پر انڈیا نے ریاستی حکمران کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ جموں و کشمیر میں لئے گئے انڈین موقف سے متضاد تھا۔ دوسرا یہ کہ انڈیا نے حیدرآباد کے خلاف اکانومک پاور استعمال کی (اس کے معاشی ناطقہ بندی کر دی گئی) جبکہ یہی کام جموں و کشمیر میں کرنے پر پاکستان پر نکتہ چینی کی۔  تیسرا یہ کہ فوجی طاقت استعمال کی۔ چوتھا یہ کہ یہاں پر استصوابِ رائے کا وعدہ نہیں کیا۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان کے لئے جموں و کشمیر پر اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ یہ “واضح موقف عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ” تھا۔ جبکہ حیدرآباد میں موقف اس کے متضاد اختیار کیا۔ اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں 1948 اور 1949 میں “حیدرآباد کوئسچن” زیرِغور آیا لیکن اس پر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ حیدرآباد انڈیا کے علاقائی اور سیاسی علاقے میں تھا۔ یہ معاملہ جلد ختم ہو گیا۔ (اقوامِ متحدہ میں اس پر آخری بار 24 مئی 1949 میں بات کی گئی)۔  
(اگر آپ سخت پرو انڈیا یا پروپاکستان ہیں (یا پھر اینٹی انڈیا یا اینٹی پاکستان) تو اپنے ڈبل سٹینڈرڈ کو نظرانداز کر کے دوسرے پر تنقید کریں گے۔ اور اگر ایسا نہیں تو آپ پہچان چکے ہوں گے کہ سیاست تو ایسے ہی ہوتی ہے)۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 جب تک یومِ آزادی آیا تو انڈیا میں موجودہ ریاستوں میں سے حیدرآباد، جموں و کشمیر، جوناگڑھ، مناوادر اور منگرول کے سوا تمام حکمران الحاق کے معاہدوں پر دستخط کر چکے تھے۔ پاکستان سے باقاعدہ الحاق کرنے کے لئے پاکستان کے قیام کا انتظار تھا۔ امب، بہاولپور، چترال، دیر، قلات، خیرپور، خاران، لسبیلہ، مکران اور سوات کا پاکستان سے الحاق کا معاملہ طے ہو گیا۔ آخری ریاست قلات کی تھی جس کا الحاق 27 مارچ 1948 کو ہوا۔
اور کشمیر کی طرف واپس جانے سے پہلے ہم ایک اور چھوٹا سا موڑ لیتے ہیں اور ایک نظر پاکستان سے ہونے والے اس آخری الحاق پر ڈالتے ہیں جو ہمیں دکھائے گا کہ یہ فیصلے کس قدر پرپیچ اور دشوار تھے۔   

(جاری ہے)

 

ساتھ لگی تصویر اس وقت کی جب یہ نواب مارچ 1941 میں اکٹھے ہوئے تھے۔ شہزادوں کا یہ چیمبر پچیس جولائی 1947 کے بعد تحلیل کر دیا گیا۔
 

 


 

 


 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں