باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 23 نومبر، 2021

کینسر (33) ۔ کینسر ایکٹ


 رچرڈ نکسن بے صبرے، جارحانہ اور حدف کے لئے کام کرنے والے امریکی صدر تھے۔ اور وہ تحقیق میں بھی ایسے طریقے کی طرف جھکاوٗ رکھتے تھے۔ بغیر خاص مقصد کے کھلی تحقیق کرنے کا تصور انہیں تنگ کرتا تھا۔
نکسن کا خیال تھا کہ سائنس اتنا سنجیدہ کام ہے کہ اس کو سائنسدانوں کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مقرر کردہ ایڈ ڈیوڈ پہلے مشیرِ سائنس تھے جن کا یونیورسٹی تحقیق سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ انہیں بیل لیبارٹری کی انتظامیہ سے لیا گیا تھا اور مینڈیٹ دیا گیا تھا کہ سائنسی آپریشن موثر ہوں۔ توانائیاں واضح اور پہلے سے متعین کردہ قومی مقاصد کے حصول کے لئے خرچ کی جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کینسر کو فتح کرنے کا قومی پروگرام” 1970 میں اسی فکر کا نتیجہ تھا۔ خیال یہ تھا کہ کینسر کی تحقیق پر ناسا کی طرز کا ادارہ ہو۔ اس کی ابتدائی سالانہ فنڈنگ چالیس کروڑ ڈالر ہو جس میں ہر سال دس سے پندرہ کروڑ ڈالر کا مزید اضافہ کیا جائے اور اس کو ایک ارب ڈالر سالانہ تک لے جایا جائے۔ جب اس کو تجویز کرنے والے پینل کے ممبر بینو شمٹ سے پوچھا گیا کہ “کیا ہم اتنا پیسہ ایک پروگرام پر خرچ کرنا کو افورڈ کر سکتے ہیں؟” تو ان کا جواب تھا کہ “ہم ایسا نہ کرنا افورڈ نہیں کر سکتے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نو مارچ 1971 کو امریکی سینیٹ میں “کینسر کے خلاف فتح کا ایکٹ” پیش ہوا۔ اس کے تحت قومی کینسر اتھارٹی کا قیام عمل میں آنا تھا۔ اس کی حمایت حاصل کرنے کے لئے میری لاسکر اور ان کے تنظیم نے ملک گیر مہم چلائی۔ “اگر ہم انسان کو چاند پر پہنچا سکتے ہیں تو کینسر کا علاج کیوں نہیں ڈھونڈ سکتے؟”۔  سینیٹرز کو لکھے خطوط کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ ٹرک بوریاں بھر کر یہ خط لے کر آتے تھے۔ ایک سینیٹر نے کہا کہ ان کو ملنے والے خطوط کی تعداد ساٹھ ہزار ہو چکی ہے۔
اس پر بحث اور مکالمہ ختم ہونے کے بعد ساتھ جولائی کو اس کو ووٹ کے لئے پیش کیا گیا۔ جب گنتی ہوئی تو 79 ووٹ اس کے حق میں آئے تھے جبکہ ایک ووٹ اس بل کے خلاف تھا۔
اب یہ بل کانگریس کے پاس پہنچ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کانگریس میں ہونے والی کارروائی کے دوران کئی مخالفانہ آراء آتی رہیں۔
صحت کے سابقہ سیکرٹری فلپ لی کا کہنا تھا، “کینسر کا علاج کوئی جزیرہ نہیں جس تک پہنچنے کے لئے بحری جہاز تیار کرنا ہے۔ اپالو پروگرام میں ہمیں سرمایہ، لوگ اور سہولیات کو یکجا کرنا تھا تا کہ مقصد حاصل کیا جا سکے۔ اس میں نئے سائنسی علم کی ضرورت نہیں تھی”۔  
ڈی این اے کا سٹرکچر دریافت کرنے والے جیمز واٹسن کا کہنا تھا، “سینیٹ کا بل کم عقلی ہے۔ “متعلقہ” ریسرچ کا مطلب اچھی ریسرچ نہیں ہوتا۔ کینسر ریسرچ کے لئے ناسا کی طرز کا پروگرام بنایا گیا تو پھر ہم اچھی نیت سے کی گئی اوسط درجے کی اور بے کار تحقیق دیکھیں گے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طویل بحث اور کئی ترامیم کے بعد دسمبر  1971 کو اسے ووٹ کے لئے پیش کیا گیا۔ اس کے حق میں 350 جبکہ مخالفت میں پانچ ووٹ آئے۔ صدر نے ایک تقریب میں نیشنل کینسر ایکٹ پر 23 دسمبر کو دستخط کر دئے۔ کینسر کی تحقیق کے لئے چالس کروڑ ڈالر مختص کر دئے گئے تھے۔ اس سے اگلے برس پچاس کروڑ اور اس سے اگلے برس ساٹھ کروڑ ڈالر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی سائنسدان اس طریقے کے خلاف تھے۔ شکاگو ٹرابیون میں چھپنے والے آرٹیکل میں “کریش پروگرام سے ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ یہ خود کریش ہو جاتے ہیں”۔
لیکن یہ اقلیتی رائے تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ کینسر کی تسخیر ہونے کو ہے۔ اگلے دس سال میں کینسر پر دسترس حاصل کر لی جائے گی۔ اس قانون کی منظوری سے کینسر کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کیا گیا تھا اور اس پر تحقیق کے پروگرام کے لئے فنڈنگ کی کمی نہیں تھی۔
(جاری ہے)  

 

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں